باب: شعر سننا سنانا،شعر میں کہی گئی عمدہ ترین بات ،اور (برے)شعر کی مذمت
)
Muslim:
The Book of Poetry
(Chapter: Reciting Poety, The Most Poetic Of Words, And Criticsm Of Poetry)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2255.
عمرو ناقد اور ابن ابی عمر، دونوں نے ابن عیینہ سے روایت کی۔ ابن ابی عمر نے کہا: ہمیں سفیان بن عیینہ نے حدیث بیان کی، ابرا ہیم بن میسرہ سے روایت ہے ،انھوں نے عمرو بن شرید سے، انھوں نے اپنے والد سے روایت کی کہا: ایک دن میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سوار ہوا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا تمھیں امیہ بن ابی صلت کے شعروں میں سے کچھ یاد ہے؟‘‘ میں نے عرض کی، جی ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تو لاؤ (سناؤ۔)‘‘ میں نے آپﷺ کو ایک شعر سنایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اور سناؤ۔‘‘ میں نے ایک اور شعر سنایا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اور سناؤ۔‘‘ میں نے ایک اور شعر سنایا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اورسناؤ۔‘‘ یہاں تک کہ میں نے آپﷺ کو ایک سو اشعار سنائے۔
عرب فصاحت و بلاغت کے رسیا تھا اچھے لفظ اور اچھے جملے کہتے اور ان سے لطف اندوز ہوتے۔ ان کے شعر میں غنایت بھری ہوئی تھی ،اس سے کلام کا اثر کئی گنا بڑھ جاتا تھالیکن بدقسمتی سے زوال اور جاہلیت کے دور میں ان کی شاعری صرف جاہلی اقدار کی ترجمان بن کر رہ گئی ۔شاعر ی کے موضوعات میں عریاں غزل اور تشبیب ،فخر و تعلّی،بدتریں ہجو گوئی ،جھوٹ پر مبنی مدح سرائی،خمریات وغیرہ کے علاوہ اور کچھ نہ تھا خال خال حکمت و دانائی کی باتیں تھیں۔ ان سب موضوعات میں نمایاں ترین بات حد سے بڑھی ہوئی مبالغہ آرائی تھی یہاں تک کہ وہ خود کہتے ((اِنَّ أحْسَنَ الشِّرِ أكْذَبُهُ))’’بہترین شعر وہ ہے جو سب سے بڑھ کر جھوٹ پر مبنی ہو۔‘‘ اور اس طرح کی شاعری کو بجا طور پر شیطان کا الہام کہتے ۔ان کے نزدیک یہ ایک مسلمہ بات تھی کہ ہر شاعر کے پیچھے ایک شیطان ہوتا ہے جو اسے شعر الہام کرتا ہے ،وہ اس بات پر فخر بھی کرتے تھے کسی نے اپنے مد مقابل شاعر کو کم مرتبہ ظاہر کرنے کے لیے یہ کہا:(شَيْطَانُهُ أُنْثى وَشَيْطَانِي ذَكَرَ)’’اس كا شیطان مؤنث ہے (اس لیے اس کی شاعر ی میں زور کم ہے اور میرا شیطان مذکر (نر) ہے۔‘‘ قرآن مجید نے یہ کہہ کر :( وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ . أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ)’’اور شاعروں کے پیچھے گمراہ لوگ لگتے ہیں ۔کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بلاشبہ وہ ہر وادی میں سر مارتے پھرتے ہیں ‘‘(الشعراء 26:224.225) اس بات کی وضاحت کر دی کہ خرابی کہاں ہے اور پھر سورۃ الشعراء کی آخری آیت کے ذریعے سے اچھی شاعری اور صحیح شعراء کو مستثنیٰ کر دیا۔
جب اسلام کا آغاز ہوا تو اس وقت کا شعری ورثہ انھی خرافات پر مشتمل تھا۔ اس لیے اس سارے ورثے کو مسترد کر نا عین فطری بات تھی لیکن اسلام چونکہ عدل و انصاف کا دین ہے ،اس لیے اس سے سارے ورثے کو مسترد کرنا عین فطری بات تھی لیکن اسلام چونکہ عدل و انصاف کا دین ہے اس لیے اس سارے مجموعے میں تھوڑے سے تھوڑا جتنا بھی حصہ دانائی پر مشتمل تھا یا جاہلیت کی کی خرافات سے محفوظ تھا ،اس کو قبول کر لیا گیا لبید کے شعر کو رسول اللہ ﷺ نے سراہا اور بھی بعض اشعار ہیں جن کی تحسین یا جن کے استعمال کے حوالے سے کچھ روایات ملتی ہیں۔
احادیث جو تردید آئی ہے وہ فن شاعری کی نہیں جاہلیت کی ان اقدار کی ہے جن کی وہ شاعری ترجمان تھی وہ شعر جو سچائی اور دانائی کا ترجمان تھا اسے نہ صرف قبول کیا گیا بلکہ اس کی باقاعدہ حوصلہ افزائی ہوئی حضرت حسان کے قصائد کے لیے مسجد میں منبر رکھا جاتا۔کعب بن زبیر کو انعام میں چادر عطا ہوئی امیہ بن صلت کے اشعار آپ نے خود فرمائش کر کے سنے ۔(حدیث:5885) آپ ﷺ نے یہ فرما کر شعر کو بہت بڑا سرٹیفکیٹ عطا فرمایا: (إنَّ مِنَ الشِّرِ حِكْمَةً)’’بلا شبہ بعض شعر حکمت والے ہوتے ہیں ۔‘‘صحیح البخاری:6145) شعر کے حوالے سے حقیقت کشا قول حضرت عائشہ ؓ کا ہے جو امام بخاری نے الأدب المفرد روایت کیا ہے :(اَلشِّعْرُ مِنْهُ حَسَنٌ وَّ مِنْهُ قَبِيْحٌ خُذِ الْحَسَنَ وَ دَعِ الْقَبِيِحَ)شعر میں سے کوئی اچھا ہے اور کوئی برا،اچھا لے لو اور برا چھوڑ دو۔‘‘(الأدب المفرد للبخاری،حدیث:866)صفحہ 398
عمرو ناقد اور ابن ابی عمر، دونوں نے ابن عیینہ سے روایت کی۔ ابن ابی عمر نے کہا: ہمیں سفیان بن عیینہ نے حدیث بیان کی، ابرا ہیم بن میسرہ سے روایت ہے ،انھوں نے عمرو بن شرید سے، انھوں نے اپنے والد سے روایت کی کہا: ایک دن میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سوار ہوا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا تمھیں امیہ بن ابی صلت کے شعروں میں سے کچھ یاد ہے؟‘‘ میں نے عرض کی، جی ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تو لاؤ (سناؤ۔)‘‘ میں نے آپﷺ کو ایک شعر سنایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اور سناؤ۔‘‘ میں نے ایک اور شعر سنایا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اور سناؤ۔‘‘ میں نے ایک اور شعر سنایا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اورسناؤ۔‘‘ یہاں تک کہ میں نے آپﷺ کو ایک سو اشعار سنائے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمرو بن شرید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں، ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تمہیں، امیہ بن ابی صلت کے اشعار میں سے کچھ یاد ہیں؟‘‘ میں نے کہا، جی ہاں، آپﷺ نے فرمایا: ’’سناؤ۔‘‘میں نے آپﷺ کو ایک شعر سنایا، آپﷺ نے فرمایا: ’’اور سناؤ۔‘‘ پھر میں نے آپ کو ایک شعرسنایا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اور‘‘ حتیٰ کہ میں نے آپﷺ کو سو(100) اشعار سنائے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Amr bin Sharid reported his father as saying: One day when I rode behind Allah's Messenger (ﷺ) , he said (to me): Do you remember any Poetry of Umayya bin Abu Salt. I said: Yes. He said: Then go on. I recited a couplet, and he said: Go on. Then I again recited a couplet and he said: Go on. I recited one hundred couplets (of his poetry).