باب: شعر سننا سنانا،شعر میں کہی گئی عمدہ ترین بات ،اور (برے)شعر کی مذمت
)
Muslim:
The Book of Poetry
(Chapter: Reciting Poety, The Most Poetic Of Words, And Criticsm Of Poetry)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2257.
ابو بکر بن ابی شیبہ نے کہا ہمیں حفص اور ابو معاویہ نے حدیث بیان کی۔ ابو کریب نے کہا: ہمیں ابو معاویہ نے حدیث بیان کی، ان دونوں (ابو معاویہ اور حفص) نے اعمش سے روایت کی، ابو سعید اشج نے کہا: ہمیں وکیع نے حدیث بیان کی کہا: ہمیں اعمش نے ابو صالح سے، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کسی انسا ن کے پیٹ میں پیپ بھر جانا جو اس کے پیٹ کو تباہ کر دے، شعر کے ساتھ بھر جانے کی نسبت بہتر ہے۔‘‘ ابو بکر نے کہا: مگر حفص نے ’’يَريهِ‘‘ (جو اس کے پیٹ کو تباہ کردے) کے الفا ظ روایت نہیں کیے ۔
تشریح:
فائدہ:
جوفِ انسانی جسم کے اس حصے کو کہتے ہیں جس میں دل، پھیپھڑے، معدہ اور انتڑیاں وغیرہ رکھی گئی ہیں۔ مقصودیہ ہے کہ اگر انسان کی پوری توجہ روایتی شعرو شاعری کی طرف ہے جس طرح جاہلی دور کے بہت سے لوگوں کا حال تھا، تو اس کے دل میں نہ اللہ کی یاد کی گنجائش باقی رہے گی، نہ کسی اور اچھی با ت کی۔ اس سے اس کی آخرت تباہ ہو جائے گی۔ جبکہ پیٹ کے زخموں سے محض دنیوی زندگی خراب ہو گی۔ عربی میں ’’وری‘‘ پھیپھڑوں کے پیپ بھرے زخم کو کہتے ہیں جو انھیں تباہ کر دیتا ہے۔
عرب فصاحت و بلاغت کے رسیا تھا اچھے لفظ اور اچھے جملے کہتے اور ان سے لطف اندوز ہوتے۔ ان کے شعر میں غنایت بھری ہوئی تھی ،اس سے کلام کا اثر کئی گنا بڑھ جاتا تھالیکن بدقسمتی سے زوال اور جاہلیت کے دور میں ان کی شاعری صرف جاہلی اقدار کی ترجمان بن کر رہ گئی ۔شاعر ی کے موضوعات میں عریاں غزل اور تشبیب ،فخر و تعلّی،بدتریں ہجو گوئی ،جھوٹ پر مبنی مدح سرائی،خمریات وغیرہ کے علاوہ اور کچھ نہ تھا خال خال حکمت و دانائی کی باتیں تھیں۔ ان سب موضوعات میں نمایاں ترین بات حد سے بڑھی ہوئی مبالغہ آرائی تھی یہاں تک کہ وہ خود کہتے ((اِنَّ أحْسَنَ الشِّرِ أكْذَبُهُ))’’بہترین شعر وہ ہے جو سب سے بڑھ کر جھوٹ پر مبنی ہو۔‘‘ اور اس طرح کی شاعری کو بجا طور پر شیطان کا الہام کہتے ۔ان کے نزدیک یہ ایک مسلمہ بات تھی کہ ہر شاعر کے پیچھے ایک شیطان ہوتا ہے جو اسے شعر الہام کرتا ہے ،وہ اس بات پر فخر بھی کرتے تھے کسی نے اپنے مد مقابل شاعر کو کم مرتبہ ظاہر کرنے کے لیے یہ کہا:(شَيْطَانُهُ أُنْثى وَشَيْطَانِي ذَكَرَ)’’اس كا شیطان مؤنث ہے (اس لیے اس کی شاعر ی میں زور کم ہے اور میرا شیطان مذکر (نر) ہے۔‘‘ قرآن مجید نے یہ کہہ کر :( وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ . أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ)’’اور شاعروں کے پیچھے گمراہ لوگ لگتے ہیں ۔کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بلاشبہ وہ ہر وادی میں سر مارتے پھرتے ہیں ‘‘(الشعراء 26:224.225) اس بات کی وضاحت کر دی کہ خرابی کہاں ہے اور پھر سورۃ الشعراء کی آخری آیت کے ذریعے سے اچھی شاعری اور صحیح شعراء کو مستثنیٰ کر دیا۔
جب اسلام کا آغاز ہوا تو اس وقت کا شعری ورثہ انھی خرافات پر مشتمل تھا۔ اس لیے اس سارے ورثے کو مسترد کر نا عین فطری بات تھی لیکن اسلام چونکہ عدل و انصاف کا دین ہے ،اس لیے اس سے سارے ورثے کو مسترد کرنا عین فطری بات تھی لیکن اسلام چونکہ عدل و انصاف کا دین ہے اس لیے اس سارے مجموعے میں تھوڑے سے تھوڑا جتنا بھی حصہ دانائی پر مشتمل تھا یا جاہلیت کی کی خرافات سے محفوظ تھا ،اس کو قبول کر لیا گیا لبید کے شعر کو رسول اللہ ﷺ نے سراہا اور بھی بعض اشعار ہیں جن کی تحسین یا جن کے استعمال کے حوالے سے کچھ روایات ملتی ہیں۔
احادیث جو تردید آئی ہے وہ فن شاعری کی نہیں جاہلیت کی ان اقدار کی ہے جن کی وہ شاعری ترجمان تھی وہ شعر جو سچائی اور دانائی کا ترجمان تھا اسے نہ صرف قبول کیا گیا بلکہ اس کی باقاعدہ حوصلہ افزائی ہوئی حضرت حسان کے قصائد کے لیے مسجد میں منبر رکھا جاتا۔کعب بن زبیر کو انعام میں چادر عطا ہوئی امیہ بن صلت کے اشعار آپ نے خود فرمائش کر کے سنے ۔(حدیث:5885) آپ ﷺ نے یہ فرما کر شعر کو بہت بڑا سرٹیفکیٹ عطا فرمایا: (إنَّ مِنَ الشِّرِ حِكْمَةً)’’بلا شبہ بعض شعر حکمت والے ہوتے ہیں ۔‘‘صحیح البخاری:6145) شعر کے حوالے سے حقیقت کشا قول حضرت عائشہ ؓ کا ہے جو امام بخاری نے الأدب المفرد روایت کیا ہے :(اَلشِّعْرُ مِنْهُ حَسَنٌ وَّ مِنْهُ قَبِيْحٌ خُذِ الْحَسَنَ وَ دَعِ الْقَبِيِحَ)شعر میں سے کوئی اچھا ہے اور کوئی برا،اچھا لے لو اور برا چھوڑ دو۔‘‘(الأدب المفرد للبخاری،حدیث:866)صفحہ 398
ابو بکر بن ابی شیبہ نے کہا ہمیں حفص اور ابو معاویہ نے حدیث بیان کی۔ ابو کریب نے کہا: ہمیں ابو معاویہ نے حدیث بیان کی، ان دونوں (ابو معاویہ اور حفص) نے اعمش سے روایت کی، ابو سعید اشج نے کہا: ہمیں وکیع نے حدیث بیان کی کہا: ہمیں اعمش نے ابو صالح سے، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کسی انسا ن کے پیٹ میں پیپ بھر جانا جو اس کے پیٹ کو تباہ کر دے، شعر کے ساتھ بھر جانے کی نسبت بہتر ہے۔‘‘ ابو بکر نے کہا: مگر حفص نے ’’يَريهِ‘‘ (جو اس کے پیٹ کو تباہ کردے) کے الفا ظ روایت نہیں کیے ۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
جوفِ انسانی جسم کے اس حصے کو کہتے ہیں جس میں دل، پھیپھڑے، معدہ اور انتڑیاں وغیرہ رکھی گئی ہیں۔ مقصودیہ ہے کہ اگر انسان کی پوری توجہ روایتی شعرو شاعری کی طرف ہے جس طرح جاہلی دور کے بہت سے لوگوں کا حال تھا، تو اس کے دل میں نہ اللہ کی یاد کی گنجائش باقی رہے گی، نہ کسی اور اچھی با ت کی۔ اس سے اس کی آخرت تباہ ہو جائے گی۔ جبکہ پیٹ کے زخموں سے محض دنیوی زندگی خراب ہو گی۔ عربی میں ’’وری‘‘ پھیپھڑوں کے پیپ بھرے زخم کو کہتے ہیں جو انھیں تباہ کر دیتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انسان کے پیٹ میں ایسی پیپ بھر جائے، جو اس کو بگاڑ دے، اس سے بہتر ہے کہ اس کا پیٹ شعروں سے بھرے۔‘‘ حفص کی روایت میں ’’يريه‘‘ کا لفظ نہیں ہے۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) يَريه: جو اس کو بگاڑ دے۔ (2) الوري: اس بیماری کو کہتے ہیں، جو پیٹ کو خراب کر دے یا اس کے پھیپڑوں کو کھا جائے۔
فوائد ومسائل
انسان پر اشعار کا اس قدر غلبہ اور تسلط کہ وہ قرآن و سنت اور علوم شرعیہ کی تحصیل سے محروم ہو جائے اور یاد الٰہی اور فرائض سے غافل رہے ناپسندیدہ ہے، اگرچہ وہ اشعار اچھے ہی کیوں نہ ہوں، لیکن وہ اشعار، جو کفرو فسق کی تعلیم دیتے ہیں، جن میں کسی کی پگڑی اچھالی گئی ہو یا عشق و محبت میں ڈوب کر کسی عورت کی مداح سرائی کی گئی، یا خلاف شریعت ہوں تو ایسے اشعار ہر حالت میں ناپسندیدہ اور مذموم ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported Allah's Messenger (may peace be opon him) as saying: It is better for a man's belly to be stuffed with pus which corrodes it than to stuff one's mind with frivolous poetry. Abu Bakr (RA) has reported it with a slight variation Of wording.