باب: شعر سننا سنانا،شعر میں کہی گئی عمدہ ترین بات ،اور (برے)شعر کی مذمت
)
Muslim:
The Book of Poetry
(Chapter: Reciting Poety, The Most Poetic Of Words, And Criticsm Of Poetry)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2259.
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہا : ایک بار رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ’’عرج‘‘ کے علاقے میں جا رہے تھے کہ ایک شاعر شعر پڑھتا ہوا سامنے سے گزرا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’شیطان کو پکڑو، یا (فرمایا) شیطان کو روکو، انسان کے پیٹ کا پیپ سے بھر جانا اس سے بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھرے۔‘‘
تشریح:
فائدہ:
یہ شاعر جاہلی دور کی مروجہ شاہری جوکذب کی حد تک پہنچی ہوئی مبالغہ آرائی، فخروتعلی، خواتین کا نام لے کر ان کے ساتھ اظہار عشق اور خمریات وغیرہ پر مبنی ہوتی تھی، بلند آواز سے سناتے جا رہے تھے۔ ایسی شاعری یقیناً شیطان کے پروگرام کی اشاعت کا کام کرتی ہے۔
عرب فصاحت و بلاغت کے رسیا تھا اچھے لفظ اور اچھے جملے کہتے اور ان سے لطف اندوز ہوتے۔ ان کے شعر میں غنایت بھری ہوئی تھی ،اس سے کلام کا اثر کئی گنا بڑھ جاتا تھالیکن بدقسمتی سے زوال اور جاہلیت کے دور میں ان کی شاعری صرف جاہلی اقدار کی ترجمان بن کر رہ گئی ۔شاعر ی کے موضوعات میں عریاں غزل اور تشبیب ،فخر و تعلّی،بدتریں ہجو گوئی ،جھوٹ پر مبنی مدح سرائی،خمریات وغیرہ کے علاوہ اور کچھ نہ تھا خال خال حکمت و دانائی کی باتیں تھیں۔ ان سب موضوعات میں نمایاں ترین بات حد سے بڑھی ہوئی مبالغہ آرائی تھی یہاں تک کہ وہ خود کہتے ((اِنَّ أحْسَنَ الشِّرِ أكْذَبُهُ))’’بہترین شعر وہ ہے جو سب سے بڑھ کر جھوٹ پر مبنی ہو۔‘‘ اور اس طرح کی شاعری کو بجا طور پر شیطان کا الہام کہتے ۔ان کے نزدیک یہ ایک مسلمہ بات تھی کہ ہر شاعر کے پیچھے ایک شیطان ہوتا ہے جو اسے شعر الہام کرتا ہے ،وہ اس بات پر فخر بھی کرتے تھے کسی نے اپنے مد مقابل شاعر کو کم مرتبہ ظاہر کرنے کے لیے یہ کہا:(شَيْطَانُهُ أُنْثى وَشَيْطَانِي ذَكَرَ)’’اس كا شیطان مؤنث ہے (اس لیے اس کی شاعر ی میں زور کم ہے اور میرا شیطان مذکر (نر) ہے۔‘‘ قرآن مجید نے یہ کہہ کر :( وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ . أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ)’’اور شاعروں کے پیچھے گمراہ لوگ لگتے ہیں ۔کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بلاشبہ وہ ہر وادی میں سر مارتے پھرتے ہیں ‘‘(الشعراء 26:224.225) اس بات کی وضاحت کر دی کہ خرابی کہاں ہے اور پھر سورۃ الشعراء کی آخری آیت کے ذریعے سے اچھی شاعری اور صحیح شعراء کو مستثنیٰ کر دیا۔
جب اسلام کا آغاز ہوا تو اس وقت کا شعری ورثہ انھی خرافات پر مشتمل تھا۔ اس لیے اس سارے ورثے کو مسترد کر نا عین فطری بات تھی لیکن اسلام چونکہ عدل و انصاف کا دین ہے ،اس لیے اس سے سارے ورثے کو مسترد کرنا عین فطری بات تھی لیکن اسلام چونکہ عدل و انصاف کا دین ہے اس لیے اس سارے مجموعے میں تھوڑے سے تھوڑا جتنا بھی حصہ دانائی پر مشتمل تھا یا جاہلیت کی کی خرافات سے محفوظ تھا ،اس کو قبول کر لیا گیا لبید کے شعر کو رسول اللہ ﷺ نے سراہا اور بھی بعض اشعار ہیں جن کی تحسین یا جن کے استعمال کے حوالے سے کچھ روایات ملتی ہیں۔
احادیث جو تردید آئی ہے وہ فن شاعری کی نہیں جاہلیت کی ان اقدار کی ہے جن کی وہ شاعری ترجمان تھی وہ شعر جو سچائی اور دانائی کا ترجمان تھا اسے نہ صرف قبول کیا گیا بلکہ اس کی باقاعدہ حوصلہ افزائی ہوئی حضرت حسان کے قصائد کے لیے مسجد میں منبر رکھا جاتا۔کعب بن زبیر کو انعام میں چادر عطا ہوئی امیہ بن صلت کے اشعار آپ نے خود فرمائش کر کے سنے ۔(حدیث:5885) آپ ﷺ نے یہ فرما کر شعر کو بہت بڑا سرٹیفکیٹ عطا فرمایا: (إنَّ مِنَ الشِّرِ حِكْمَةً)’’بلا شبہ بعض شعر حکمت والے ہوتے ہیں ۔‘‘صحیح البخاری:6145) شعر کے حوالے سے حقیقت کشا قول حضرت عائشہ ؓ کا ہے جو امام بخاری نے الأدب المفرد روایت کیا ہے :(اَلشِّعْرُ مِنْهُ حَسَنٌ وَّ مِنْهُ قَبِيْحٌ خُذِ الْحَسَنَ وَ دَعِ الْقَبِيِحَ)شعر میں سے کوئی اچھا ہے اور کوئی برا،اچھا لے لو اور برا چھوڑ دو۔‘‘(الأدب المفرد للبخاری،حدیث:866)صفحہ 398
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہا : ایک بار رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ’’عرج‘‘ کے علاقے میں جا رہے تھے کہ ایک شاعر شعر پڑھتا ہوا سامنے سے گزرا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’شیطان کو پکڑو، یا (فرمایا) شیطان کو روکو، انسان کے پیٹ کا پیپ سے بھر جانا اس سے بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
یہ شاعر جاہلی دور کی مروجہ شاہری جوکذب کی حد تک پہنچی ہوئی مبالغہ آرائی، فخروتعلی، خواتین کا نام لے کر ان کے ساتھ اظہار عشق اور خمریات وغیرہ پر مبنی ہوتی تھی، بلند آواز سے سناتے جا رہے تھے۔ ایسی شاعری یقیناً شیطان کے پروگرام کی اشاعت کا کام کرتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم عرج مقام پر چل رہے تھے کہ اس دوران ایک شاعر سامنے آ کرشعر سنانے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’شیطان کو پکڑو یا شیطان کو روکو، انسان کا پیٹ پیپ سے بھر جائے، اس سے بہتر ہے کہ وہ شعروں سے بھرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Sa`id Khudri reported: We were going with Allah's Messenger (ﷺ) . As we reached the place (known as) Arj there met (us) a poet who had been reciting poetry. Thereupon Allah's Messenger (ﷺ) said: Catch the satan or detain the satan, for filling the belly of a man with pus is better than stuffing his brain with poetry.