Muslim:
The Book of Poetry
(Chapter: The Prohibition Of Playing Nardashir)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2260.
سلیمان کے والد حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے چوسر کھیلی تو گویا اس نے اپنے ہاتھ کو خنزیر کے خون اور گو شت سے رنگ لیا۔‘‘
تشریح:
فائدہ:
’’نرد شیر‘‘ اسی نام کے ایک ایرانی بادشاہ کا ایجاد کردہ کھیل ہے۔ اس میں دو رنگ کی بساط ہوتی ہے۔ گوٹیاں بھی ہوتی ہیں اور دورنگ کا پانسہ بھی۔ اسے ایک ڈبیا میں ڈال کر نکالا جاتا ہے اور جس رنگ کا پانسہ نکلے اس کے مطابق کھیل کو آگے بڑھایا جاتا ہہے۔ انگلش میں اسے ’’Backgammon‘‘ کہتے ہیں۔ ایسے کھیل انسان کو اللہ کی یاد اور دنیا ہر ضروری کام سے مکمل طور پر غافل کر دیتے ہیں۔
عرب فصاحت و بلاغت کے رسیا تھا اچھے لفظ اور اچھے جملے کہتے اور ان سے لطف اندوز ہوتے۔ ان کے شعر میں غنایت بھری ہوئی تھی ،اس سے کلام کا اثر کئی گنا بڑھ جاتا تھالیکن بدقسمتی سے زوال اور جاہلیت کے دور میں ان کی شاعری صرف جاہلی اقدار کی ترجمان بن کر رہ گئی ۔شاعر ی کے موضوعات میں عریاں غزل اور تشبیب ،فخر و تعلّی،بدتریں ہجو گوئی ،جھوٹ پر مبنی مدح سرائی،خمریات وغیرہ کے علاوہ اور کچھ نہ تھا خال خال حکمت و دانائی کی باتیں تھیں۔ ان سب موضوعات میں نمایاں ترین بات حد سے بڑھی ہوئی مبالغہ آرائی تھی یہاں تک کہ وہ خود کہتے ((اِنَّ أحْسَنَ الشِّرِ أكْذَبُهُ))’’بہترین شعر وہ ہے جو سب سے بڑھ کر جھوٹ پر مبنی ہو۔‘‘ اور اس طرح کی شاعری کو بجا طور پر شیطان کا الہام کہتے ۔ان کے نزدیک یہ ایک مسلمہ بات تھی کہ ہر شاعر کے پیچھے ایک شیطان ہوتا ہے جو اسے شعر الہام کرتا ہے ،وہ اس بات پر فخر بھی کرتے تھے کسی نے اپنے مد مقابل شاعر کو کم مرتبہ ظاہر کرنے کے لیے یہ کہا:(شَيْطَانُهُ أُنْثى وَشَيْطَانِي ذَكَرَ)’’اس كا شیطان مؤنث ہے (اس لیے اس کی شاعر ی میں زور کم ہے اور میرا شیطان مذکر (نر) ہے۔‘‘ قرآن مجید نے یہ کہہ کر :( وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ . أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ)’’اور شاعروں کے پیچھے گمراہ لوگ لگتے ہیں ۔کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بلاشبہ وہ ہر وادی میں سر مارتے پھرتے ہیں ‘‘(الشعراء 26:224.225) اس بات کی وضاحت کر دی کہ خرابی کہاں ہے اور پھر سورۃ الشعراء کی آخری آیت کے ذریعے سے اچھی شاعری اور صحیح شعراء کو مستثنیٰ کر دیا۔
جب اسلام کا آغاز ہوا تو اس وقت کا شعری ورثہ انھی خرافات پر مشتمل تھا۔ اس لیے اس سارے ورثے کو مسترد کر نا عین فطری بات تھی لیکن اسلام چونکہ عدل و انصاف کا دین ہے ،اس لیے اس سے سارے ورثے کو مسترد کرنا عین فطری بات تھی لیکن اسلام چونکہ عدل و انصاف کا دین ہے اس لیے اس سارے مجموعے میں تھوڑے سے تھوڑا جتنا بھی حصہ دانائی پر مشتمل تھا یا جاہلیت کی کی خرافات سے محفوظ تھا ،اس کو قبول کر لیا گیا لبید کے شعر کو رسول اللہ ﷺ نے سراہا اور بھی بعض اشعار ہیں جن کی تحسین یا جن کے استعمال کے حوالے سے کچھ روایات ملتی ہیں۔
احادیث جو تردید آئی ہے وہ فن شاعری کی نہیں جاہلیت کی ان اقدار کی ہے جن کی وہ شاعری ترجمان تھی وہ شعر جو سچائی اور دانائی کا ترجمان تھا اسے نہ صرف قبول کیا گیا بلکہ اس کی باقاعدہ حوصلہ افزائی ہوئی حضرت حسان کے قصائد کے لیے مسجد میں منبر رکھا جاتا۔کعب بن زبیر کو انعام میں چادر عطا ہوئی امیہ بن صلت کے اشعار آپ نے خود فرمائش کر کے سنے ۔(حدیث:5885) آپ ﷺ نے یہ فرما کر شعر کو بہت بڑا سرٹیفکیٹ عطا فرمایا: (إنَّ مِنَ الشِّرِ حِكْمَةً)’’بلا شبہ بعض شعر حکمت والے ہوتے ہیں ۔‘‘صحیح البخاری:6145) شعر کے حوالے سے حقیقت کشا قول حضرت عائشہ ؓ کا ہے جو امام بخاری نے الأدب المفرد روایت کیا ہے :(اَلشِّعْرُ مِنْهُ حَسَنٌ وَّ مِنْهُ قَبِيْحٌ خُذِ الْحَسَنَ وَ دَعِ الْقَبِيِحَ)شعر میں سے کوئی اچھا ہے اور کوئی برا،اچھا لے لو اور برا چھوڑ دو۔‘‘(الأدب المفرد للبخاری،حدیث:866)صفحہ 398
سلیمان کے والد حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے چوسر کھیلی تو گویا اس نے اپنے ہاتھ کو خنزیر کے خون اور گو شت سے رنگ لیا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
’’نرد شیر‘‘ اسی نام کے ایک ایرانی بادشاہ کا ایجاد کردہ کھیل ہے۔ اس میں دو رنگ کی بساط ہوتی ہے۔ گوٹیاں بھی ہوتی ہیں اور دورنگ کا پانسہ بھی۔ اسے ایک ڈبیا میں ڈال کر نکالا جاتا ہے اور جس رنگ کا پانسہ نکلے اس کے مطابق کھیل کو آگے بڑھایا جاتا ہہے۔ انگلش میں اسے ’’Backgammon‘‘ کہتے ہیں۔ ایسے کھیل انسان کو اللہ کی یاد اور دنیا ہر ضروری کام سے مکمل طور پر غافل کر دیتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت سلیمان بن بریدہ، اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو انسان نرد شیر کھیلتا ہے، گویا کہ وہ اپنا ہاتھ خنزیر کےگوشت اور اس کے خون میں ڈبوتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
ایسے تمام کھیل جن میں ذہنی یا جسمانی ورزش نہیں ہے یا ان میں ورزش تو ہے، لیکن ان میں جوا اور قمار پایا جاتا ہے یا وقت کا ضیا ع ہے یا وہ فرائض سے غافل کرتے ہیں اور انسان کے ذہن پر ہر وقت کھیل ہی سوار رہتا ہے اور کسی چیز کا اسے دھیان ہی نہیں رہتا، یہ سب کھیل ناجائز ہیں، اگرچہ سب کی حرمت یکساں نہیں، جتنا حرمت شریعت کو پامال کیا جائے گا، اتناہی وہ قبیح اور ناپسندیدہ ہوگا، لیکن اگر وہ کھیل صحت افزاء ہے یا جنگی مہارت میں ممدومعاون ہے اور فرائض کی ادائیگی میں حائل نہیں ہے، جیسے دوڑ، گھڑ سواری، نیزہ بازی، اسلحہ کی ٹریننگ، رسہ کشی، کشتی وغیرہ جبکہ ان میں شرط یا جوا نہ پایا جائے تو یہ کھیل جائز ہوں گے، لیکن بیٹھ کر کھیلے جانے والے کھیل، جن میں وقت کا ضیاع کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا، وہ درست نہیں ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Book 028, Number 5612: Buraida reported on the authority of his father that Allah's Apostle (ﷺ) said: He who played chess is like one who dyed his hand with the flesh and blood of swine.