باب: حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ اور ان کی والدہ ؓ کے فضائل
)
Muslim:
The Book of the Merits of the Companions
(Chapter: The Virtues Of 'Abdullah Bin Mas'ud And His Mother (RA))
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2462.
شقیق نے حضرت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ انھوں نے پڑھا: ”جو شخص چھپائے گا وہ قیامت کے دن اس چیز کو لے کر آئے گا“ ( آل عمران: 161) پھر کہا:مجھے تم لوگ کس آدمی کی قرآت کے مطابق (قرآن مجید) پڑھنے کا حکم کرتے ہو؟ جبکہ میں نے تو ستر سے اوپر سورتیں خود رسول اللہ کے سامنے تلاوت کیں اور رسول اللہ ﷺ کے صحابہ جانتے ہیں کہ میں اللہ کی کتاب کو ان سب کی نسبت زیادہ اچھی طرح جاننے والا ہوں۔ اگر مجھے پتہ ہوکہ کوئی شخص مجھ سے زیادہ جانتا ہے تومیں سفر کر کے اس کے پاس جاؤں۔ شفیق نے کہا: تو میں محمد ﷺ کے صحابہ کے حلقوں میں بیٹھا، میں نے نہیں سنا کہ کسی نے ان کی اس بات کی تردید کی ہو یا (ایسا کہنے کی وجہ سے) ان پر عیب لگایا ہو۔
تشریح:
فائدہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کا تعلق قبیلہ ہذیل سے تھا۔ قرآن مجید قریش کے لہجے کے علاوہ جن دوسرے لہجوں میں نازل ہوا، ان میں ہذیل کا لہجہ بھی تھا، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ اسی لہجے کے حامل تھے، ان کا مصحف اسی لہجے کے مطابق اور ترتیب نزول کے مطابق تھا۔ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی تجویز اور اصرار پر جمع قرآن کا فیصلہ کیا گیا تو یہ بھی طے کیا گیا کہ یہ نسخہ قریش کے لہجے کے مطابق ہو گا جو خود رسول اللہ ﷺ کا اپنا لہجہ تھا اور جس لہجے کا انتخاب اللہ عزوجل نے آپ کے قلب اطہر پر اولین نزول قرآن کے لیے کیا۔ قرآن مجید کی جمع تدوین کے لیے جن ماہر قرآن صحابہ کا انتخاب ہوا وہ سب لہجہ قریش کے ماہر تھے۔ انہوں نے جمع و ترتیب اور رسم الخط ہر اعتبار سے ایسا نسخہ مرتب کر دیا جس پر تمام صحابہ کا اجماع تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے اس کام کے بارے میں کوئی بنیادی اختلاف نہ تھا۔ ان کا موقف یہ تھا کہ قرآن قریش کے لہجے کے علاوہ جن لہجوں میں نازل ہوا، ان کے مطابق جومصاحف موجود ہیں انہیں ان کے مالکوں کے پاس رہنے دیا جائے اور جس طرح خود رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں ان سب لوگوں کو اپنے اپنے لہجوں کے مطابق جو سب کے سب منزل من اللہ تھے، مصاحف لکھنے اور پڑھنے کی اجازت تھی وہ اسی طرح برقرار رہنی چاہیے۔ دوسری طرف دیگر اکابر صحابہ کا موقف یہ تھا کہ قرآن مجید کے حوالے سے ہر طرح کے اختلافات ختم کرنے کے لیے سب لوگوں میں، خصوصاً اسلام میں داخل ہونے والے فوج در فوج خلقت میں صرف اور صرف قریش کا لہجہ رائج کیا جائے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے دلائل اپنی جگہ قوی تھے، اس لیے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دور خلافت میں جب لوگوں کو ایک رسم الخط پر جمع کرنے کے لیے قرآن مجید پر کام کرایا تو ان کو ان کے اپنے موقف پر رہنے دیا۔ باقی صحابہ کرام اور پوری امت نے وہی موقف اختیار کر لیا جو ان کے نزدیک صحیح تر تھا، اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے موقف پر رہنے دیا۔ نہ کسی نے ان کی تردید کی، اور نہ ہی ان پر ان کے موقف کے حوالے سے کوئی عیب لگایا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امت بغیر کسی انتشار کے ایک ہی نسخے پر متفق ہو گئی۔ اور دوسرے لہجوں پر مبنی مصاحف جو حصرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں ختم نہ کبھی کیے جاسکے تھے۔ امتدادِ زمانہ کے ساتھ ختم ہو گئے۔ لہجوں کے اختلاف کے باوجود، قرآن مجید کی نص کے حوالے سے کبھی کوئی اختلاف نہیں رہا۔
انبیائےکرامکےبعدرسول اللہﷺکےصحابہ کرامؓ کےفضائل بیان ہوئے۔ ان میں خلفائےراشدین ،پھرنمایاں مہاجرین ،اجل صحابیات اورانصارمیں سےنمایاں اصحاب کےفضائل شامل ہیں۔ رسول اللہﷺکےصحابہ انبیاءکےبعدان لوگوں کامجموعہ ہیں جن پراللہ نےانعام کیا:(الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ)’’یہ ان لوگوں کےساتھ ہوں گےجن پراللہ نےانعام کیا،نبیوں،صدیقوں،شہیدوں اورصالحین میں سےاوریہ لوگ اچھےساتھی ہیں۔‘‘(النساء4/69)ان حضرات کےفضائل میں اللہ اوررسول اللہﷺکےساتھ حقیقی ایمان اورحقیقی محبت ،دانائی،امت کی خدمت،سخاوت،شجاعت،جان نثاری غرض ان تمام خوبیوں کی دلآویزمثالیں سامنےآجاتی ہیں جواہل ایمان کواللہ اوراس کےرسول اللہﷺکےسامنےسرخروکرنےاوردنیاکی نظروں میں انتہائی عزت منداورقابل محبت بنانےکی ضامن ہیں۔ حضرت ابوبکرصدیق اکبرہیں۔ رسول اللہﷺکےساتھ ان کاتعلق اللہ اوراس کےرسول کےساتھ کامل ایمان اورانتہادرجےکی محبت پرمبنی ہے،اس لیے رسول اللہﷺنےاپنےاوران کےحوالےسےیہ ارشادفرمایا:(اثنين الله ثالثهما)’’ایسےدوجن کےدرمیان تیسرااللہ تعالیٰ ہے۔‘‘(حدیث :6169)آپﷺنےیہ عظیم الشان سرٹیفیکیٹ بھی حضرت ابوبکرصدیقکوعطافرمایا(إِنَّ أَمَنَّ النَّاسِ عَلَيَّ فِي مَالِهِ وَصُحْبَتِهِ أَبُوبَكْر)ٍ’’مال کےتعاون اورمیرا ساتھ دینےکومعاملےمیں مجھ پرسب سےزیادہ احسان کرنےوالےابوبکرہیں۔‘‘(حدیث :6170)وہ صحیح معنی میں مزاج شناس نبوت تھے۔ اللہ کےبعدان کی محبت ،اطاعت اورجاں نثاری کامحوررسول اللہﷺتھے، اس لیے اگربنی نوع انسان میں کوئی رسول اللہﷺکاخلیل ہوسکتاتووہ ابوبکرہی ہوتے۔ ۔ آپﷺنے حضرت عمروبن عاصکےسوال پران کویہ بتایاکہ آپ کوانسانوں میں سےسب سےزیادہ محبت حضرت عائشہ اورحضرت ابوبکرصدیقؓ سےتھی۔ رسول اللہﷺحضرت ابوبکرہی کواپناجانشیں سمجھتےتھےاوراس حوالےسےتحریربھی لکھواناچاہتےتھےلیکن اللہ کافیصلہ یہی تھاکہ آپ یہ تحریرنہ لکھ سکیں اورمسلمان اپنی شوریٰ کےذریعےسےیہی فیصلہ کریں۔ رسول اللہﷺنےان باتوں پربھی اپنےعلاوہ ابوبکراورعمرؓکےایمان کی شہادت دی جن پرعام لوگ فوری پریقین کرنےکےحوالےسےتامل کاشکارہوسکتےتھے۔
حضرت عمرصحبت اوررفاقت میں حضرت ابوبکرصدیقکےفورابعدآتےتھے۔ دین علم ،فتوحات اورامت کی خدمت کےحوالےسےوہ بلندترین مقام پرفائزتھے۔ ان کادل اوران کی زبان پرحق جاری رہتاتھااوربعض اوقات اللہ کےاحکام ،نزول سےپہلےحضرت عمرکےمحسوسات اورآپ کی ترجیحات بن جاتے۔ وہ حق کےمعاملےمیں سخت گیرتھے،اس لیے شیطان اوراس کےچیلے(منافقین وغیرہ)ان سےکئی کتراتےتھے۔ حضرت عثمانحیااورانفاق فی سبیل اللہ میں اپنی مثال آپ تھے۔ رسول اللہﷺنےجنت کی بشارت کےساتھ انہیں ابتلاءوآزمائش سےبھی آگاہ فرمادیاتھا۔ حضرت علیکورسول اللہﷺسے قرابت داری اوراخوت کاعظیم شرف بھی حاصل تھا، وہ اللہ اوراس کےرسول اللہﷺسےمحبت کرتےتھےاوراللہ اوراس کےرسول اللہﷺان کےساتھ محبت کرتےتھے۔ وہ شجاعت کاپیکرتھے۔ آپﷺنےآیت تطہیرکےنزول کےموقع پرانہیں بطورخاص اپنے اہل بیت کاحصہ قراردیااورپوری امت کواپنےتمام اہل بیت کےساتھ احترام محبت اورعزت کاسلوک کرنےاورہدایت اوردین میں ان سےاستفادےکی تلقین فرمائی۔
حضرت سعدبن ابی وقاصرسول اللہﷺکےننھیال میں سےتھے۔ السابقون الاولون میں شامل تھے۔ سولہ سال کی عمرمیں ایمان سےسرفرازہوئے،ان کی والدہ نےان کوکفرمیں واپس لانےکےلیےبھوک ہڑتال کردی۔ انہوں نےایمان کوماں کی زندگی پرترجیح دی،انہوں نےپوری زندگی رسول اللہﷺکی حفاظت کواپنانصب العین بنائےرکھا۔ احدکےدن آپ کےدفاع میں سینہ سپرہوئےتورسول اللہﷺنےان کےلیے وہ جملہ بولاجوان کےلیے سرمایہ افتخاربن گیا(ارم فداك ابى وامى)’’(سعد!)تیرچلا،میرےماں باپ تم پرقربان ہوں!‘‘
حضرت سعدکےساتھ،احدکےدن رسول اللہﷺکی حفاظت میں سینہ سپرہوجانےوالوں میں حضرت طلحہ،حضرت زبیربن عوام اورحضرت ابوعبیدہ بن جراحبھی تھے۔ یہ سب آپ کےچوٹی کےجاں نثاروں میں سےتھے۔ حضرت طلحہ کورسول اللہﷺنےمختلف مواقع پرعظیم خطابات سےنوازا،طلحة الخير،طلحة الفياض اورطلحة الجواد۔احدکےدن رسول اللہﷺکےدفاع میں انہوں نے24زخم کھائے۔ آپﷺ نےان کےبارےمیں فرمایا(مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى شَهِيدٍ يَمْشِي عَلَى وَجْهِ الأَرْضِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ)’’جسےیہ پسندہوکہ وہ روئےزمین پرچلتےپھرتےشہیدکودیکھ لےتووہ طلحہ بن عبیداللہ کودیکھ لے۔‘‘(جامع الترمذی ،حدیث:3739)اوریہ بھی فرمایا(طَلْحَةُ مِمَّنْ قَضَى نَحْبَهُ)’’طلحہ ان میں سےہےجنہوں نےاپناوعدہ پوراکردیا۔‘‘(جامع الترمذی،حدیث:3202)
حضرت زبیرآپ کوپھوپھی حضرت صفیہؓ کےفرزندتھے۔ آپ کورسول اللہﷺنےاپناحواری قراردیا۔ حضرت ابوعبیدہ نےاحدکےدن آپﷺکےسرپوش کےحلقےاپنےاگلےدانتوں سےنکالنےتوان کےدونوں دانت ٹوٹ گئے،ان دودانتوں کےبغیروہ حسین ترین لوگوں میں شمارہوتےتھے۔ انہوں نےاس امانت کی صحیح طورپرحفاظت کی تھی جس کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھائی تھی، اس لیے(وَأَمِينُ هَذِهِ الأُمَّةِ)’’اس امت کےامین‘‘کےلقب سےسرفرازہوئے،بلکہ(أَمِينُ حَقَّ أَمِينٍ)قراردیےگئے۔ رسول اللہﷺنے ان حضرات کی زندگی ہی میں ان کےجنتی ہونےکی گواہی دےدی۔
ان کےبعدحضرت حسن اورحضرت حسینؓ کےفضائل ہیں۔ یہ دونوں کےمحبوب نواسےتھے۔ آپ نےدعا فرمائی تھی کہ جوبھی ان سےمحبت کرےاللہ اس سےمحبت کرے۔ محبت میں رسول اللہﷺسےموافقت کرناخودآپﷺکےساتھ محبت کی دلیل اورآپ کےساتھ محبت ایمان کالازمی جزہے۔ آپﷺنےحضرت فاطمہؓ کےساتھ ان دونوں صاحبزادوں اورحضرت علیکوبھی بطورخاص اہل بیت میں شامل فرماکرانہیں بھی آیت تطہیرکامصداق قراردیا۔ ان کےبعدحضرت زیدبن حارثہ اوران کےبیٹےاسامہ بن زیدؓ کاذکرہے۔ حضرت زیدکو(حب رسول اللهﷺ)’’رسول اللہﷺکامحبوب‘‘کہاجاتاتھا۔ آپﷺنےفرمایا’’زیدکےبعداسامہ زیدؓ بھی مجھےمحبوب ہے۔‘‘آپﷺاپنےخاندان کےلوگوں سےحددرجہ محبت وشفقت سےپیش آتےتھے۔ یہ بات ان سب کےلیے عظیم فضیلت کاباعث ہے۔
ان حضرات کےبعدامہات المومنین میں سےحضرت خدیجہ اورحضرت عائشہ ؓکےفضائل بیان کیےگئےہیں۔ حضرت خدیجہؓ نےجس طرح آپ کےساتھ غمخواری کی ،اپناگھربار،مال دولت آپ کےقدموں میں ڈھیرکردی، جس طرح سب سےپہلےآپ پرایمان لائیں، مشکل ترین دورمیں نبوت کےمشن میں بھرپورطورپرآپ کےساتھ دیااورجس طرح سےثابت قدمی کامظاہرہ کیا،وہ ایک بیوی ہونےکی حیثیت سےپوری انسانیت کےلیے مثال تھیں، ان سب باتوں کی وجہ سےآپﷺ نےانہیں پوری انسانیت کی چارکامل ترنی خواتین میں سےایک قراردیا۔ ان کےبعدآپ ﷺکوباقی ازواج میں سےحضرت عائشہؓ سےمحبت تھی اوریہ وہی ہیں جنہوں نےامہات المومنین میں سےسب سےزیادہ دین کےاحکام امت تک پہنچائے۔ (سيدة نساءاهل الجنة)’’خواتین جنت کی سردار‘‘حضرت فاطمہ ؓ کےفضائل بیان کیےگئےہیں۔ ان کےفضائل میں نمایاں ترین بات یہ ہےکہ انہیں رسول اللہﷺسےبےپناہ محبت تھی اورآپﷺکوان سےاوران کےبچوں سےبےپناہ محبت تھی۔ وہ مثالی بیٹی،مثالی بیوی اورمثالی ماں تھیں، اس لیے(سيدة نساءاهل الجنة)کےمنصب کی سزاوارتھیں۔ پھرامہات المومنین میں سےحضرت ام سلمہ اورزینب ؓاوردونمایاں خواتین ام ایمن اوررام سلیمؓ کےفضائل بیان ہوئےہیں۔ یہ خواتین رسول اللہﷺکےساتھ تعلق، جودوسخااورخدمت وایثارکےحوالے سےانتہائی نمایاں تھیں۔ ان کےبعدبعض دیگرصحابہ کےفضائل ہیں۔ یہ سب ایمان عمل صالح ،استقامت ،رسول اللہﷺکےساتھ محبت، ایثار،علم، شجاعت اورجاں نثاری میں نمایاں تھے۔ ان صحابہ کےجوفضائل صحیح مسلم میں مذکورہیں ان پرنظرڈالیں توبلال ایمان واطاعت کی بناپررسول اللہﷺکےگھرانےکاحصہ سمجھےجاتےتھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودقرآن اورسنت رسول اللہﷺکےبہت بڑےعالم تھے۔ اسی طرح حضرت ابی بن کعب،معاذبن جبل اورزیدبن ثابتحاملین قرآن تھے۔ سعدبن معاذاپنےقبیلے کےسرداراوررسول اللہﷺکےایسےجاں نثارتھےکہ ان کی موت پرعرش الہی بھی ہل گیا۔ ابودجانہ شجاعت کےپیکرتھے۔ حضرت جابرکےوالدحضرت عبداللہ بن عمروبن حرامایسےجری شہیدتھےکہ ان کاجنازہ اٹھنےتک ان پراللہ کےملائکہ اپنےپروں سےسایہ فگن رہے۔ جلیبیب تنہاسات کافروں کوقتل کرکےشہیدہوئے،ان کالاشہ محمدرسول اللہﷺنےکسی اورکوشریک کیےبغیرخوداپنی بانہوں پراٹھایااورسپرد خاک کیا۔ حضرت ابوذرغفاریکاتعلق ایک رہزن قبیلےسےتھامگراس حق کی محبت نےجورسول اللہﷺسےلےکرآئےتھے،انہیں ایمان کامتلاشی ہی نہیں بنایابلکہ ان کےایمان کےذریعےسےان کےقبیلے کوبھی سربلندکردیا۔
جریربن عبداللہکامزاج اوراندازگفتگوایساتھاکہ رسول اللہﷺان کودیکھ کرہمیشہ تبسم فرماتے۔ وہ جب چاہتےبلاروک ٹوک بارگاہ نبوت میں حاضرہوجاتے،آپ کی دعانےانہیں شہسوار،سالاراوربت شکن بنادیا۔ رسول اللہﷺکےچچازادعبداللہ بن عباسؓ کی سعادت مندی اورخدمت کی بناپرانہیں ایسی دعاملی کہ وہ اس امت کےعظیم عالم بن گئے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓکورسول اللہﷺکےایک چھوٹےسےفقرےنےعابد شب زندہ داربنادیا۔حضرت انسرسول اللہﷺکےمعصوم خدمت گزارآپ کےراز کی حفاظت کےادب سےآگاہ تھے۔ رسول اللہﷺسےایسی دعائیں ملیں کہ دنیابھی سنورگئی اورآخرت بھی۔ عبداللہ بن سلاماسلام سےپہلےتورات کےعالم اوراسلام لانےکےبعدقرآن وسنت کےعالم بن گئے۔ استقامت ایسی کہ رسول اللہﷺنےزندگی کےآخری لخطےتک ایمان پرقائم رہنےکی نویدعطافرمائی اورلوگوں نےکہا،پھرتویہ چلتےپھرتےجنتی ہیں۔ اپنی تلواروں کےذریعےسےرسول اللہﷺکادفاع کرنےوالےانصارمیں سےایک نمایاں فردجن کی زبان رسول اللہﷺکےدفاع میں شمشیربراں تھی۔ جس طرح تلوارسےدفاع کرنےوالوں کوملائکہ کی تائیدحاصل ہوتی تھی، اسی طرح زبان سےدفاع کرنےوالےحسان کوجبریل امینکی تائیدحاصل تھی۔ حضرت ابوہریرہ دوسیرسو ل اللہﷺکی عمرمبارک کےآخری سالوں میں آکرمسلمان ہوئے،لیکن فرامین رسول اللہﷺکےسب سےبڑےامانت داراورمبلغ بن گئے۔ بدرمیں شریک ہونےوالےحاطب بن ابی بلتعہ اس بات کومثال بنےکہ رسول اللہﷺاپنےسادہ دل ساتھیوں کی غلطیاں کس طرح معاف فرماتےاورکیسےبلندمقامات پرپہنچادیتےتھے۔ انہوں نےقریش کےنام خط لکھاتھا، غلطی معاف ہوجانےکےبعدرسول اللہﷺنےانہیں شاہ روم ہرقل کےنام اپنےمکتوب گرامی کانامہ برداربنادیا۔ اصحاب بدرکی طرح اصحاب شجرہ’’بیعت رضوان کرنےوالے‘‘بھی اللہ کےخاص بندےقرارپائےاوراللہ کےرسول اللہﷺکی امیدکےمطابق سب کےسب آگ سےآزادقراردیےگئے۔ ابوموسیٰ اوراوربلالوہ خوش قسمت صحابی ہیں جنہیں صحابی ہیں جنہیں رسول اللہﷺنےبن مانگےبشارت عطافرمائی۔ ابوموسیٰ رسول اللہﷺکےجاں نثاراورآپ کی دعاؤں کےحقداربنے۔ یہ اوران کاساراقبیلہ قرآن کی قراءت اس طرح کرتےتھےکہ خودرسول اللہﷺرک کران کی قراءت سناکرتےتھے۔ حضرت ابوسفیان بن حرب بن امیہ دشمنی چھوڑکراپنےبنےتوان کےمطالبےپران کےبیٹےحضرت معاویہکوکاتب وحی بنادیا۔ حضرت جعفرطیاراوران کی اہلیہ اسماءبنت عمیسؓ پہلےحبشہ اورپھرمدینہ کیطرف ہجرت کرنےوالےاللہ اوراس کےرسول اللہﷺ کی طرف ہجرت کی بہترین مثال قرارپائے۔ سلمان ،بلال اورصہیب حق کےمتلاشی اوراحق کےجاں نثاراس مقام پرفائز ہوگئےکہ ان کوناراض کرنےوالااللہ کوناراض کرنےکےخطرےسےدوچارہوسکتا ہے۔ انصارکےجس طرح نصرت کی ،انہوں نےرسول اللہﷺکومکمل طورپراپنابنالیا،آپﷺ نےدنیوی زندگی میں ان کی نسلوں تک کودعاؤں سےنوازااورآخرت میں حوض کوثرپران کاانتظارکرنےکی نویدعطافرمائی۔ وہ سب بھی انتہائی فضیلت کےحقدارقرارپائےجن کےپورےقبائل اسلام میں داخل ہوگئے۔ ہروہ انسان جواسلام سےپہلےخیراوربھلائی کاحامل تھا، اسلام لانےکےبعداورزیادہ اونچاہوگیا۔ قریش اسلام سےپہلےبھی اخیارتھےاسلام کےبعدان کی خواتین تک کوبھی خیرکی بلندیوں پرفائزقراردیاگیا۔ مواخات ،تاریخ انسانی کےبےمثال واقعہ بھی اصحاب رسول اللہﷺکی فضیلت کاثبوت ہے۔ یہ صحابہ امت کےلیے امان ہیں۔ یہ خوداورآگےان سےفیض یاب ہونےوالےجب تک امانت داراورسچائی پرقائم رہے،درجہ بدرجہ امت کےلیےکامرانیوں کی ضمانت بنے،اس لیے رسول اللہﷺنےصحابہ کوبراکہنےسےروکااورواضح فرمایاکہ وہ ساری امت میں سب سےافضل ہیں۔ پھراس عظیم تابعی کےفضائل بیان ہوئےجس نےرسول اللہﷺکے احکام پرعمل کوباقی ہرفضیلت سےمقدم قراردیا۔ آپ نےاہل یمن اوراہل عمان کی تحسین فرمائی اوراہل مصرکےساتھ حسن سلوک کی تلقین کی۔ دوسری طرف قبیلہ ثقیف کےایک کذاب اورایک تباہ کارکی خبردےکرواضح فرمایاکہ اسلام کی برکات سےوہی مستفیدہوگاجودل سےایمان لائےگااوراس کےمطابق عمل کرےگا۔ آپﷺنےبتایا کہ آئندہ زمانوں میں اسلام کانام لینےوالوں میں بھی ایسےلوگ بہت کم ہوں گے،سومیں سےایک۔
شقیق نے حضرت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ انھوں نے پڑھا: ”جو شخص چھپائے گا وہ قیامت کے دن اس چیز کو لے کر آئے گا“ ( آل عمران: 161) پھر کہا:مجھے تم لوگ کس آدمی کی قرآت کے مطابق (قرآن مجید) پڑھنے کا حکم کرتے ہو؟ جبکہ میں نے تو ستر سے اوپر سورتیں خود رسول اللہ کے سامنے تلاوت کیں اور رسول اللہ ﷺ کے صحابہ جانتے ہیں کہ میں اللہ کی کتاب کو ان سب کی نسبت زیادہ اچھی طرح جاننے والا ہوں۔ اگر مجھے پتہ ہوکہ کوئی شخص مجھ سے زیادہ جانتا ہے تومیں سفر کر کے اس کے پاس جاؤں۔ شفیق نے کہا: تو میں محمد ﷺ کے صحابہ کے حلقوں میں بیٹھا، میں نے نہیں سنا کہ کسی نے ان کی اس بات کی تردید کی ہو یا (ایسا کہنے کی وجہ سے) ان پر عیب لگایا ہو۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کا تعلق قبیلہ ہذیل سے تھا۔ قرآن مجید قریش کے لہجے کے علاوہ جن دوسرے لہجوں میں نازل ہوا، ان میں ہذیل کا لہجہ بھی تھا، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ اسی لہجے کے حامل تھے، ان کا مصحف اسی لہجے کے مطابق اور ترتیب نزول کے مطابق تھا۔ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی تجویز اور اصرار پر جمع قرآن کا فیصلہ کیا گیا تو یہ بھی طے کیا گیا کہ یہ نسخہ قریش کے لہجے کے مطابق ہو گا جو خود رسول اللہ ﷺ کا اپنا لہجہ تھا اور جس لہجے کا انتخاب اللہ عزوجل نے آپ کے قلب اطہر پر اولین نزول قرآن کے لیے کیا۔ قرآن مجید کی جمع تدوین کے لیے جن ماہر قرآن صحابہ کا انتخاب ہوا وہ سب لہجہ قریش کے ماہر تھے۔ انہوں نے جمع و ترتیب اور رسم الخط ہر اعتبار سے ایسا نسخہ مرتب کر دیا جس پر تمام صحابہ کا اجماع تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے اس کام کے بارے میں کوئی بنیادی اختلاف نہ تھا۔ ان کا موقف یہ تھا کہ قرآن قریش کے لہجے کے علاوہ جن لہجوں میں نازل ہوا، ان کے مطابق جومصاحف موجود ہیں انہیں ان کے مالکوں کے پاس رہنے دیا جائے اور جس طرح خود رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں ان سب لوگوں کو اپنے اپنے لہجوں کے مطابق جو سب کے سب منزل من اللہ تھے، مصاحف لکھنے اور پڑھنے کی اجازت تھی وہ اسی طرح برقرار رہنی چاہیے۔ دوسری طرف دیگر اکابر صحابہ کا موقف یہ تھا کہ قرآن مجید کے حوالے سے ہر طرح کے اختلافات ختم کرنے کے لیے سب لوگوں میں، خصوصاً اسلام میں داخل ہونے والے فوج در فوج خلقت میں صرف اور صرف قریش کا لہجہ رائج کیا جائے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے دلائل اپنی جگہ قوی تھے، اس لیے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دور خلافت میں جب لوگوں کو ایک رسم الخط پر جمع کرنے کے لیے قرآن مجید پر کام کرایا تو ان کو ان کے اپنے موقف پر رہنے دیا۔ باقی صحابہ کرام اور پوری امت نے وہی موقف اختیار کر لیا جو ان کے نزدیک صحیح تر تھا، اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے موقف پر رہنے دیا۔ نہ کسی نے ان کی تردید کی، اور نہ ہی ان پر ان کے موقف کے حوالے سے کوئی عیب لگایا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امت بغیر کسی انتشار کے ایک ہی نسخے پر متفق ہو گئی۔ اور دوسرے لہجوں پر مبنی مصاحف جو حصرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں ختم نہ کبھی کیے جاسکے تھے۔ امتدادِ زمانہ کے ساتھ ختم ہو گئے۔ لہجوں کے اختلاف کے باوجود، قرآن مجید کی نص کے حوالے سے کبھی کوئی اختلاف نہیں رہا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
شقیق رحمۃ ا للہ علیہ بیان کرتے ہیں، حضرت عبداللہ نے کہا، ’’جوخیانت کرے گا وہ قیامت کے دن خیانت کردہ چیز کولے کر حاضر ہو گا، (آل عمران:161) پھر کہا تم مجھے کسی شخص کی قرأت پر قرأت کرنے کے لیے کہتے ہو؟ میں 70 سے زائد سورتیں آپﷺ کو سنا چکا ہوں اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں کو پتہ ہے، میں ان سب سے زیادہ کتاب اللہ کا علم رکھتا ہوں اور اگر مجھے پتہ چل جائے کوئی مجھ سے زیادہ جانتا ہے تو میں سفر کر کے اس کی خدمت میں حاضر ہوں، شفیق رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں میں رسول اللہ کے ساتھیوں کی مجلس میں بیٹھا ہوں تو میں نے کسی کو اس کی تردید کرتے اور اس پر اعتراض کرتے نہیں سنا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں جب اسلام عرب سے نکل کر روم اور ایران کے دور دراز علاقوں تک پہنچ گیا اور مختلف صحابہ کرام، مختلف علاقوں میں پہنچے اور انہوں نے وہاں کے لوگوں کو اپنی اپنی قراءت کے مطابق قرآن مجید کی تعلیم دی تو لوگوں میں قرآن کریم کی قراءتوں کے بارے میں اختلاف رونما ہونے لگا، جس کی اطلاع حضرت حذیفہ بن یمان نے حضرت عثمان کو دی تو حضرت عثمان نے جلیل القدر صحابہ کرام کے مشورہ سے اس اختلاف سے بچنے کا یہ حل نکالا کہ تمام لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کر دیا جائے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں جمع کردہ صحیفوں کو ایک مصحف میں منتقل کر کے، اس کی مختلف نقلیں تیار کروائیں اور یہ مکمل معیاری نسخہ مختلف مقامات پر رکھوا دیا اور لوگوں کو کہا، اپنے نسخے اس نسخہ کے مطابق تیار کریں اور اپنے انفرادی مصحف جن کی ترتیب الگ الگ ہے، وہ نذر آتش کر دیں، تاکہ مصحف کی ترتیب اور رسم الخط یکساں ہو جائے، لیکن حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس کے لیے تیار نہیں ہوئے، کیونکہ وہ کہتے تھے، میں نے ستر (70) سے زیادہ سورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی ہیں، اس لیے میں اپنا مصحف کیوں ختم کروں اور اس کے لیے انہوں نے اپنے کوفی تلامذہ کو بھی یہی ترغیب دی کہ وہ اپنے مصحف چھپا لیں اور حضرت عثمان کے حوالہ نہ کریں اور اس کے لیے مذکورہ بالا آیت پیش کی کہ خلیفہ کو مصحف حوالہ نہ کرنا خیانت ہو گی اور ہم یہی خیانت قیامت کے دن حاضر کریں گے، بہرحال امت نے حضرت عثمان کے رسم الخط اور ترتیب کو قبول کیا، آج وہی رسم الخط اور ترتیب قائم ہے، اگرچہ عجمیوں کی سہولت کے لیے اس میں نقطوں اور حرکات و سکنات رکوع، پارے اور رموز اوقاف کا اضافہ کیا گیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdullah (b. Mas'ud) reported that he (said to his companions to conceal their copies of the Qur'an) and further said: He who conceals anything he shall have to bring that which he had concealed on the Day of Judgment, and then said: After whose mode of recitation you command me to recite? I in fact recited before AIlah's Messenger (ﷺ) more than seventy chapters of the Qur'an and the Companions of Allah's Messenger (ﷺ) know it that I have better understanding of the Book of Allah (than they do), and if I were to know that someone had better understanding than I, I would have gone to him. Shaqiq said: I sat in the company of the Companions of Mubkmmad (ﷺ) but I did not hear anyone having rejected that (that is, his recitation) or finding fault with it.