اسلام میں طہارت اور پاکیزگی کی اہمیت وفضیلت
طہارت کا مطلب ہے صفائی اور پاکیز گی۔ یہ نجاست کی ضد ہے۔ رسول اللہﷺ کو بعثت کے بعد آغاز کار میں جو احکام ملے اور جن کا مقصود اگلے مشن کے لیے تیاری کرنا اور اس کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کرنا تھا، وہ ان آیات میں ہیں: يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ (1) قُمْ فَأَنْذِرْ (2) وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ (3) وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (4) وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ (5) وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ (6) وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ (7) ”اے موٹا کپڑا لپیٹنے والے! اٹھیے اور ڈرایئے، اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے، اپنے کپڑے پاک رکھیے، پلیدی (بتوں) سے دور رہے، (اس لیے ) احسان نہ کیجیے کہ زیادہ حاصل کریں اور اپنے رب کی رضا کے لیے صبر کیجیے‘‘ (المدثر 71
اسلام کے ان بنیادی احکام میں کپڑوں کو پاک رکھنے اور ہر طرح کی جسمانی، اخلاقی اور روحانی ناپاکی سے دور رہنے کا حکم ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اللہ سے تعلق، ہدایت اور روحانی ارتقا کا سفر طہارت اور پاکیزگی سے شروع ہوتا ہے جبکہ گندگی تعفن اورغلاظت شیطانی صفات ہیں اور ان سے گمراہی ، ضلالت اور روحانی تنزل کا سفر شروع ہوتا ہے۔
وُضُوْ، وَضَائَة سے ہے جس کے معنی نکھار اور حسن و نظافت کے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالی کے سامنے حاضری کی تیاری یہی ہے کہ انسان نجس نہ ہو، طہارت کی حالت میں ہو اور مسنون طریقہ وضو سے اپنی حالت کو درست کرے اور خود کو سنوارے۔ وضوسے جس طرح ظاہری اعضاء صاف اور خوبصورت ہوتے ہیں، اسی طرح روحانی طور پر بھی انسان صاف ستھرا ہو کر نکھر جاتا ہے۔ ہر عضو کو دھونے سے جس طرح ظاہری کثافت اور میل دور ہوتا ہے بالکل اسی طرح وہ تمام گناہ بھی دھل جاتے ہیں جوان اعضاء کے ذریعے سے سرزد ہوئے ہوں ۔
مومن زندگی بھر اپنے رب کے سامنے حاضری کے لیے وضو کے ذریعے سے جس وَضَائَةَ کا اہتمام کرتا ہے قیامت کے روز وہ مکمل صورت میں سامنے آئے گی اور مومن غَرُّ مُعُجَّلُونَ (چمکتے ہوئے روشن چہروں اور چمکتے ہوئے ہاتھ پاؤں والے) ہوں گے۔
نظافت اور جمال کی یہ صفت تمام امتوں میں مسلمانوں کو ممتاز کرے گی۔ ایک بات یہ بھی قابل توجہ ہے کہ ماہرین صحت جسمانی صفائی کے حوالے سے وضو کے طریقے پرتعجب آمیر تحسین کا اظہار کرتے ہیں ۔ اسلام کی طرح اس کی عبادات بھی بیک وقت دنیا و آخرت اور جسم و روح کی بہتری کی ضامن ہیں۔ الله تعالی کے سامنے حاضری اور مناجات کی تیاری کی یہ صورت ظاہری اور معنوی طور پر انتہائی خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ہر ایک کے لیے آسان بھی ہے۔ جب وضو ممکن نہ ہو تو اس کا قائم مقام تیمم ہے، یعنی ایسی کوئی بھی صورت حال پیش نہیں آتی جس میں انسان اس حاضری کے لیے تیاری نہ کر سکے۔
ابو زبیر نے بیان کیا، کہ انہوں نے حضرت جابرؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا: ’’رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ہڈی یا لید کے ذریعے سےاستنجا کرنے سے منع فرمایا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں: ’’کہ رسول اللہ ﷺ نے ہڈی یا مینگنی (لیڈنا) سے استنجا کرنے سے منع فرمایا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1) خِرَاءَةٌ: قضائے حاجت کی ہئیت و کیفیت اور اگر خراء ہو تو پاخانہ کو کہیں گے۔ (2) غَائِطٌ: نشیبی زمین کو کہتے ہیں، مراد پاخانہ ہے۔ (3) رَجِيعٌ: گوبر۔ (4) عَظْمٌ: ہڈی۔ (5) بَعْرٌ: مینگنی۔
فوائد ومسائل:
جس طرح کھانا پینا، پہننا انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ہیں، اس طرح بول وبراز انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے، رسول اکرمﷺ نے جس طرح زندگی کے دوسرے کاموں اور دوسرے شعبوں کے بارے میں ہدایات وتعلیمات دی ہیں، اس طرح پیشاب، پاخانہ اور طہارت واستنجا کے بارے میں بھی مندرجہ ذیل ہدایات دی ہیں، جو اسلام کے کامل ضابطہ زندگی ہونے کا بین ثبوت ہیں: (1) دایاں ہاتھ جس کو ہمارے خالق نے پیدائشی طور پر بائیں ہاتھ کے مقابلہ میں زیادہ قوت وطاقت اور صلاحیت کار بخشی ہے، اس کو استنجے کی گندگی وپلیدی کی صفائی کےلیے استعمال نہ کیا جائے۔ (2)قضائے حاجت کے لیے اس طرح نہ بیٹھا جائے، کہ انسان کا رخ یا پشت قبلہ کی طرف ہو، کیونکہ قبلہ کے ادب واحترام کا تقاضا یہی ہے۔تفصیل آگے آرہی ہے۔ (3) بول وبراز کی صفائی کے لیے کم از کم تین پتھر یا ڈھیلے استعمال کیے جائیں گے۔ (4) کسی جانور کی گری ہڈی یا اس کےخشک فضلے، لید،گوبر وغیرہ سے استنجا نہ کیاجائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir reported: The Messenger of Allah (ﷺ) forbade the use of bone or the droppings of camels for wiping (after excretion).