تشریح:
فائدہ:
انسانوں کے خیال، ان کی سوچ، ان کے ارادے اللہ تعالی کے بنائے ہوئے اصولوں کے عین مطابق وجود میں آتے ہیں اور انسان ان کے مطابق عمل کرتا ہے۔ اس بات کو قرآن نے اس طرح بیان کیا ہے ﴿ فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا﴾ ’’پھر اس کی نافرمانی اور اس کی پرہیزگاری (کی پہچان) اس کے دل میں ڈال دی۔‘‘ (الشمس:8) دونوں راستے جس طرح اللہ تعالی کا نظام ہے موجود ہوتے ہیں، اختیار بھی موجود ہوتا ہے اس کے مطابق سب کچھ ہوتا رہتا ہے اور اللہ جب کسی پر اس کے اچھے ارادے، اچھی نیت، کسی سابقہ اچھے عمل، اس کی اپنی یا کسی اور کی دعا کی بنا پر خصوصی کرم کرنا چاہتا ہے تو اپنے خصوصی تصرف سے کام لیتا ہے اور رحمتوں سے نوازدیتا ہے۔ اور جب کسی کا ظلم و عدوان حد سے بڑھ جاتا ہے تو ا سکے لیے ہدایت کے راستے مسدود فرما دیتا ہے ﴿ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ﴾ ’’اور جان لو! کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان رکاوٹ بن جاتاہے۔‘‘ (الانفال:24)