باب: اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اور ان کو یاد کرنے (ان کا ذکر کرنے) کی فضیلت
)
Muslim:
The Book Pertaining to the Remembrance of Allah, Supplication, Repentance and Seeking Forgiveness
(Chapter: The Names Of Allah, Exalted is He, And The Virtue Of The One Who Learns Them By Heart)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2677.
عمرو ناقد، زُہیر بن حرب اور ابن ابی عمر نے ہمیں سفیان سے حدیث بیان کی ۔۔ الفاظ عمرو کے ہیں ۔۔ انہوں نے کہا: ہمیں سفیان بن عیینہ نے ابوزناد سے حدیث بیان کی، انہوں نے اعرج سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کی کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں، جس نے ان کی حفاظت کی وہ جنت میں داخل ہو جائے گا اور اللہ وتر (طاق) ہے، وتر کو پسند کرتا ہے۔‘‘ اور ابن ابی عمر کی روایت میں ہے: ’’جس نے ان کو شمار کیا۔‘‘
تشریح:
فائدہ:
اللہ تعالی کے ناموں کی حفاظت اور یاد رکھنے کا مطلب ہے ان کو سمجھنا، ذکر اور دعا میں ان کو دہرانا، ایک ایک کر کے بطور تبرک اخلاص کے ساتھ اور خود کو ان سے متصف کرنا۔ اللہ تعالی طاق ہے اس لیے اس نے اپنے ننانوے نام بتائے ہیں جو طاق عدد ہے اور ان کا ذکر کرنے والا وتر یا طاق ہی کا ذکر کرے گا۔
یہ انسان کےلیے بہت بڑی خوش قسمتی کی بات ہے کہ وہ اللہ پر سچا ایمان رکھتا ہو اس کی صفات حسنہ کو پہچانتاہو، اس کی نعمتوں ،مہربانیوں اور اس کے لیے پایاں فضل وکرم کا احساس رکھتا ہو اور پورے عجزاورمحبت سے اس کو یاد کرتا ہو۔ اللہ نے انسان کو اس طرح بنایا کہ وہ ہرلمحہ اللہ کی مہربانیوں کامحتاج ہوتاہے ۔ اگر اس کا دل مردہ نہیں ہوا تو وہ بے اختیار اس کو یاد کرتا ہے ۔ یہ یاد اسے دل کامکمل اطمینان ،احساس تحفظ ،سچی خوشی اور بے حساب لذت وحلاوت عطا کرتی ہے ۔ اللہ کا بندہ اسے یاد کرے تو وہ اس سے بڑھ کر خوش ہوتاہے۔ بندہ اس کی یاد کےذریعے سےاس کے قریب آئے تووہ بندے سےبڑھ کر اس کےقریب آتاہے ۔
اللہ کے ننانوے خوبصورت نام ہیں۔ بندہ جس نام سے چاہے اللہ کو یاد کرسکتا ہے پکارسکتاہے ،دعا کرسکتاہے ، بندے کی زندگی کا کوئی پہلو اور اس کوئی ضرورت ایسی نہیں جس کےلیے وہ اللہ کو پکارنا چاہے اوراس کی ضرورت کےمطابق اسے مناسب ترین نام نہ ملے۔ بیماریوں کےلیے وہ شافی ہے ،بھوکوں ننگوں کےلیے وہ رزاق ہے، گناہ گاروں کےلیے وہ غفار وغفور ہے ،محروموں کےلیے وہ ہے کمزوروں کےلیے وہ قومی ہے ،دھتکار ے ہوؤں کےلیے وہ دود ہے ،رحیم ہے وعلی ہذاالقیاس ۔ اسےپسند ہے کہ اس کابندہ اصرار کرکےاس سے مانگے ،پورے یقین کے ساتھ کہ اسے مل کر رہے گا ۔ اسے سخت ناپسند ہے کہ کوئی اس سےمایوس ہو۔ جس کےلیے زندگی ناقابل برداشت ہوجائے اورووہ موت مانگنے لگے تو اس بات کو اللہ کی رحمت سے وابستہ کرے۔ جو موت کے وقت اللہ سےملاقات کامتمنی ہو اللہ بھی اس سےملاقات کو پسند فرماتاہے ، وہ بندے کےاچھے گمان کو بھی رد نہیں کرنا چاہتا ۔ گناہوں پر پشیمانی ہوتو بھی دنیامیں سزاپانے کےبجائے دنیا اورآخرت دونوں میں اس سےاچھائی اوراس کی رحمت مانگنے کاحکم دیاگیاہے۔
اللہ وتنہائی میں بھی یاد کرنا چاہیے اور دوسرے مومنوں کے ساتھ مل کر بھی ۔تنہائی میں زیادہ یاد کرنے والے بازی لے جاتے ہیں۔ صبح وشام سوتے جاگتے ،دن کی مصروفیتوں اور رات کی تنہائیوں میں اسے یاد کرنے والا عظیم ترین انعام کاحق دار ہے جوقرب الہیٰ ہے ،لیکن حضرت ابوہریرہ روایت کرتےہیں کہ جب قرآن پڑھنا پڑھانا ہو، اللہ کے احسان یاد کرنے، سننے اور بیان کرتے ہوں اورمزید مانگنے ہوں تو اس کی یاد مجلسیں مناسب ہیں ،اللہ ان مجلسوں پر سکنیت نازل فرماتاہے ،شریک ہونےوالوں کو اپنی رحمت سے ڈھانپ دیتا ہے فرشتے ان کےاردگرد گھیرا باندھ لیتے ہیں (حدیث :6853)اللہ ان یاد کرنے والوں کو ان کی مجلس سےبہت اونچی مجلس میں یاد کرتا ہے ۔ (حدیث:6855،6839)جوتنہائی میں بیٹھ کر اس کی یاد میں مستغرق ہوجاتا ہے اللہ اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہے ۔(حدیث:6805)یاد رہے کہ ذکر کے حوالے سے اوپر بیان کی جانے والی ساری روایت حضرت ابوہریرہ نےروایت کی ہیں۔ ان میں تنہااورمل کر دونوں طرح سے اللہ کی یاد کی تفصیلات موجود ہیں۔ ان میں کہیں بھی کوئی ایسا طریقہ مذکور نہیں جو آج کل کےاصحاب طریقت نے ایجاد کر رکھے ہیں۔ یہ طریقے اپنے اپنے ایجاد کرنےوالوں ہی کےنام سےموسوم ہیں۔ طریقہ شاذلیہ،طریقہ نقشبندیہ ،طریقہ قادریہ وغیرہ ، یہ طریقے اچھی نیت سےتربیت کے حوالے سے اپنے اپنے تجربوں کی روشنی میں شروع کیے گئے ہوں گے لیکن یہ سب طریقے آپس میں ایک دوسرے سےبھی مختلف ہیں اورطریقہ نبویﷺ سےبھی مختلف ہیں۔
طریقہ نبویہ کےمطابق اولین اورناگزیرطریقہ ذکر نماز ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے (وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي)’’میرےذکر کےلی نماز قائم کرو۔‘‘(طہٰ 14:20)اللہ نے خود رسالت مآب ﷺ کو مخاطب کرکےفرمایا(أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا)’’نماز قائم کر سورج ڈھلنے سےرات کے اندھیرے تک اور فجر کاقرآن (پڑھ) بلاشبہ فجر کا قرآن ہمیشہ سےحاضر ہونے کا وقت رہا ہے اور رات کے کچھ حصے میں، پھر اس کے ساتھ بیدار رہ ، اس حال میں کہ تیرے لیے اضافی ہے قریب ہے کہ تیرا رب تجھے مقام محمود پر فائز کرےگا۔‘‘(بنی اسرائیل78،79:17)ابتدائی دورمیں رات کی نماز کاخصوصی اہتما تھا آپﷺ کو حکم تھا (يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيلًاأَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا)’’اے کپڑے میں لپٹنے والے رات کو قیام کر مگرتھوڑا۔ آدھی رات (قیام کر) یا اس سےتھوڑا کم کر لے یا اس سےزیادہ کر لے اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھ ۔‘‘(المزمل73: 1۔4)گویا آپ کو آدھی رات یا اس سےکم یازیادہ قیام کا حکم تھا جس میں آپ کو ترتیل سےقرآن پڑھنا تھا ۔ قرآن خصوصا جب نماز میں توجہ سےپڑھا جائے تو سب سےاعلیٰ اورسب سے مکمل ذکر ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو ’’الذکر‘‘کہا ہے ۔‘‘( إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ)’’بلاشبہ ہم ہی نے یہ ذکر نازل کیاہے اور بلاشبہ ہم ضرور اس کی حفاظت کرنے والے ہیں(الحجر7:15)اس سے اللہ کی یاد، اس کی عبادت اورانسان کی تربیت کے تمام تقاضوں کی تکمیل ہوتی ہے ۔ رسو ل اللہ ﷺ کو اللہ کی طرف جو مشن عطا ہوا،رات کے قیام کو اس کی تکمیل کی پوری تیاری اور اللہ کےپیغام کو انسانی قلوب واذہان تک پہنچانے کاکامیاب ذریعہ قرار دیاگیا (إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا) ’’بلاشبہ رات کو اٹھنا (نفس کو )کچلنے میں زیادہ سخت اور بات کرنے میں زیادہ درستی والا ہے ۔‘‘(المزمل 6:73)
رسول اللہﷺ نےنماز کے اذکار صبح وشام کے اذکار سونے جاگنے کے اذکار کھانے پینے کے اذکار ،غرض بہ مرحلے اورہرکام کےوقت کے اذکار سکھائے اورمسلمان کی پوری زندگی کو ذکر الہیٰ سےوابستہ کردیا۔ یہ طریقہ نبویہ ہے جوپوری انسانی زندگی کومنور کردیتاہے ۔ آپﷺ کے بتائے ہوئے اذکار اور دعائیں ایسی ہیں کہ ان سےبہتر دعاؤں کاتصور تک نہیں کیا جاسکتا۔ آج کل کےاصحاب طریقت میں ان چیزوں کاکوئی خص اہتمام نظر نہیں آتا ۔ قرآن مجید کازیادہ سےزیادہ حصہ یاد کرنے اس کو اچھی طرح سمجھنے اور رات کاقیام کرکے اس میں توجہ اورترتیل کے ساتھ پڑھنے کی تلقین طریقت کاحصہ نظر نہیں آتا ۔ رسول اللہﷺ کےاذکار اورآپ کی تلقین کردہ دعائیں یاد کرنے اوران کے مفہوم کو ذہن نشین کرانے کابھی کوئی اہتمام نہیں۔ مرشدین طریقت خود بھی رسول اللہ ﷺ کےمعمولات کے اتباع حتی کہ آپ کے سکھائے اذکار اوردعاؤں سےبے بہرہ نظر آتے ہیں۔ تزکیہ قلب کے لیے قرآن نے جو طریقہ بتایا ہے وہ فرض زکاۃ اورکثرت سےصدقات کےذریعے سےمال خرچ کرنا ہے تاکہ دل سےمال کی محبت ختم ہو جائے اللہ کافرمان ہے (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ) ’’ان کے مالوں سے صدقہ لیں اس کے ساتھ آپ انہیں پاک کریں گے اورانہیں صاف کریں گے ۔‘‘(التوبہ 103:9) اور ایک مثالی مومن کا تعارف کرواتے ہوئے کہا گیا(الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّى) ’’وہ جو اپنا مال (اس لیے )دیتا ہے کہ پاک ہوجائے ۔‘‘(اللیل 18:92) لیکن آج کل کے زیادہ تر اصحاب طریقت تزکیہ حاصل کرنے بجائے الٹا فتوحات کی صورت میں لوگوں کے مال کامیل کچیل اکٹھا کرنے میں لگے ہوئے نظرآتےہیں ۔
امام مسلم نے اپنی صحیح کےاس حصے میں صحیح احادیث کےذریعے سےطریقہ نبویہ کےخدوخال واضح کیےہیں۔ اس میں اذکار ہیں ان کےفضائل ہیں ، دعائیں ہیں اورا ن کے آداب ہیں۔
عمرو ناقد، زُہیر بن حرب اور ابن ابی عمر نے ہمیں سفیان سے حدیث بیان کی ۔۔ الفاظ عمرو کے ہیں ۔۔ انہوں نے کہا: ہمیں سفیان بن عیینہ نے ابوزناد سے حدیث بیان کی، انہوں نے اعرج سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کی کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں، جس نے ان کی حفاظت کی وہ جنت میں داخل ہو جائے گا اور اللہ وتر (طاق) ہے، وتر کو پسند کرتا ہے۔‘‘ اور ابن ابی عمر کی روایت میں ہے: ’’جس نے ان کو شمار کیا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
اللہ تعالی کے ناموں کی حفاظت اور یاد رکھنے کا مطلب ہے ان کو سمجھنا، ذکر اور دعا میں ان کو دہرانا، ایک ایک کر کے بطور تبرک اخلاص کے ساتھ اور خود کو ان سے متصف کرنا۔ اللہ تعالی طاق ہے اس لیے اس نے اپنے ننانوے نام بتائے ہیں جو طاق عدد ہے اور ان کا ذکر کرنے والا وتر یا طاق ہی کا ذکر کرے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کےننانوے نام ہیں ، جس نے ان کو یاد کیا جنت میں داخل ہو گا اور اللہ تعالیٰ یکتا ہے( طاق اور فرد ہے) اور طاق کو پسند کرتا ہے۔‘‘ ابن ابی عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ’’حفظها‘‘ کی جگہ ’’احصاها‘‘ ہے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث میں حفظها اور احصاها دو لفظ آئے ہیں اور ایک حدیث سے دوسری حدیث کی تفسیر ہوتی ہے کہ اصول کے مطابق، احصاها کا معنی بھی یاد کرنا ہے، اگرچہ بعض نے اس کا معنی ایمان رکھنا کیا ہے، بعض نے ان کے مطابق عمل کرنا مراد لیا ہے اور بعض نے ان کی معرفت مراد لی ہے۔کسی صحیح حدیث میں ان ننانویں ناموں کی تعیین نہیں آئی ہے، حافظ ابن حجر نے اس حدیث کے تحت، ترمذی شریف اور آیات قرآنیہ کی روشنی میں ننانوے نام لکھے ہیں، اگرچہ جمہور علماء کے نزدیک بعض احادیث کی بنا پر اللہ کے اسماء صرف یہی نہیں ہیں اور بھی بہت سے نام ہیں جن کا علم صرف اللہ کو ہے، لیکن یہ فضیلت انہی ناموں کو حاصل ہے اور اللہ تعالیٰ چونکہ یگانہ اور یکتا ہے، اس لیے وہ اس انسان کو پسند کرتا ہے، جو دوسروں سے الگ تھلگ اور یکسو ہر کر، یا سب سے کٹ کر اس کو یاد کرتا ہے، کسی اور کو اپنے دل میں اتنی جگہ نہیں دیتا کہ وہ اسے اس سے غافل کر سکے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے عام طور پر عبادات میں بھی طاق کو ملحوظ رکھا ہے، تین دفعہ استنجا لازم ہے، یا کم از کم مسنون ہے، تین دفعہ اعضائے وضو دھونا افضل ہے، پانچ نمازیں ہیں، طواف، سعی سات دفعہ ہے، تین جمرات ہیں، سات دفعہ ان کو مارنا ہے، سات ایام ہیں، سات آسمان ہیں، سات زمینیں ہیں، سات سمندر ہیں، وغیرہ۔ان ننانویں ناموں کی فضیلت بیان کرنا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ معین میں اگر وہ مبہم ہیں، ان کا پتہ نہیں ہے تو وہ ان کو یاد کرنا کیسے ممکن ہے اس لیے حافظ ابن حجر نے جامع ترمذی اور قرآنی آیات کی روشنی میں جو ننانویں نام لکھے ہیں ان پر اعتماد کرنا چاہیے جو یہ ہے۔هو الله، الذی لا اله الا هو، الرحمٰن، الرحيم، الملك، القدوس، السلام، المومن، المهيمن، العزيز، الجبار، المتكبر، الخالق، الباری، المصور، الغفار، القهار، الوهاب، الرزاق، الفتاح، العليم، القابض، الباسط، الخافض، الرافع، المعز، المذل، السميع، البصير، الحكم، العدل، اللطيف، الخبير، الحليم، العظيم، الغفور، الشكور، العلی، الكبير، الحفظ، المقيت، الحسيب، الجليل، الكريم، الرقيب، المجيب، الواسع، الحكيم، الودود، المجيد، الباعث، الشهيد، الحق، الوكيل، القوی، الولی، الحميد، المحصی، المبدی، المعيد، المحی، المميت، الحی، القيوم، الواجد، الماجد، الواحد، الصمد، القادر، المقتدر، المقدم، الموخر، الاول، الاخر، الظاهر، الباطن، الوالی، المتعال، البر، التواب، المنتقم، العفو، الروؤف، مالك الملك، ذوالجلال والاكرام، المقسط، الجامع، الغنی، المغنی، المانع، الضار، النافع، النور، الهادی، البديع، الباقی، الوارث، الرشيد، الصبور اللہ تعالیٰ کے ان ناموں میں کچھ اختلاف ہے تفصیل کے لیے دیکھئے قاضی سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ کی شرح اسماء اللہ الحسنیٰ (اردو) فقہ الاسماء الحسنیٰ (عربی) دکتور عبدالرزاق بن عبدالمحسن البدر حفظہ اللہ۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کے نزدیک احصاء کے تین مراتب ہیں۔ (1) اسماء کو یاد کرنا اور شمار کرنا۔ (2) ان کے معانی و مطالب کو جاننا (3) اور ان کے واسطہ سے دعا کرنا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: There are ninety-nine names of Allah; he who commits them to memory would get into Paradise. Verily, Allah is Odd (He is one, and it is an odd number) and He loves odd number. And in the narration of Ibn 'Umar (the words are): "He who enumerated them."