صحیح مسلم
50. کتاب: ذکر الٰہی،دعا،توبہ اور استغفار
8. باب: مجالس ذکر کی فضیلت
صحيح مسلم
50. كتاب الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار
8. بَابُ فَضْلِ مَجَالِسِ الذِّكْرِ
Muslim
50. The Book Pertaining to the Remembrance of Allah, Supplication, Repentance and Seeking Forgiveness
8. Chapter: The Virtues Of Gathering To Remember Allah (Adh-Dhikr)
Muslim:
The Book Pertaining to the Remembrance of Allah, Supplication, Repentance and Seeking Forgiveness
(Chapter: The Virtues Of Gathering To Remember Allah (Adh-Dhikr))
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2689.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی ﷺ سے روایت کی کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تبارک و تعالیٰ کے کچھ فرشتے ہیں جو (اللہ کی زمین میں) چکر لگاتے رہتے ہیں، وہ اللہ کے ذکر کی مجلسیں تلاش کرتے ہیں، جب وہ کوئی ایسی مجلس پاتے ہیں جس میں (اللہ کا) ذکر ہوتا ہے تو ان کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں، وہ ایک دوسرے کو اپنے پروں سے اس طرح ڈھانپ لیتے ہیں کہ اپنے اور دنیا کے آسمان کے درمیان (کی وسعت کو) بھر دیتے ہیں۔ جب (مجلس میں شریک ہونے والے) لوگ منتشر ہو جاتے ہیں تو یہ (فرشتے) بھی اوپر کی طرف جاتے ہیں اور آسمان پر چلے جاتے ہیں، کہا: تو اللہ عزوجل ان سے پوچھتا ہے، حالانکہ وہ ان کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والا ہے: تم کہاں سے آئے ہو؟ وہ کہتے ہیں: ہم زمین میں (رہنے والے) تیرے بندوں کی طرف سے (ہو کر) آئے ہیں جو تیری پاکیزگی بیان کر رہے تھے، تیزی بڑائی کہہ رہے تھے اور صرف اور صرف تیرے ہی معبود ہونے کا اقرار کر رہے تھے اور تیری حمد و ثنا کر رہے تھے اور تجھی سے مانگ رہے تھے، فرمایا: وہ مجھ سے کیا مانگ رہے تھے؟ انہوں نے کہا: وہ آپ سے آپ کی جنت مانگ رہے تھے۔ فرمایا: کیا انہوں نے میری جنت دیکھی ہے؟ انہوں نے کہا: پروردگار! (انہوں نے) نہیں (دیکھی)، فرمایا: اگر انہوں نے میری جنت دیکھی ہوتی کیا ہوتا! (کس الحاح و زاری سے مانگتے!) وہ کہتے ہیں: اور وہ تیری پناہ مانگ رہے تھے، فرمایا: وہ کس چیز سے میری پناہ مانگ رہے تھے؟ انہوں نے کہا: تیری آگ (جہنم) سے، اے رب! فرمایا: کیا انہوں نے میری آگ (جہنم) دیکھی ہے؟ انہوں نے کہا: اے رب! نہیں (دیکھی)، فرمایا: اگر وہ میری جہنم دیکھ لیتے تو (ان کا کیا حال ہوتا!) وہ کہتے ہیں: وہ تجھ سے گناہوں کی بخشش مانگ رہے تھے، تو وہ فرماتا ہے: میں نے ان کے گناہ بخش دیے اور انہوں نے جو مانگا میں نے انہیں عطا کر دیا اور انہوں نے جس سے پناہ مانگی میں نے انہیں پناہ دے دی۔ (رسول اللہ ﷺ نے) فرمایا: وہ (فرشتے) کہتے ہیں: پروردگار! ان میں فلاں شخص بھی موجود تھا، سخت گناہ گار بندہ، وہاں سے گزرتے ہوئے ان کے ساتھ بیٹھ گیا تھا۔ (آپ ﷺ نے) فرمایا: تو اللہ ارشاد فرماتا ہے: میں نے اس کو بھی بخش دیا۔ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کی وجہ سے ان کے ساتھ بیٹھ جانے والا بھی محروم نہیں رہتا۔‘‘
یہ انسان کےلیے بہت بڑی خوش قسمتی کی بات ہے کہ وہ اللہ پر سچا ایمان رکھتا ہو اس کی صفات حسنہ کو پہچانتاہو، اس کی نعمتوں ،مہربانیوں اور اس کے لیے پایاں فضل وکرم کا احساس رکھتا ہو اور پورے عجزاورمحبت سے اس کو یاد کرتا ہو۔ اللہ نے انسان کو اس طرح بنایا کہ وہ ہرلمحہ اللہ کی مہربانیوں کامحتاج ہوتاہے ۔ اگر اس کا دل مردہ نہیں ہوا تو وہ بے اختیار اس کو یاد کرتا ہے ۔ یہ یاد اسے دل کامکمل اطمینان ،احساس تحفظ ،سچی خوشی اور بے حساب لذت وحلاوت عطا کرتی ہے ۔ اللہ کا بندہ اسے یاد کرے تو وہ اس سے بڑھ کر خوش ہوتاہے۔ بندہ اس کی یاد کےذریعے سےاس کے قریب آئے تووہ بندے سےبڑھ کر اس کےقریب آتاہے ۔
اللہ کے ننانوے خوبصورت نام ہیں۔ بندہ جس نام سے چاہے اللہ کو یاد کرسکتا ہے پکارسکتاہے ،دعا کرسکتاہے ، بندے کی زندگی کا کوئی پہلو اور اس کوئی ضرورت ایسی نہیں جس کےلیے وہ اللہ کو پکارنا چاہے اوراس کی ضرورت کےمطابق اسے مناسب ترین نام نہ ملے۔ بیماریوں کےلیے وہ شافی ہے ،بھوکوں ننگوں کےلیے وہ رزاق ہے، گناہ گاروں کےلیے وہ غفار وغفور ہے ،محروموں کےلیے وہ ہے کمزوروں کےلیے وہ قومی ہے ،دھتکار ے ہوؤں کےلیے وہ دود ہے ،رحیم ہے وعلی ہذاالقیاس ۔ اسےپسند ہے کہ اس کابندہ اصرار کرکےاس سے مانگے ،پورے یقین کے ساتھ کہ اسے مل کر رہے گا ۔ اسے سخت ناپسند ہے کہ کوئی اس سےمایوس ہو۔ جس کےلیے زندگی ناقابل برداشت ہوجائے اورووہ موت مانگنے لگے تو اس بات کو اللہ کی رحمت سے وابستہ کرے۔ جو موت کے وقت اللہ سےملاقات کامتمنی ہو اللہ بھی اس سےملاقات کو پسند فرماتاہے ، وہ بندے کےاچھے گمان کو بھی رد نہیں کرنا چاہتا ۔ گناہوں پر پشیمانی ہوتو بھی دنیامیں سزاپانے کےبجائے دنیا اورآخرت دونوں میں اس سےاچھائی اوراس کی رحمت مانگنے کاحکم دیاگیاہے۔
اللہ وتنہائی میں بھی یاد کرنا چاہیے اور دوسرے مومنوں کے ساتھ مل کر بھی ۔تنہائی میں زیادہ یاد کرنے والے بازی لے جاتے ہیں۔ صبح وشام سوتے جاگتے ،دن کی مصروفیتوں اور رات کی تنہائیوں میں اسے یاد کرنے والا عظیم ترین انعام کاحق دار ہے جوقرب الہیٰ ہے ،لیکن حضرت ابوہریرہ روایت کرتےہیں کہ جب قرآن پڑھنا پڑھانا ہو، اللہ کے احسان یاد کرنے، سننے اور بیان کرتے ہوں اورمزید مانگنے ہوں تو اس کی یاد مجلسیں مناسب ہیں ،اللہ ان مجلسوں پر سکنیت نازل فرماتاہے ،شریک ہونےوالوں کو اپنی رحمت سے ڈھانپ دیتا ہے فرشتے ان کےاردگرد گھیرا باندھ لیتے ہیں (حدیث :6853)اللہ ان یاد کرنے والوں کو ان کی مجلس سےبہت اونچی مجلس میں یاد کرتا ہے ۔ (حدیث:6855،6839)جوتنہائی میں بیٹھ کر اس کی یاد میں مستغرق ہوجاتا ہے اللہ اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہے ۔(حدیث:6805)یاد رہے کہ ذکر کے حوالے سے اوپر بیان کی جانے والی ساری روایت حضرت ابوہریرہ نےروایت کی ہیں۔ ان میں تنہااورمل کر دونوں طرح سے اللہ کی یاد کی تفصیلات موجود ہیں۔ ان میں کہیں بھی کوئی ایسا طریقہ مذکور نہیں جو آج کل کےاصحاب طریقت نے ایجاد کر رکھے ہیں۔ یہ طریقے اپنے اپنے ایجاد کرنےوالوں ہی کےنام سےموسوم ہیں۔ طریقہ شاذلیہ،طریقہ نقشبندیہ ،طریقہ قادریہ وغیرہ ، یہ طریقے اچھی نیت سےتربیت کے حوالے سے اپنے اپنے تجربوں کی روشنی میں شروع کیے گئے ہوں گے لیکن یہ سب طریقے آپس میں ایک دوسرے سےبھی مختلف ہیں اورطریقہ نبویﷺ سےبھی مختلف ہیں۔
طریقہ نبویہ کےمطابق اولین اورناگزیرطریقہ ذکر نماز ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے (وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي)’’میرےذکر کےلی نماز قائم کرو۔‘‘(طہٰ 14:20)اللہ نے خود رسالت مآب ﷺ کو مخاطب کرکےفرمایا(أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا)’’نماز قائم کر سورج ڈھلنے سےرات کے اندھیرے تک اور فجر کاقرآن (پڑھ) بلاشبہ فجر کا قرآن ہمیشہ سےحاضر ہونے کا وقت رہا ہے اور رات کے کچھ حصے میں، پھر اس کے ساتھ بیدار رہ ، اس حال میں کہ تیرے لیے اضافی ہے قریب ہے کہ تیرا رب تجھے مقام محمود پر فائز کرےگا۔‘‘(بنی اسرائیل78،79:17)ابتدائی دورمیں رات کی نماز کاخصوصی اہتما تھا آپﷺ کو حکم تھا (يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيلًاأَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا)’’اے کپڑے میں لپٹنے والے رات کو قیام کر مگرتھوڑا۔ آدھی رات (قیام کر) یا اس سےتھوڑا کم کر لے یا اس سےزیادہ کر لے اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھ ۔‘‘(المزمل73: 1۔4)گویا آپ کو آدھی رات یا اس سےکم یازیادہ قیام کا حکم تھا جس میں آپ کو ترتیل سےقرآن پڑھنا تھا ۔ قرآن خصوصا جب نماز میں توجہ سےپڑھا جائے تو سب سےاعلیٰ اورسب سے مکمل ذکر ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو ’’الذکر‘‘کہا ہے ۔‘‘( إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ)’’بلاشبہ ہم ہی نے یہ ذکر نازل کیاہے اور بلاشبہ ہم ضرور اس کی حفاظت کرنے والے ہیں(الحجر7:15)اس سے اللہ کی یاد، اس کی عبادت اورانسان کی تربیت کے تمام تقاضوں کی تکمیل ہوتی ہے ۔ رسو ل اللہ ﷺ کو اللہ کی طرف جو مشن عطا ہوا،رات کے قیام کو اس کی تکمیل کی پوری تیاری اور اللہ کےپیغام کو انسانی قلوب واذہان تک پہنچانے کاکامیاب ذریعہ قرار دیاگیا (إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا) ’’بلاشبہ رات کو اٹھنا (نفس کو )کچلنے میں زیادہ سخت اور بات کرنے میں زیادہ درستی والا ہے ۔‘‘(المزمل 6:73)
رسول اللہﷺ نےنماز کے اذکار صبح وشام کے اذکار سونے جاگنے کے اذکار کھانے پینے کے اذکار ،غرض بہ مرحلے اورہرکام کےوقت کے اذکار سکھائے اورمسلمان کی پوری زندگی کو ذکر الہیٰ سےوابستہ کردیا۔ یہ طریقہ نبویہ ہے جوپوری انسانی زندگی کومنور کردیتاہے ۔ آپﷺ کے بتائے ہوئے اذکار اور دعائیں ایسی ہیں کہ ان سےبہتر دعاؤں کاتصور تک نہیں کیا جاسکتا۔ آج کل کےاصحاب طریقت میں ان چیزوں کاکوئی خص اہتمام نظر نہیں آتا ۔ قرآن مجید کازیادہ سےزیادہ حصہ یاد کرنے اس کو اچھی طرح سمجھنے اور رات کاقیام کرکے اس میں توجہ اورترتیل کے ساتھ پڑھنے کی تلقین طریقت کاحصہ نظر نہیں آتا ۔ رسول اللہﷺ کےاذکار اورآپ کی تلقین کردہ دعائیں یاد کرنے اوران کے مفہوم کو ذہن نشین کرانے کابھی کوئی اہتمام نہیں۔ مرشدین طریقت خود بھی رسول اللہ ﷺ کےمعمولات کے اتباع حتی کہ آپ کے سکھائے اذکار اوردعاؤں سےبے بہرہ نظر آتے ہیں۔ تزکیہ قلب کے لیے قرآن نے جو طریقہ بتایا ہے وہ فرض زکاۃ اورکثرت سےصدقات کےذریعے سےمال خرچ کرنا ہے تاکہ دل سےمال کی محبت ختم ہو جائے اللہ کافرمان ہے (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ) ’’ان کے مالوں سے صدقہ لیں اس کے ساتھ آپ انہیں پاک کریں گے اورانہیں صاف کریں گے ۔‘‘(التوبہ 103:9) اور ایک مثالی مومن کا تعارف کرواتے ہوئے کہا گیا(الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّى) ’’وہ جو اپنا مال (اس لیے )دیتا ہے کہ پاک ہوجائے ۔‘‘(اللیل 18:92) لیکن آج کل کے زیادہ تر اصحاب طریقت تزکیہ حاصل کرنے بجائے الٹا فتوحات کی صورت میں لوگوں کے مال کامیل کچیل اکٹھا کرنے میں لگے ہوئے نظرآتےہیں ۔
امام مسلم نے اپنی صحیح کےاس حصے میں صحیح احادیث کےذریعے سےطریقہ نبویہ کےخدوخال واضح کیےہیں۔ اس میں اذکار ہیں ان کےفضائل ہیں ، دعائیں ہیں اورا ن کے آداب ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی ﷺ سے روایت کی کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تبارک و تعالیٰ کے کچھ فرشتے ہیں جو (اللہ کی زمین میں) چکر لگاتے رہتے ہیں، وہ اللہ کے ذکر کی مجلسیں تلاش کرتے ہیں، جب وہ کوئی ایسی مجلس پاتے ہیں جس میں (اللہ کا) ذکر ہوتا ہے تو ان کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں، وہ ایک دوسرے کو اپنے پروں سے اس طرح ڈھانپ لیتے ہیں کہ اپنے اور دنیا کے آسمان کے درمیان (کی وسعت کو) بھر دیتے ہیں۔ جب (مجلس میں شریک ہونے والے) لوگ منتشر ہو جاتے ہیں تو یہ (فرشتے) بھی اوپر کی طرف جاتے ہیں اور آسمان پر چلے جاتے ہیں، کہا: تو اللہ عزوجل ان سے پوچھتا ہے، حالانکہ وہ ان کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والا ہے: تم کہاں سے آئے ہو؟ وہ کہتے ہیں: ہم زمین میں (رہنے والے) تیرے بندوں کی طرف سے (ہو کر) آئے ہیں جو تیری پاکیزگی بیان کر رہے تھے، تیزی بڑائی کہہ رہے تھے اور صرف اور صرف تیرے ہی معبود ہونے کا اقرار کر رہے تھے اور تیری حمد و ثنا کر رہے تھے اور تجھی سے مانگ رہے تھے، فرمایا: وہ مجھ سے کیا مانگ رہے تھے؟ انہوں نے کہا: وہ آپ سے آپ کی جنت مانگ رہے تھے۔ فرمایا: کیا انہوں نے میری جنت دیکھی ہے؟ انہوں نے کہا: پروردگار! (انہوں نے) نہیں (دیکھی)، فرمایا: اگر انہوں نے میری جنت دیکھی ہوتی کیا ہوتا! (کس الحاح و زاری سے مانگتے!) وہ کہتے ہیں: اور وہ تیری پناہ مانگ رہے تھے، فرمایا: وہ کس چیز سے میری پناہ مانگ رہے تھے؟ انہوں نے کہا: تیری آگ (جہنم) سے، اے رب! فرمایا: کیا انہوں نے میری آگ (جہنم) دیکھی ہے؟ انہوں نے کہا: اے رب! نہیں (دیکھی)، فرمایا: اگر وہ میری جہنم دیکھ لیتے تو (ان کا کیا حال ہوتا!) وہ کہتے ہیں: وہ تجھ سے گناہوں کی بخشش مانگ رہے تھے، تو وہ فرماتا ہے: میں نے ان کے گناہ بخش دیے اور انہوں نے جو مانگا میں نے انہیں عطا کر دیا اور انہوں نے جس سے پناہ مانگی میں نے انہیں پناہ دے دی۔ (رسول اللہ ﷺ نے) فرمایا: وہ (فرشتے) کہتے ہیں: پروردگار! ان میں فلاں شخص بھی موجود تھا، سخت گناہ گار بندہ، وہاں سے گزرتے ہوئے ان کے ساتھ بیٹھ گیا تھا۔ (آپ ﷺ نے) فرمایا: تو اللہ ارشاد فرماتا ہے: میں نے اس کو بھی بخش دیا۔ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کی وجہ سے ان کے ساتھ بیٹھ جانے والا بھی محروم نہیں رہتا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپﷺ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ کے گشت کرنے والے فرشتے ہیں جو اور کام نہیں کرتے ، وہ مجالس ذکر کو تلاش کرتے ہیں اور جب انہیں ذکر کی مجلس مل جاتی ہےجس میں ذکر الٰہی ہوتا ہے تو وہ اہل مجلس کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے پروں سے ایک دوسرے کو ڈھانپ لیتے ہیں حتی کہ زمین کی مجلس سے لے کر آسمان دنیا تک جگہ بھر جاتی ہے اور جب اہل مجلس بکھر جاتے ہیں تو وہ اوپر چڑھ جاتے ہیں اور آسمان کی طرف چڑھ جاتے ہیں چنانچہ اللہ عزوجل فرشتوں سے پوچھتا ہے، حالانکہ وہ اہل مجلس کے بارے میں ان سے زیادہ جانتا ہے تم کہاں سے آئے ہو؟ تو وہ جواب دیتے ہیں ہم زمین میں تیرے بندوں کے پاس سے آئے ہیں وہ تیری الوہیت بیان کررہے تھے تیری حمد کر رہے تھے اور تجھ سے درخواست کر رہے تھے اللہ پوچھتا ہے وہ مجھ سے کیا مانگ رہے تھے؟ وہ عرض کرتے ہیں وہ تجھے سے تیری جنت کا سوال کررہے تھےوہ فرماتا ہے، کیا انھوں نے میری جنت کو دیکھا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں، نہیں، اے رب! اللہ فرماتا ہے، اگر وہ میری جنت دیکھ لیتے تو پھر ان کی کیا حالت ہوتی؟ وہ عرض کرتے ہیں اور وہ تجھ سے پناہ طلب کر رہے تھے، فرماتا ہے وہ مجھ سے کس چیز سے پناہ طلب کر رہے تھے ؟ وہ عرض کرتے ہیں تیری آگ سے، اے رب! وہ فرماتا ہے کیا انھوں نے میری آگ کا مشاہدہ کیا ہے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں نہیں اللہ فرماتا ہے اگر وہ میری آگ دیکھ لیتے تو ان کی کیا حالت ہوتی؟ وہ عرض کرتے ہیں اور وہ تجھ سے بخشش طلب کر رہے تھے اللہ فرماتا ہے میں نے انہیں بخش دیا اور جو انھوں نے مانگا، میں نے انہیں دے دیا اور جس چیز سے انھوں نے پناہ طلب کی اس سے پناہ دے دی، فرشتے عرض کرتے ہیں، اے رب! ان میں فلاں ، بہت خطا کار بندہ ہے وہ تو بس گزر تے ہوئے ان کے ساتھ بیٹھ گیا، اللہ فرماتا ہے میں نے اس کو بھی بخش دیا۔ کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں جن کا ہم نشین ناکام و محروم نہیں رہتا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
سيارة: گردش کرنے والے، بہت گھومنے والے، فضلاء: علماء نے اس کو پانچ طرح پڑھا ہے۔ (1) فاء اور ضاد دونوں پر پیش ہے، بقول امام نووی یہی راجح ہے۔ (2) فاء پر پیش ہے اور ضاد ساکن ہے اور بقول بعض یہی درست تر ہے۔ (3) فاء پر زبر ہے اور ضاد ساکن ہے اور بقول قاضی عیاض جمہور اساتذہ بخاری اور مسلم میں اس طرح پڑھتے ہیں۔ (4) فضل: فاء اور ضاد پر پیش ہے اور لام مرفوع ہے یعنی مبتدائے محذوف کی خبر ہے۔ (5) فضلاء ہے یعنی فاضل کی جمع ہے، پہلی چار صورتوں میں معنی ہو گا، وہ افراد و اشخاص کے ساتھ معین فرشتوں سے جدا صرف اسی کام پر مقرر ہیں کہ مجلس ذکر کو تلاش کریں۔ يتبعون: جستجو اور تلاش کرتے ہیں، حف بعضهم بعضا: اللہ کے ذکر کا نور اوپر کو چڑھتا جاتا ہے، اس طرح فرشتے اوپر تک ایک دوسرے کو گھیر لیتے ہیں۔ يستجيرون: وہ امان اور پناہ طلب کرتے ہیں، خطاء: بہت خطا کار۔
فوائد ومسائل
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے، ایک جگہ بیٹھ کر تسبیح، تکبیر، تحمید اور تہلیل میں مشغول ہونا اور اللہ تعالیٰ سے جنت کی درخواست کرنا اور دوزخ سے پناہ طلب کرنا، اپنی حاجت کے حصول کا تیر بہدف نسخہ ہے، حتیٰ کہ اگر کوئی انسان گزرتے گزرتے بھی ان لوگوں کے ساتھ شریک ہو جاتا ہے تو وہ بھی محروم نہیں رہتا اور ایسی مجلس کو فرشتے آسمان دنیا تک ڈھانپ لیتے ہیں، لیکن شرط یہ ہے، یہ مجلس مبتدعانہ طورواطوار، ریاء و سمع اور خلاف شریعت امور سے پاک ہو اور مسنون اوراد، مسنون انداز میں پڑھے جائیں، اپنے خودساختہ الفاظ یا اپنے وضع کردہ طریقے نہ ہوں، مثلا صبح و شام کی نمازوں کے بعد سب کا بیٹھ کر اپنے اپنے طور پر ذکروفکر میں منہمک ہونا، جمعہ کے دن، امام کی آمد سے پہلے یا عصر کی نماز کے بعد ذکرواذکار پڑھنا، دعا اور تلاوت وغیرہ، میں مشغول رہنا اور اس کے حضور درخواست کرنا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported Allah's Apostle (ﷺ) as saying Allah has mobile (squads) of angels, who have no other work (to attend to) but to follow the assemblies of Dhikr and when they find such assemblies in which there is Dhikr (of Allah) they sit in them and some of them surround the others with their wings till the space between them and the sky of the world is fully covered, and when they disperse (after the assembly of Dhikr is adjourned) they go upward to the heaven and Allah, the Exalted and Glorious, asks them although He is best informed about them: Where have you come from? They say: We come from Thine servants upon the earth who had been glorifying Thee (reciting Subhan Allah), uttering Thine Greatness (saying Allah o-Akbar) and uttering Thine Oneness (La ilaha ill Allah) and praising Thee (uttering al-Hamdu Lillah) and begging of Thee. Be would say: What do they beg of Me? They would say: They beg of Thee the Paradise of Thine. He (God) would say: Have they seen My Paradise? They said: No, our Lord. He would say: (What it would be then) if they were to see Mine Paradise? They (the angels) said: They seek Thine protection. He (the Lord) would say: Against what do they seek protection of Mine? They (the angels) would say: Our Lord, from the Hell-Fire. He (the Lord) would say: Have they seen My Fire? They would say: No. He (the Lord) would say: What it would be if they were to see My Fire? They would say: They beg of Thee forgiveness. He would say: I grant pardon to them, and confer upon them what they ask for and grant them protection against which they seek protection. They (the angels) would again say: Our Lord, there is one amongst them such and such simple servant who happened to pass by (that assembly) and sat there along with them (who had been participating in that assembly). He (the Lord) would say: I also grant him pardon, for they are a people the seat-fellows of whom are in no way unfortunate.