باب: اپنے حق میں برے فیصلے اور بدبختی کے آ لینے وغیرہ سے پناہ مانگنا
)
Muslim:
The Book Pertaining to the Remembrance of Allah, Supplication, Repentance and Seeking Forgiveness
(Chapter: Seeking Refuge From A Bad End, And Misery Etc)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2707.
عمرو ناقد اور زُہیر بن حرب نے مجھے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں سفیان بن عیینہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: مجھے سُمی نے ابوصالح سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ انسان کے حق میں برا ثابت ہونے والے فیصلے، بدبختی کے آ لینے، اپنی تکلیف پر دشمنوں کے خوش ہونے اور عاجز کر دینے والی آزمائش سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ عمرو نے اپنی حدیث (کی سند) میں کہا: سفیان نے کہا: مجھے شک ہے کہ (شاید) میں نے ان باتوں میں سے کوئی ایک بات بڑھا دی ہے۔
یہ انسان کےلیے بہت بڑی خوش قسمتی کی بات ہے کہ وہ اللہ پر سچا ایمان رکھتا ہو اس کی صفات حسنہ کو پہچانتاہو، اس کی نعمتوں ،مہربانیوں اور اس کے لیے پایاں فضل وکرم کا احساس رکھتا ہو اور پورے عجزاورمحبت سے اس کو یاد کرتا ہو۔ اللہ نے انسان کو اس طرح بنایا کہ وہ ہرلمحہ اللہ کی مہربانیوں کامحتاج ہوتاہے ۔ اگر اس کا دل مردہ نہیں ہوا تو وہ بے اختیار اس کو یاد کرتا ہے ۔ یہ یاد اسے دل کامکمل اطمینان ،احساس تحفظ ،سچی خوشی اور بے حساب لذت وحلاوت عطا کرتی ہے ۔ اللہ کا بندہ اسے یاد کرے تو وہ اس سے بڑھ کر خوش ہوتاہے۔ بندہ اس کی یاد کےذریعے سےاس کے قریب آئے تووہ بندے سےبڑھ کر اس کےقریب آتاہے ۔
اللہ کے ننانوے خوبصورت نام ہیں۔ بندہ جس نام سے چاہے اللہ کو یاد کرسکتا ہے پکارسکتاہے ،دعا کرسکتاہے ، بندے کی زندگی کا کوئی پہلو اور اس کوئی ضرورت ایسی نہیں جس کےلیے وہ اللہ کو پکارنا چاہے اوراس کی ضرورت کےمطابق اسے مناسب ترین نام نہ ملے۔ بیماریوں کےلیے وہ شافی ہے ،بھوکوں ننگوں کےلیے وہ رزاق ہے، گناہ گاروں کےلیے وہ غفار وغفور ہے ،محروموں کےلیے وہ ہے کمزوروں کےلیے وہ قومی ہے ،دھتکار ے ہوؤں کےلیے وہ دود ہے ،رحیم ہے وعلی ہذاالقیاس ۔ اسےپسند ہے کہ اس کابندہ اصرار کرکےاس سے مانگے ،پورے یقین کے ساتھ کہ اسے مل کر رہے گا ۔ اسے سخت ناپسند ہے کہ کوئی اس سےمایوس ہو۔ جس کےلیے زندگی ناقابل برداشت ہوجائے اورووہ موت مانگنے لگے تو اس بات کو اللہ کی رحمت سے وابستہ کرے۔ جو موت کے وقت اللہ سےملاقات کامتمنی ہو اللہ بھی اس سےملاقات کو پسند فرماتاہے ، وہ بندے کےاچھے گمان کو بھی رد نہیں کرنا چاہتا ۔ گناہوں پر پشیمانی ہوتو بھی دنیامیں سزاپانے کےبجائے دنیا اورآخرت دونوں میں اس سےاچھائی اوراس کی رحمت مانگنے کاحکم دیاگیاہے۔
اللہ وتنہائی میں بھی یاد کرنا چاہیے اور دوسرے مومنوں کے ساتھ مل کر بھی ۔تنہائی میں زیادہ یاد کرنے والے بازی لے جاتے ہیں۔ صبح وشام سوتے جاگتے ،دن کی مصروفیتوں اور رات کی تنہائیوں میں اسے یاد کرنے والا عظیم ترین انعام کاحق دار ہے جوقرب الہیٰ ہے ،لیکن حضرت ابوہریرہ روایت کرتےہیں کہ جب قرآن پڑھنا پڑھانا ہو، اللہ کے احسان یاد کرنے، سننے اور بیان کرتے ہوں اورمزید مانگنے ہوں تو اس کی یاد مجلسیں مناسب ہیں ،اللہ ان مجلسوں پر سکنیت نازل فرماتاہے ،شریک ہونےوالوں کو اپنی رحمت سے ڈھانپ دیتا ہے فرشتے ان کےاردگرد گھیرا باندھ لیتے ہیں (حدیث :6853)اللہ ان یاد کرنے والوں کو ان کی مجلس سےبہت اونچی مجلس میں یاد کرتا ہے ۔ (حدیث:6855،6839)جوتنہائی میں بیٹھ کر اس کی یاد میں مستغرق ہوجاتا ہے اللہ اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہے ۔(حدیث:6805)یاد رہے کہ ذکر کے حوالے سے اوپر بیان کی جانے والی ساری روایت حضرت ابوہریرہ نےروایت کی ہیں۔ ان میں تنہااورمل کر دونوں طرح سے اللہ کی یاد کی تفصیلات موجود ہیں۔ ان میں کہیں بھی کوئی ایسا طریقہ مذکور نہیں جو آج کل کےاصحاب طریقت نے ایجاد کر رکھے ہیں۔ یہ طریقے اپنے اپنے ایجاد کرنےوالوں ہی کےنام سےموسوم ہیں۔ طریقہ شاذلیہ،طریقہ نقشبندیہ ،طریقہ قادریہ وغیرہ ، یہ طریقے اچھی نیت سےتربیت کے حوالے سے اپنے اپنے تجربوں کی روشنی میں شروع کیے گئے ہوں گے لیکن یہ سب طریقے آپس میں ایک دوسرے سےبھی مختلف ہیں اورطریقہ نبویﷺ سےبھی مختلف ہیں۔
طریقہ نبویہ کےمطابق اولین اورناگزیرطریقہ ذکر نماز ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے (وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي)’’میرےذکر کےلی نماز قائم کرو۔‘‘(طہٰ 14:20)اللہ نے خود رسالت مآب ﷺ کو مخاطب کرکےفرمایا(أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا)’’نماز قائم کر سورج ڈھلنے سےرات کے اندھیرے تک اور فجر کاقرآن (پڑھ) بلاشبہ فجر کا قرآن ہمیشہ سےحاضر ہونے کا وقت رہا ہے اور رات کے کچھ حصے میں، پھر اس کے ساتھ بیدار رہ ، اس حال میں کہ تیرے لیے اضافی ہے قریب ہے کہ تیرا رب تجھے مقام محمود پر فائز کرےگا۔‘‘(بنی اسرائیل78،79:17)ابتدائی دورمیں رات کی نماز کاخصوصی اہتما تھا آپﷺ کو حکم تھا (يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيلًاأَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا)’’اے کپڑے میں لپٹنے والے رات کو قیام کر مگرتھوڑا۔ آدھی رات (قیام کر) یا اس سےتھوڑا کم کر لے یا اس سےزیادہ کر لے اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھ ۔‘‘(المزمل73: 1۔4)گویا آپ کو آدھی رات یا اس سےکم یازیادہ قیام کا حکم تھا جس میں آپ کو ترتیل سےقرآن پڑھنا تھا ۔ قرآن خصوصا جب نماز میں توجہ سےپڑھا جائے تو سب سےاعلیٰ اورسب سے مکمل ذکر ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو ’’الذکر‘‘کہا ہے ۔‘‘( إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ)’’بلاشبہ ہم ہی نے یہ ذکر نازل کیاہے اور بلاشبہ ہم ضرور اس کی حفاظت کرنے والے ہیں(الحجر7:15)اس سے اللہ کی یاد، اس کی عبادت اورانسان کی تربیت کے تمام تقاضوں کی تکمیل ہوتی ہے ۔ رسو ل اللہ ﷺ کو اللہ کی طرف جو مشن عطا ہوا،رات کے قیام کو اس کی تکمیل کی پوری تیاری اور اللہ کےپیغام کو انسانی قلوب واذہان تک پہنچانے کاکامیاب ذریعہ قرار دیاگیا (إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا) ’’بلاشبہ رات کو اٹھنا (نفس کو )کچلنے میں زیادہ سخت اور بات کرنے میں زیادہ درستی والا ہے ۔‘‘(المزمل 6:73)
رسول اللہﷺ نےنماز کے اذکار صبح وشام کے اذکار سونے جاگنے کے اذکار کھانے پینے کے اذکار ،غرض بہ مرحلے اورہرکام کےوقت کے اذکار سکھائے اورمسلمان کی پوری زندگی کو ذکر الہیٰ سےوابستہ کردیا۔ یہ طریقہ نبویہ ہے جوپوری انسانی زندگی کومنور کردیتاہے ۔ آپﷺ کے بتائے ہوئے اذکار اور دعائیں ایسی ہیں کہ ان سےبہتر دعاؤں کاتصور تک نہیں کیا جاسکتا۔ آج کل کےاصحاب طریقت میں ان چیزوں کاکوئی خص اہتمام نظر نہیں آتا ۔ قرآن مجید کازیادہ سےزیادہ حصہ یاد کرنے اس کو اچھی طرح سمجھنے اور رات کاقیام کرکے اس میں توجہ اورترتیل کے ساتھ پڑھنے کی تلقین طریقت کاحصہ نظر نہیں آتا ۔ رسول اللہﷺ کےاذکار اورآپ کی تلقین کردہ دعائیں یاد کرنے اوران کے مفہوم کو ذہن نشین کرانے کابھی کوئی اہتمام نہیں۔ مرشدین طریقت خود بھی رسول اللہ ﷺ کےمعمولات کے اتباع حتی کہ آپ کے سکھائے اذکار اوردعاؤں سےبے بہرہ نظر آتے ہیں۔ تزکیہ قلب کے لیے قرآن نے جو طریقہ بتایا ہے وہ فرض زکاۃ اورکثرت سےصدقات کےذریعے سےمال خرچ کرنا ہے تاکہ دل سےمال کی محبت ختم ہو جائے اللہ کافرمان ہے (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ) ’’ان کے مالوں سے صدقہ لیں اس کے ساتھ آپ انہیں پاک کریں گے اورانہیں صاف کریں گے ۔‘‘(التوبہ 103:9) اور ایک مثالی مومن کا تعارف کرواتے ہوئے کہا گیا(الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّى) ’’وہ جو اپنا مال (اس لیے )دیتا ہے کہ پاک ہوجائے ۔‘‘(اللیل 18:92) لیکن آج کل کے زیادہ تر اصحاب طریقت تزکیہ حاصل کرنے بجائے الٹا فتوحات کی صورت میں لوگوں کے مال کامیل کچیل اکٹھا کرنے میں لگے ہوئے نظرآتےہیں ۔
امام مسلم نے اپنی صحیح کےاس حصے میں صحیح احادیث کےذریعے سےطریقہ نبویہ کےخدوخال واضح کیےہیں۔ اس میں اذکار ہیں ان کےفضائل ہیں ، دعائیں ہیں اورا ن کے آداب ہیں۔
عمرو ناقد اور زُہیر بن حرب نے مجھے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں سفیان بن عیینہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: مجھے سُمی نے ابوصالح سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ انسان کے حق میں برا ثابت ہونے والے فیصلے، بدبختی کے آ لینے، اپنی تکلیف پر دشمنوں کے خوش ہونے اور عاجز کر دینے والی آزمائش سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ عمرو نے اپنی حدیث (کی سند) میں کہا: سفیان نے کہا: مجھے شک ہے کہ (شاید) میں نے ان باتوں میں سے کوئی ایک بات بڑھا دی ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بری تقدیر، بد بختی کے لاحق ہونے، دشمنوں کی شماتت (خوشی و مسرت) اور بلاؤں کی سختی سے پناہ مانگتے تھے۔ عمرو اپنی حدیث میں کہتے ہیں سفیان نے بتایا مجھے شک ہے، میں نےان میں ایک کا اضافہ کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث میں بظاہر چار چیزوں سے پناہ طلب کی گئی ہے، لیکن در حقیقت ان چار کے ضمن میں دنیا و آخرت کی ہر برائی و تکلیف اور پریشانی سے پناہ مانگی ہے، سب سے پہلے سوء القضاء ہے، اس میں نفس، مال، اولاد، اہل، دنیا اور آخرت کی ہر تکلیف اور پریشانی آگئی، اس طرح بدبختی کا لا حق ہونا، دَرَكِ الشِقاء میں ہر قسم اور ہر نوع کی بدبختی آگئی تو جس کو بری تقدیر اور بدبختی سے اللہ تعالیٰ کی پناہ اور حفاظت میسر آگئی، اسے سب کچھ مل گیا، وہ کسی چیز سے بھی محروم نہ رہا، دنیا اور آخرت کی ہر چیز اس میں داخل ہے اور دشمنوں کو فرحت و مسرت، انسان کی کسی ناکامی اور مصیبت میں مبتلا ہونے پر ہوتی ہے اور دشمنوں کی شماتت اور طعنہ زنی انسان کے لیے بڑی روحانی اور ذہنی تکلیف کا باعث بنتی ہے، اس لیے اس کو الگ بیان کیا، حالانکہ یہ پہلی دونو چیزوں کے اندر موجود ہے، اس طرح جهد البلاء کسی مصیبت کی مشقت اور سختی اور بلاہر اس حالت کا نام ہے، جو انسان کے لیے باعث تکلیف ہو اور پریشانی کا سبب بنے، جس میں اس کا امتحان و آزمائش ہو اور یہ دنیوی بھی ہو سکتی ہے اور دینی بھی،روحانی بھی ہو سکتی ہے اور جسمانی بھی، انفرادی و شخصی بھی ہو سکتی ہے اور اجتماعی بھی، اس طرح اس ایک ہی لفظ میں ہر قسم کے مصائب و تکالیف اور آفات و مشکلات آجاتی ہیں، اس روایت میں سفیان نے شماتة الاعداء کا اضافہ کیا ہے، لیکن یہ دوسری روایات میں موجود ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported that Allah's Apostle (ﷺ) used to seek refuge (in Allah) from the evil of destiny and from falling into the hand of calamity and from the mockery of (triumphant) enemies and from the hardship of misery. Abu Sufyan (RA) reported: I am in doubt that I have made an addition of one word in this supplication.