باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان: "نیکیاں گناہوں کو دور کر دیتی ہیں"
)
Muslim:
The Book of Repentance
(Chapter: The Words Of Allah The Most High: "Verily, The Good Deeds Remove The Evil Deeds")
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2764.
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی: اللہ کے رسول! میں نے حد (لگنے والے کام) کا ارتکاب کر لیا ہے، مجھ پر حد قائم کیجئے۔ (حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے) کہا: (تب) نماز کا وقت آ گیا، اس نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب نماز پڑھ لی تو کہنے لگا: اللہ کے رسول! میں نے حد (کے قابل گناہ) کا ارتکاب کیا ہے، میرے بارے میں اللہ کی کتاب کا (جو) فیصلہ (ہے اسے) نافذ فرمائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تو ہمارے ساتھ نماز میں شامل ہوا؟‘‘ اس نے عرض کی: ہاں، فرمایا: ’’تیرا گناہ بخش دیا گیا ہے۔‘‘
تشریح:
فائدہ:
شارحین حدیث کہتے ہیں کہ اس نے جو گناہ کیا تھا وہ اس کے خیال میں حد کے قابل تھا، اس لیے اس نے حد قائم کرنے کی بات کی لیکن حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس نے گناہ کا نام نہیں لیا۔ آپﷺ نے بھی اس بات کا یقین کرنے کےلیے کہ وہ گناہ واقعی قابل حد تھا یا نہیں، اس سے کوئی سوال نہیں کیا اور نماز سے گناہ کی بخشش کی نوید سنائی۔ جس طرح اس بات کا امکان ہے کہ حقیقتاً اس کا گناہ قابل حد نہ ہو، اسی طرح اتنا ہی اس بات کا امکان ہے کہ وہ گناہ قابل حد ہے۔ جس شخص نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے باقاعدہ وضاحت سے زنا کا ارتکاب کرنے کا اعتراف کیا، اس کے بارے میں بھی آپ ﷺ نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ اس کے گناہ کر پردہ پوشی ہو جاتی اور وہ استغقار کرتا رہتا تو بہتر تھا۔ (صحیح مسلم، حدیث: 4431،1695)
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی: اللہ کے رسول! میں نے حد (لگنے والے کام) کا ارتکاب کر لیا ہے، مجھ پر حد قائم کیجئے۔ (حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے) کہا: (تب) نماز کا وقت آ گیا، اس نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب نماز پڑھ لی تو کہنے لگا: اللہ کے رسول! میں نے حد (کے قابل گناہ) کا ارتکاب کیا ہے، میرے بارے میں اللہ کی کتاب کا (جو) فیصلہ (ہے اسے) نافذ فرمائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تو ہمارے ساتھ نماز میں شامل ہوا؟‘‘ اس نے عرض کی: ہاں، فرمایا: ’’تیرا گناہ بخش دیا گیا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
شارحین حدیث کہتے ہیں کہ اس نے جو گناہ کیا تھا وہ اس کے خیال میں حد کے قابل تھا، اس لیے اس نے حد قائم کرنے کی بات کی لیکن حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس نے گناہ کا نام نہیں لیا۔ آپﷺ نے بھی اس بات کا یقین کرنے کےلیے کہ وہ گناہ واقعی قابل حد تھا یا نہیں، اس سے کوئی سوال نہیں کیا اور نماز سے گناہ کی بخشش کی نوید سنائی۔ جس طرح اس بات کا امکان ہے کہ حقیقتاً اس کا گناہ قابل حد نہ ہو، اسی طرح اتنا ہی اس بات کا امکان ہے کہ وہ گناہ قابل حد ہے۔ جس شخص نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے باقاعدہ وضاحت سے زنا کا ارتکاب کرنے کا اعتراف کیا، اس کے بارے میں بھی آپ ﷺ نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ اس کے گناہ کر پردہ پوشی ہو جاتی اور وہ استغقار کرتا رہتا تو بہتر تھا۔ (صحیح مسلم، حدیث: 4431،1695)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے آپ مجھ پر حد قائم کریں اور نماز کا وقت ہو گیا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ، جب اس نے نماز ادا کر لی کہا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے گناہ کیا ہے، مجھ پر اللہ کا قانون (حکم ) جاری فرمائیں، آپﷺ نے پوچھا، ’’کیا تو ہمارے ساتھ نماز میں موجود تھا ؟‘‘ اس نے کہا جی ہاں آپﷺ نے فرمایا: ’’تجھے بخشا جا چکا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس پر علماء امت کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی انسان ایسے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے، جس پر حد مقرر ہے اور وہ گناہ شہادت یا اقرار سے ثابت ہوتا ہے تو اس پر حد لگانا ضروری ہے، لیکن اگر اللہ تعالیٰ اس گناہ کی پردہ پوشی فرماتا ہے اور گناہ گار بھی اس کا اعتراف نہیں کرتا تو وہ توبہ و استغفار سے معاف ہو جاتا ہے، بعض روایات میں زنا کرنے کا ذکر ہے تا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے زناکے محرکات و دواعی یا اس کی پیش خیمہ کو زنا سمجھ لیا یا اس کے أصبحت حدا، میں حد کو پہنچ گیا، کہنے سے راوی نے، زنا سمجھ لیا، کیونکہ اگر اس نے صراحتا زنا کا اقرارواعتراف کرلیا تھا تو پھر اس سے وضاحت طلب کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ اصل صورتحال کیا ہے، کیونکہ کبیرہ گناہ توبہ سے معاف ہو سکتا ہے، محض نماز پڑھنے سے معاف نہیں ہو سکتا، الایہ کہ نماز کی دعاؤں میں اللهم اغفرلی کو عام کر لیا جائے، اس کو توبہ پر مشتمل مان لیا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Anas reported that a person came to Allah's Apostle (ﷺ) said: Allah's Messenger, I have committed an offence which deserves imposition of 'hadd', so impose it upon me according to the Book of Allah. Thereupon he said: Were you not present with us at the time of prayer? He said: Yes. Thereupon he said: You have been granted pardon.