Muslim:
The Book of Repentance
(Chapter: Exoneration Of The Prophet's Concubine)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2771.
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص کو رسول اللہ ﷺ کی ام ولد (آپ کے فرزند کی والدہ) کے ساتھ مہتم کیا جاتا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا: جاؤ اور اس کی گردن اڑا دو، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اس کے پاس گئے تو وہ ایک اتھلے (کم گہرے) کنویں میں ٹھنڈک کے لیے غسل کر رہا تھا، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس سے کہا: نکلو، اور (سہارا دینے کے لیے) اسے اپنا ہاتھ پکڑایا اور اسے باہر نکالا تو دیکھا کہ وہ ہیجڑا ہے، اس کا عضو مخصوص تھا ہی نہیں۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ (اس کو قتل کرنے سے) رُک گئے اور نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! وہ تو ہیجڑا ہے، اس کا عضو مخصوص ہے ہی نہیں۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص کو رسول اللہ ﷺ کی ام ولد (آپ کے فرزند کی والدہ) کے ساتھ مہتم کیا جاتا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا: جاؤ اور اس کی گردن اڑا دو، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اس کے پاس گئے تو وہ ایک اتھلے (کم گہرے) کنویں میں ٹھنڈک کے لیے غسل کر رہا تھا، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس سے کہا: نکلو، اور (سہارا دینے کے لیے) اسے اپنا ہاتھ پکڑایا اور اسے باہر نکالا تو دیکھا کہ وہ ہیجڑا ہے، اس کا عضو مخصوص تھا ہی نہیں۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ (اس کو قتل کرنے سے) رُک گئے اور نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! وہ تو ہیجڑا ہے، اس کا عضو مخصوص ہے ہی نہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُم ولد (حضرت ماریہ قبطیہ) سے متہم کیا جاتا تھا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرمایا: ’’جاؤ اس کی گردن اڑادو۔‘‘ تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے پاس پہنچے اور وہ ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے ایک کنویں میں غسل کر رہا تھا سو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے کہا، باہر نکل، اس نے انہیں اپنا ہاتھ پکڑا دیا اور انھوں نے اسے نکال لیا، دیکھا تو اس عضو مخصوص کٹا ہوا تھا، اس کا عضو تناسل نہیں تھا اس لیے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے قتل کرنے سے رک گئے۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا، اے اللہ کے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کا عضو مخصوص کٹا ہوا ہے، اس کا عضو تناسل تو ہے ہی نہیں۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
حدیث سے ثابت ہوتا ہے، بعض دفعہ کسی انسان پر بلاوجہ، بدظنی سے کام لیتے ہوئے تہمت لگا دی جاتی ہے، جیسا کے یہ آدمی قبطی تھا بقول بعض حضرت ماریہ کا چچازاد تھا اور انھی کے ساتھ مصر سے آیا تھا اور حضرت ماریہ قبطیہ سے اپنے وطن کی باشندہ ہونے کی وجہ سے گفتگو کر لیتاتھا تو لوگوں نے اس پر یہ الزام لگا دیا اور لوگوں کے کہنے پر آپ اس کو قتل کر نے کا حکم دیا، جب حقیقت حال سامنے آئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ قتل کرنے سے رک گئے اور آپ کو آکرآگاہ کیا، جس سے معلوم ہوا، قاضی تو گواہوں کا پابند ہے، جھوٹ اور سچ کے ذمہ دار وہ ہیں، باقی رہا یہ مسئلہ کہ وہ منافق آدمی تھا، آپ نے کسی اور سبب سے قتل کا حکم دیا تھا تو اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے، پھر آپ نے حضرت علی کو سبب کیوں نہ بتایا، تاکہ وہ قتل کرنے سے باز نہ رہتے اور اگر وحی سے آپ کو اس کے عضو تناسل کے کٹے ہونے کا علم ہو گیا تھا تو آپ نے خود ہی لوگوں کو یہ کیوں نہ بتا دیا، اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ بغیر تفتیش وتحقیق کے قتل کردیتے تو پھر خواہ مخواہ آپ کی ام ولد متہم ٹھہرتی، چونکہ یہ روایت انتہائی مجمل ہے، معلوم نہیں حضرت علی کے بتانے کے بعدکہ اس کا عضو مخصوص نہیں ہے آپ نے کیا کہا اس لیے اس کے بغیر کوئی قطعی بات نہیں کہی جا سکتی، اصل مقصود صرف حرم نبوی کی ان بد حرکات سے برات کا اظہار ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Anas reported that a person was charged with fornication with the slave girl of Allah's Messenger (ﷺ) . Thereupon Allah's Messenger (ﷺ) said to 'Ali (RA) : Go and strike his neck. 'Ali came to him and he found him in a well making his body cool. 'Ali said to him: Come out, and as he took hold of his hand and brought him out, he found that his sexual organ had been cut. Hadrat 'Ali refrained from striking his neck. He came to Allah's Apostle (ﷺ) and said: Allah's Messenger, he has not even the sexual organ with him.