Muslim:
The Book of Purification
(Chapter: Prohibition of performing ghusl in standing water)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
283.
بکیر بن اشج سے روایت ہے کہ ہشام بن زہرہ کے آزاد کردہ غلام ابو سائب نے انہیں حدیث سنائی کہ انہو ں نےحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے کہ رسو ل اللہﷺنے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل جنابت نہ کرے۔‘‘ (ابو سائب نے) کہا: اے ابو ہریرہ! وہ کیا کرے ؟ انہوں نے جواب دیا: وہ (اس میں سے) پانی لے لے۔
اسلام میں طہارت اور پاکیزگی کی اہمیت وفضیلت
طہارت کا مطلب ہے صفائی اور پاکیز گی۔ یہ نجاست کی ضد ہے۔ رسول اللہﷺ کو بعثت کے بعد آغاز کار میں جو احکام ملے اور جن کا مقصود اگلے مشن کے لیے تیاری کرنا اور اس کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کرنا تھا، وہ ان آیات میں ہیں: يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ (1) قُمْ فَأَنْذِرْ (2) وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ (3) وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (4) وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ (5) وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ (6) وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ (7) ”اے موٹا کپڑا لپیٹنے والے! اٹھیے اور ڈرایئے، اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے، اپنے کپڑے پاک رکھیے، پلیدی (بتوں) سے دور رہے، (اس لیے ) احسان نہ کیجیے کہ زیادہ حاصل کریں اور اپنے رب کی رضا کے لیے صبر کیجیے‘‘ (المدثر 71
اسلام کے ان بنیادی احکام میں کپڑوں کو پاک رکھنے اور ہر طرح کی جسمانی، اخلاقی اور روحانی ناپاکی سے دور رہنے کا حکم ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اللہ سے تعلق، ہدایت اور روحانی ارتقا کا سفر طہارت اور پاکیزگی سے شروع ہوتا ہے جبکہ گندگی تعفن اورغلاظت شیطانی صفات ہیں اور ان سے گمراہی ، ضلالت اور روحانی تنزل کا سفر شروع ہوتا ہے۔
وُضُوْ، وَضَائَة سے ہے جس کے معنی نکھار اور حسن و نظافت کے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالی کے سامنے حاضری کی تیاری یہی ہے کہ انسان نجس نہ ہو، طہارت کی حالت میں ہو اور مسنون طریقہ وضو سے اپنی حالت کو درست کرے اور خود کو سنوارے۔ وضوسے جس طرح ظاہری اعضاء صاف اور خوبصورت ہوتے ہیں، اسی طرح روحانی طور پر بھی انسان صاف ستھرا ہو کر نکھر جاتا ہے۔ ہر عضو کو دھونے سے جس طرح ظاہری کثافت اور میل دور ہوتا ہے بالکل اسی طرح وہ تمام گناہ بھی دھل جاتے ہیں جوان اعضاء کے ذریعے سے سرزد ہوئے ہوں ۔
مومن زندگی بھر اپنے رب کے سامنے حاضری کے لیے وضو کے ذریعے سے جس وَضَائَةَ کا اہتمام کرتا ہے قیامت کے روز وہ مکمل صورت میں سامنے آئے گی اور مومن غَرُّ مُعُجَّلُونَ (چمکتے ہوئے روشن چہروں اور چمکتے ہوئے ہاتھ پاؤں والے) ہوں گے۔
نظافت اور جمال کی یہ صفت تمام امتوں میں مسلمانوں کو ممتاز کرے گی۔ ایک بات یہ بھی قابل توجہ ہے کہ ماہرین صحت جسمانی صفائی کے حوالے سے وضو کے طریقے پرتعجب آمیر تحسین کا اظہار کرتے ہیں ۔ اسلام کی طرح اس کی عبادات بھی بیک وقت دنیا و آخرت اور جسم و روح کی بہتری کی ضامن ہیں۔ الله تعالی کے سامنے حاضری اور مناجات کی تیاری کی یہ صورت ظاہری اور معنوی طور پر انتہائی خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ہر ایک کے لیے آسان بھی ہے۔ جب وضو ممکن نہ ہو تو اس کا قائم مقام تیمم ہے، یعنی ایسی کوئی بھی صورت حال پیش نہیں آتی جس میں انسان اس حاضری کے لیے تیاری نہ کر سکے۔
بکیر بن اشج سے روایت ہے کہ ہشام بن زہرہ کے آزاد کردہ غلام ابو سائب نے انہیں حدیث سنائی کہ انہو ں نےحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے کہ رسو ل اللہﷺنے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل جنابت نہ کرے۔‘‘ (ابو سائب نے) کہا: اے ابو ہریرہ! وہ کیا کرے ؟ انہوں نے جواب دیا: وہ (اس میں سے) پانی لے لے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم سے کوئی ایک ساکن ٹھہرے ہوئے پانی میں نہائے جبکہ وہ جنبی ہو‘‘ ابو سائب نے پوچھا: اے ابو ہریرہ! وہ کیسے نہائے؟ تو انہوں نے جواب دیا، پانی لے کر باہر بیٹھ کر نہائے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث کا تعلق بھی آداب واخلاق سے ہے کہ یہ بات تہذیب وشائستگی جس کی اسلام تعلیم دیتا ہے کہ منافی ہے کہ انسان ٹھہرے ہوئے پانی کے اندر بیٹھ کر غسل جنابت کرے، انسان کو اس غرض کے لیے کسی برتن میں الگ پانی لے کر نہانا چاہیے۔ یا اگر برتن نہ ہوتو اس طرح استعمال کرنا چاہیے کہ وہ دوبارہ اسی پانی میں شامل نہ ہو جائے، ظاہر ہے تھوڑے پانی کے اندر بیٹھ کر کوئی نہیں نہائے گا۔ پانی زیادہ ہو گا تو وہ ایسے نہائے گا، اس لیے حدیث میں قلیل وکثیر کی قید نہیں لگائی گئی اور پانی کی قلیل وکثیر تعداد کے بارے میں شوافع اور احناف میں بہت اختلاف ہے۔ شوافع نے ایک صحیح حدیث کی بنیاد پر دو بڑے مٹکوں سے کم پانی کو قلیل قرار دیا ہے اور زیادہ کو کثیر، احناف کے پاس چونکہ اس مسئلہ کے بارے میں صحیح اور صریح روایت نہیں ہے اس لیے ان کا ایک مقدار پر اتفاق نہیں ہے حنابلہ کا مؤقف امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ والا ہے، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قلیل وکثیر مقدار کا اعتبار نہیں ہے، اوصاف ثلاثہ (رنگ ،بو اور ذائقہ) میں سے کسی ایک کے بدلنے کی صورت میں (نجاست کے گرنے کی صورت میں) پانی نجس ہو گا، وگرنہ پلید نہیں محدثین، شوافع یا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے مؤقف کو ترجیح دیتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported the Messenger of Allah (ﷺ) saying: None of you must wash in standing water when he is in a state of Junub. And Abu Hurairah (RA) was asked how it was to be done; he said: It was to be taken out in handfuls.