Muslim:
The Book of Paradise, its Description, its Bounties and its Inhabitants
(Chapter: About Hell - May Allah Protect Us From It)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2844.
خلف بن خلیفہ نے کہا: ہمیں یزید بن کیسان نے ابو حازم سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے کہ آپﷺ نے کسی بہت وزنی چیز کے کرنے کی آواز سنی۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو یہ کیسی آواز تھی؟‘‘ کہا: ہم نے عرض کی: اللہ اور اس کا رسول ﷺ زیادہ جاننے والے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ ایک پتھر تھا جس کو ستر سال پہلے جہنم میں پھینکا کیا تھا، یہ اب اس میں گرا ہے، یہاں تک کہ اس کی گہرائی تک پہنچ گیا ہے۔‘‘
جنت اللہ کی رضا کا بلند ترین مقام ہے ۔ اللہ اپنے بندوں کی اپنی رضا، اپنے قرب اور اپنے جمال کی لذتوں اور دوسری نعمتوں سے سرفراز کرنے کے لیے جن سے صحیح طور پر لذت یاب ہونا انسان کی موجود خلت کی صلاحیتوں کے بس سے باہر ہے ، انسان کو ازسر نوخلقت عطا فرمائے گا۔اللہ کی جو نعمتیں اس کے بندوں کے لیے تیار کی گئی ہیں ،موجودہ زندگی میں نہ ان کا ادراک کیا جا سکتا ہے نہ تصور سماعت کے ذریعے سے بھی ان کا احاطہ ممکن نہیں اس بات کا اندازہ اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ موجودہ زندگی میں نعمتیں میسر ہیں وہ اتنی گھٹیا ، بے وقعت اور عارضی ہیں کہ ان کو جہنم کے راستوں میں بکھیر دیا گیا ہے وہ اس سے زیادہ وقعت نہیں رکھتیں جو نعمتیں اللہ کی رضا کی بلند ترین منزل میں میسر ہوں گی ان کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ)’’کسی انسان کو معلوم نہیں کہ ان کے لیے کیا کیا کچھ چھپا کر رکھا گیا ہے ۔‘‘ اگر رقبے اور نعمتوں کے حجم ہی کی بات کی جائے تو جنت کی وسعت اور اس کی ہر چیز اتنی بڑی ہے کہ موجودہ زندگی میں انسان اس کے سائز اور حجم کا ادراک نہیں کر سکتا ایک درخت ہی اتنا بڑا ہو گا کہ اس کے نیچے ایک سوار سو سال بھی چلتا رہے تو اس کے سائے کو عبور نہیں کر سکے گا۔
اس دنیا میں خوشحالی کی انتہا بد حالی پر ہوتی ہے اور بد حالی کی خوش حال پر کوئی نعمت ملے تو تھوڑی سی مہلت کے لیے ملتی ہے جنت میں اللہ کی رضا جس سے تمام قسم کی نعمتیں وابستہ مہلتوں اور وقفوں کے دائروں سے باہر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہوگی ،اس کی نعمتیں بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہوں گی ۔اہل ایمان کے مراتب اتنے بلند ہوگے کہ ان کے قریب کی بات تو رہی ایک طرف ،ان کو اچھی طرح دیکھنا بھی ممکن نہ ہوگا ایسے نظر آئیں گے جیسے بلندی پر ستارے نظر آتے ہیں محبوب رب العالمین کے نظارہ جمال کی خاطر اپنے مال اور اپنے اہل و عیال کی قربانی کی قیمت بھی سستی ہوگی ۔تمام اہل جنت کے حسن و جمال میں ہر دم اضافے کی ہی کیفیت ہوگی کہ جنت کے بازار سے واپس آئیں گے تو گھر والوں کو نظر آئے گا کہ ان کے حسن و جمال میں اضافہ ہو چکا ہے اور آنے والوں کو اپنے گھر والے حسین تر نظر آئیں گے۔ سب سے اونچے درجے کے لوگ چاند کی طرح اور ان کے بعد تاروں کی طرح دمکتے ہوں گے تمام اہل جنت کا جمال ہر گھڑی بڑھنے والا ہو گا اس کیفیت کا دنیا میں تصور تک نہیں کیا جا سکتا ان کے جمال کو گہنانے والی کوئی بات ان کے وجود میں نہیں ہوگی طرح طرح کے ماکولات اور مشروبات کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے لیکن وہ نعمتیں اتنی لطیف ہوں گی کہ ان کا کوئی حصہ فضلہ نہ بنے گا پیشاب پاخانے کی حاجت نہ ہو گی ایک ڈکار سے سب کچھ جزو بدن بن جائے گا ۔ان کا پسینہ تک کستور ی کی طرح خوشبو دار ہوگا یہ ہر اعتبار سے مکمل جمال ہے جس میں کہیں کوئی خامی موجود نہیں ۔
معاشرتی زندگی صرف لطف ، محبت اور موانست سے عبارت ہوگی ،کوئی منفی جذبہ کسی کے دل میں بھی پیدا نہیں ہو گا اللہ کی حمدوثنا سانسوں کی طرح جسم میں بسی ہوگی ۔ یہ ابدی نعمتیں ہوں گی جن کے زوال کا کوئی خدشہ نہیں ہوگا دنیا میں نیک مومنوں نے مشکلوں بھری زندگی کزاری ہوگی سرکشوں اور ظالموں کے ظلم سہے ہوں گے معمولی درجے کے لوگ ہوں گے اب ان تمام تکلیفوں کا ازالہ ہو جائے گا ان کے جسم حضرت آدم کے جسم کی طرح اونچے لمبے چوڑے ہوں گے اور اچھی طرح ہر قسم کی نعمتوں کا لطف اٹھائیں گے ۔دوسری طرف جہنم انسانی تصور اور اک سے بڑی عذابوں سے بھری ہوئی ہے اس کی گہرائی میں وہ سر کش لوگ داخل ہوں گے جو دنیا میں تکبر ،نخوت ،جبر اور ظلم کے مجسمے تھے جہنم کی وسعتیں اتنی ہوں گی کہ سارے برے لوگ اس میں ڈال دیے جائیں گے تب بھی ان کی بھوک نہیں مٹے گی اہل جہنم کا عذاب جہنم میں داخل ہونے سے پہلے بھی شروع ہو چکا ہوگا لوگ اپنے مال کے مطابق میدان حشر میں اپنے پسینے میں ڈوبے کھڑے ہوں گے جن پر رحمت ہو جائے گی ان کی بخشش ہو جائے گی اللہ کی رحمت اس کے غضب سے کہیں زیادہ وسیع ہے ،اس لیے جہنم میں داخلے کے بعد بھی بہت لوگوں کو اس کی رحمت کا سہارا ملے گا اور جہنم سے نکال کر ان کی حالت درست کر کے ان کو جنت کی طرف بھیجا جائے گا پھر اہل جنت اہل جنت اور اہل جہنم دونوں کے سامنے موت کو ختم کر دیا جائے گا اور جو شحص یہاں ہوگا ہمیشہ کے لے اسی کا مستحق ہو جائے گا جہنم کا عذاب بھی مسلسل برقرار رہے گا۔بڑے بڑے مشرک جس طرح شرک کی نئی رسمیں نکالنے والا عمر و بن لحی بن قمعہ بن خندف تھا دائمی عذاب میں مبتلا ہوں گے دنیا میں اپنے حسن کو فتنہ بنانے والی عورتیں جہنم بھر دیں گی ۔ایسی جہنم جس کا تعفن دور دور کے فاصلوں تک پھیلا ہوگا حساب سے پہلے حشر کے ہولناکیاں اور یوم قیامت کے مصائب اور اور ان سے بھی پہلے قبروں کے اندر نیک لوگوں کا آرام دہ قیام اور کافروں کا خوفناک انتظار اور مختلف شکلوں میں ان پر مسلط عذاب ایسا ہوگا کہ اگر لوگ دنیا کی زندگی میں اس سے آگا ہ ہو جائیں تو اپنے مردوں کو دفن کرنا چھوڑ دیں۔
کتاب کے آخر میں امام مسلم نے وہ احادیث بیان کی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ نجات جس کی بھی ہوگی صرف اور صرف اللہ کی رحمت سے ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رحمت سے نواز دے اور اپنے غضب سے اپنی پناہ میں رکھے یہ دعا ہے جس کی رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو تلقین فرمائی۔
خلف بن خلیفہ نے کہا: ہمیں یزید بن کیسان نے ابو حازم سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے کہ آپﷺ نے کسی بہت وزنی چیز کے کرنے کی آواز سنی۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو یہ کیسی آواز تھی؟‘‘ کہا: ہم نے عرض کی: اللہ اور اس کا رسول ﷺ زیادہ جاننے والے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ ایک پتھر تھا جس کو ستر سال پہلے جہنم میں پھینکا کیا تھا، یہ اب اس میں گرا ہے، یہاں تک کہ اس کی گہرائی تک پہنچ گیا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ آپ نے کسی چیز کے کرنے کی آواز سنی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جانتے ہو، یہ کیا ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا، اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ ایک پتھر ہے، جو ستر (70) سال پہلے آگ میں پھنکا گیا تھا، چنانچہ وہ اب تک گر رہا تھا حتی کہ اب اس کی گہرائی تک پہنچ گیا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
جہنم میں پتھر کے گرنے کی آواز خرق عادت کے طور پر سنا دی گئی تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported: We were in the company of Allah's Messenger (ﷺ) that we heard a terrible sound. Thereupon Allah's Apostle (ﷺ) said: Do you know what (sound) is this? We said: Allah and His Messenger know best. Thereupon he said: That is a stone which was thrown seventy years before in Hell and it has'been constantly slipping down and now it has reached its base.