Muslim:
The Book of Paradise, its Description, its Bounties and its Inhabitants
(Chapter: The Passing Away Of This World, And The Gathering On The Day Of Resurrection)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2859.
یحییٰ بن سعید نے ہمیں حاتم بن ابی صغیرہ سے حدیث بیان کی کہا: مجھے ابن ابی ملیکہ نے قاسم بن محمد سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا قیامت کے روز لوگ ننگے پاؤں، بے لباس، بے ختنہ اٹھائے جائیں گے۔‘‘ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! عورتیں اور مرد اکٹھے، وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھیں گے۔ فرمایا: عائشہ! (اس دن کی ہولناکیوں کا) معاملہ اس سے زیادہ سخت ہوگا کہ کوئی ایک دوسرے کی طرف دیکھے۔‘‘
جنت اللہ کی رضا کا بلند ترین مقام ہے ۔ اللہ اپنے بندوں کی اپنی رضا، اپنے قرب اور اپنے جمال کی لذتوں اور دوسری نعمتوں سے سرفراز کرنے کے لیے جن سے صحیح طور پر لذت یاب ہونا انسان کی موجود خلت کی صلاحیتوں کے بس سے باہر ہے ، انسان کو ازسر نوخلقت عطا فرمائے گا۔اللہ کی جو نعمتیں اس کے بندوں کے لیے تیار کی گئی ہیں ،موجودہ زندگی میں نہ ان کا ادراک کیا جا سکتا ہے نہ تصور سماعت کے ذریعے سے بھی ان کا احاطہ ممکن نہیں اس بات کا اندازہ اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ موجودہ زندگی میں نعمتیں میسر ہیں وہ اتنی گھٹیا ، بے وقعت اور عارضی ہیں کہ ان کو جہنم کے راستوں میں بکھیر دیا گیا ہے وہ اس سے زیادہ وقعت نہیں رکھتیں جو نعمتیں اللہ کی رضا کی بلند ترین منزل میں میسر ہوں گی ان کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ)’’کسی انسان کو معلوم نہیں کہ ان کے لیے کیا کیا کچھ چھپا کر رکھا گیا ہے ۔‘‘ اگر رقبے اور نعمتوں کے حجم ہی کی بات کی جائے تو جنت کی وسعت اور اس کی ہر چیز اتنی بڑی ہے کہ موجودہ زندگی میں انسان اس کے سائز اور حجم کا ادراک نہیں کر سکتا ایک درخت ہی اتنا بڑا ہو گا کہ اس کے نیچے ایک سوار سو سال بھی چلتا رہے تو اس کے سائے کو عبور نہیں کر سکے گا۔
اس دنیا میں خوشحالی کی انتہا بد حالی پر ہوتی ہے اور بد حالی کی خوش حال پر کوئی نعمت ملے تو تھوڑی سی مہلت کے لیے ملتی ہے جنت میں اللہ کی رضا جس سے تمام قسم کی نعمتیں وابستہ مہلتوں اور وقفوں کے دائروں سے باہر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہوگی ،اس کی نعمتیں بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہوں گی ۔اہل ایمان کے مراتب اتنے بلند ہوگے کہ ان کے قریب کی بات تو رہی ایک طرف ،ان کو اچھی طرح دیکھنا بھی ممکن نہ ہوگا ایسے نظر آئیں گے جیسے بلندی پر ستارے نظر آتے ہیں محبوب رب العالمین کے نظارہ جمال کی خاطر اپنے مال اور اپنے اہل و عیال کی قربانی کی قیمت بھی سستی ہوگی ۔تمام اہل جنت کے حسن و جمال میں ہر دم اضافے کی ہی کیفیت ہوگی کہ جنت کے بازار سے واپس آئیں گے تو گھر والوں کو نظر آئے گا کہ ان کے حسن و جمال میں اضافہ ہو چکا ہے اور آنے والوں کو اپنے گھر والے حسین تر نظر آئیں گے۔ سب سے اونچے درجے کے لوگ چاند کی طرح اور ان کے بعد تاروں کی طرح دمکتے ہوں گے تمام اہل جنت کا جمال ہر گھڑی بڑھنے والا ہو گا اس کیفیت کا دنیا میں تصور تک نہیں کیا جا سکتا ان کے جمال کو گہنانے والی کوئی بات ان کے وجود میں نہیں ہوگی طرح طرح کے ماکولات اور مشروبات کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے لیکن وہ نعمتیں اتنی لطیف ہوں گی کہ ان کا کوئی حصہ فضلہ نہ بنے گا پیشاب پاخانے کی حاجت نہ ہو گی ایک ڈکار سے سب کچھ جزو بدن بن جائے گا ۔ان کا پسینہ تک کستور ی کی طرح خوشبو دار ہوگا یہ ہر اعتبار سے مکمل جمال ہے جس میں کہیں کوئی خامی موجود نہیں ۔
معاشرتی زندگی صرف لطف ، محبت اور موانست سے عبارت ہوگی ،کوئی منفی جذبہ کسی کے دل میں بھی پیدا نہیں ہو گا اللہ کی حمدوثنا سانسوں کی طرح جسم میں بسی ہوگی ۔ یہ ابدی نعمتیں ہوں گی جن کے زوال کا کوئی خدشہ نہیں ہوگا دنیا میں نیک مومنوں نے مشکلوں بھری زندگی کزاری ہوگی سرکشوں اور ظالموں کے ظلم سہے ہوں گے معمولی درجے کے لوگ ہوں گے اب ان تمام تکلیفوں کا ازالہ ہو جائے گا ان کے جسم حضرت آدم کے جسم کی طرح اونچے لمبے چوڑے ہوں گے اور اچھی طرح ہر قسم کی نعمتوں کا لطف اٹھائیں گے ۔دوسری طرف جہنم انسانی تصور اور اک سے بڑی عذابوں سے بھری ہوئی ہے اس کی گہرائی میں وہ سر کش لوگ داخل ہوں گے جو دنیا میں تکبر ،نخوت ،جبر اور ظلم کے مجسمے تھے جہنم کی وسعتیں اتنی ہوں گی کہ سارے برے لوگ اس میں ڈال دیے جائیں گے تب بھی ان کی بھوک نہیں مٹے گی اہل جہنم کا عذاب جہنم میں داخل ہونے سے پہلے بھی شروع ہو چکا ہوگا لوگ اپنے مال کے مطابق میدان حشر میں اپنے پسینے میں ڈوبے کھڑے ہوں گے جن پر رحمت ہو جائے گی ان کی بخشش ہو جائے گی اللہ کی رحمت اس کے غضب سے کہیں زیادہ وسیع ہے ،اس لیے جہنم میں داخلے کے بعد بھی بہت لوگوں کو اس کی رحمت کا سہارا ملے گا اور جہنم سے نکال کر ان کی حالت درست کر کے ان کو جنت کی طرف بھیجا جائے گا پھر اہل جنت اہل جنت اور اہل جہنم دونوں کے سامنے موت کو ختم کر دیا جائے گا اور جو شحص یہاں ہوگا ہمیشہ کے لے اسی کا مستحق ہو جائے گا جہنم کا عذاب بھی مسلسل برقرار رہے گا۔بڑے بڑے مشرک جس طرح شرک کی نئی رسمیں نکالنے والا عمر و بن لحی بن قمعہ بن خندف تھا دائمی عذاب میں مبتلا ہوں گے دنیا میں اپنے حسن کو فتنہ بنانے والی عورتیں جہنم بھر دیں گی ۔ایسی جہنم جس کا تعفن دور دور کے فاصلوں تک پھیلا ہوگا حساب سے پہلے حشر کے ہولناکیاں اور یوم قیامت کے مصائب اور اور ان سے بھی پہلے قبروں کے اندر نیک لوگوں کا آرام دہ قیام اور کافروں کا خوفناک انتظار اور مختلف شکلوں میں ان پر مسلط عذاب ایسا ہوگا کہ اگر لوگ دنیا کی زندگی میں اس سے آگا ہ ہو جائیں تو اپنے مردوں کو دفن کرنا چھوڑ دیں۔
کتاب کے آخر میں امام مسلم نے وہ احادیث بیان کی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ نجات جس کی بھی ہوگی صرف اور صرف اللہ کی رحمت سے ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رحمت سے نواز دے اور اپنے غضب سے اپنی پناہ میں رکھے یہ دعا ہے جس کی رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو تلقین فرمائی۔
یحییٰ بن سعید نے ہمیں حاتم بن ابی صغیرہ سے حدیث بیان کی کہا: مجھے ابن ابی ملیکہ نے قاسم بن محمد سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا قیامت کے روز لوگ ننگے پاؤں، بے لباس، بے ختنہ اٹھائے جائیں گے۔‘‘ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! عورتیں اور مرد اکٹھے، وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھیں گے۔ فرمایا: عائشہ! (اس دن کی ہولناکیوں کا) معاملہ اس سے زیادہ سخت ہوگا کہ کوئی ایک دوسرے کی طرف دیکھے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ ’’قیامت کے دن لوگوں کو ننگے پاؤں، ننگے بدن، اور بغیر ختنہ کے جمع کیا جائے گا۔‘‘ میں نے پوچھا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! عورتوں اور مردوں کو، جبکہ وہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا معاملہ اس سے سنگین ہو گا کہ وہ ایک دوسرے کو دیکھیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) حُفَاةً: حاف کی جمع ہے، ننگے پیر۔ (2) عُرَاةً:عار کی جمع ہے، برہنہ بدن، بے لباس۔ (3) غرل: اغرل کی جمع ہے، غیر مختون۔
فوائد ومسائل
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے، لوگوں کا حشر، اس انداز سے ہو گا، جس انداز سے وہ دنیا میں آئے تھے، اعمال کے سوا، ان کے پاس دنیا کی کوئی چیز نہیں ہوگی، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے، ’’جس طرح ہم نے تمہاری تخلیق کی ابتدا کی تھی، اس طرح اس کا اعادہ کریں گے،‘‘ (انبیا:104) اور حالات کی دہشت اور خطر ناکی کی بنا پر کوئی کسی کی طرف دیکھے گا نہیں، اس کے بعد لباس پہنایا جائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'A'isha reported that she beard Allah's Messenger (ﷺ) as saying: The people would be assembled on the Day of Resurrection barefooted, naked and uncircumcised. I said: Allah's Messenger, will the male and the female be together on the Day and would they be looking at one another? Upon this Allah's Messenger (ﷺ) said: 'A'isha, the matter would be too serious for them to look to one another.