Muslim:
The Book of Tribulations and Portents of the Last Hour
(Chapter: Ibn Sayyad)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2924.
جریر نےاعمش سے ،انھوں نے ابو وائل سے اور انھوں نے حضرت عبداللہ (ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے روایت کی، کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے کہ ہم چند لڑکوں کے پاس سے گزرے ، ان میں ابن صیاد بھی تھا، سب بچے بھاگ گئے اور ابن صیاد بیٹھ گیا، تو ایسا لگا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس بات کو ناپسند کیا ہے، نبی کریم ﷺ نے اس سے فرمایا: ’’تیرے ہاتھ خاک آلودہوں! کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ بلکہ کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کو قتل کردوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر یہ وہی ہے جو تمہارا گمان ہے تو تم اس کو قتل نہیں کرسکوگے۔‘‘
تشریح:
فائدہ: ابن صیاد یا ابن صائد ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوا اس کا نام صاف یا ’’صافی‘‘ تھا بچپن سے اس کے اطوار و انداز عجیب تھے تھے اس میں دجال کی عام نشانیوں میں سے کچھ نشانیاں بھی نظر آتی تھیں، (دیکھیے، جامع الترمذي ، حدیث: 2248) اس باب کی احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ غیر مرئی (شیطانی) قوتوں سے اس کا رابطہ تھا جیسے کاہنوں وغیرہ کا ہوتا ہے۔ اس کی باتوں سے شک ہوتا تھا کہ وہ دجال ہو سکتا ہے، صحابہ کو یہ شک ہو ابھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بات چیت کرکے اور اس کی بے خبری میں اس کے پاس آنے والی آوازوں یا اس کی بڑبڑاہٹ سن کر اس کی حقیقت جاننے کی کوشش فرمائی، لیکن اس کا معاملہ مشکوک ہی رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ رابطہ رکھنے والی نادیدہ قوتوں کو آزمانے کے لیے اس سے سوال بھی کیا، تو پتہ چلا کہ وہ غیر معمولی قوتوں کا حامل نہیں، اس لیے آپ نے اسے نظر انداز فرما دیا۔ اس نے اسلام قبول کرنے کا دعویٰ بھی کیا اور حج وغیرہ بھی کیا، لیکن اس کی مشتبہ باتوں کی بنا پر آخر تک صحابہ کے سامنے اس کا معاملہ مشکوک ہی رہا۔ اس سے علانیہ طور پر اور صریح انداز میں کوئی ایسا کام سرزد نہ ہوا جس کی بنا پر اس کے خلاف کوئی رسمی کارروائی ہوتی۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ وہ بڑا دجال تو نہیں تھا لیکن ان تیس (30) دجالوں میں سے ایک ہو سکتا ہے جن کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے براہِ راست اللہ تعالی سے اس کی حقیقت جاننے کی بجائے خود اس کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش فرمائی۔ مقصود یہ تھا کہ آپ کے بعد آپ کی امت آپ کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے خود اس طرح کے لوگوں کی حقیقت پہچاننے کی کوشش کرے اور ہمیشہ گمراہی سے محفوظ رہے۔
انبیائے کرام نے انسانوں کے نام اللہ کاپیغام پہنچاتے ہوئے آغاز اس بات سے کیا کہ عارضی دنیوی زندگی کے اختتام پر ہر انسان کو ایک مشکل مرحلہ درپیش ہے۔ موجودہ زندگی میں باز پرس ہوگی۔ جوناکام ہوجائے گا وہ دردناک عذاب کا شکار ہوجائےگا۔ سب سےپہلے رسول حضرت نوح نے اپنے پیغام کا آغاز اس طرح کیا(يَا قَوْمِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ) ’’اےمیری قوم!بلاشبہ میں تمہیں کھلم کھلا ڈرانے والاہوں۔‘‘(نوح 71۔2)اورسب سے آخری رسول ﷺ نے سب سےپہلے خطاب عام میں پیغام کاآغاز ان الفاظ سے کیا (اني نذيرلكم بين يدي عذاب شديد)’’بلاشبہ میں سخت عذاب کےآنے سےپہلےتمہیں ڈرانے والا ہوں ۔‘‘(صحیح بخاری ،حدیث:4770)
انسان دنیا کےمعاملات میں جس طرح مستغرق ہوتاہے اسے اپنے مقصد زندگی پر غور کرنے اور آخرت کی کامیابی کا راستہ اختیار کرنے پر آمادہ کرنے کا اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ بھی نہیں کہ اسے زندگی کے حتمی انجام، یعنی موت اور اس کے مابعد کی طرف متوجہ کرکے جنھجوڑا جائے اور ابدی ناکامی کے عواقب سے ڈرایا جائے ۔ رسول اللہﷺ سب سے آخری نبی ہیں۔ آپ سے پہلے کے انبیاء اپنے اپنے بعد آنے والے انبیاء ورسل خصوصا نبی آخرالزمان کی آمد کی خبر دیتے اور حصول نجات کےلیے ان کی اطاعت کی تلقین کرتے تھے۔ آپﷺ کے بعد کسی اور رسول کے نہیں آنا، اب قیامت آنی ہے ۔ یہ انسانیت کے لیے بیدار ہونے کا آخری موقع ہے ۔ آپﷺ نے بطور پوری شدت سے انسانیت کو جنھجوڑا اور جگایا۔ بعثت کے بعد قرآن مجید کی جو سورتیں ابتدائی سالوں میں نازل ہوئیں ان میں قیامت کی اس طرح منظر کشی کی گئی ہے کہ ایک سلیم الفطرت انسان لرز جاتا ہے اور اللہ کے خوف اورقیامت کی ہولناکیوں پر مضطرب ہوجاتا ہے ۔ کسی اور آسمانی کتاب میں اس اندر سے اتنی تاکید اور تکرار سے قیامت کی منظر کشی نہیں ملتی ۔
قیامت کے حوالے سے رسول اللہﷺ نے زیادہ زوراس پہلو پر دیا کہ وہ انتہائی قریب ہے ، وہ اس طرح آپ کی بعثت کے قریب ہے ،جس طرح انگشت شہادت اور اس کے ساتھ انگلی باہم قریب قریب ہیں۔
جس طرح بارش کی آمد کا سلسلہ آندھی،پھر ٹھنڈی ہواؤں ،پھر بادلوں کی آمد، پھر گرج اورچمک سےشروع ہوتاہے اور پھر اچانک بارش برسنے لگتی ہے ، اسی طرح قیامت آنے کی ابتدائی نشانیاں رسول اللہﷺ کے عہد مبارک ہی میں شروع ہوگئیں ،آپ کو خواب میں دکھایا گیا کہ وہ وحشی اقوام جو اپنے اپنے علاقوں تک محدود رکھی گئی ہیں، قیامت سے پہلے بڑے پیمانے پر انسانوں اوروسائل زندگی کی تباہی کاباعث بنیں گی، ان کے راستے کی رکاوٹیں دور ہونے کا عمل شروع ہوگیا ہے ۔ ابھی عربوں کے عروج کا آغاز ہوا ہی تھا کہ آپ کو یہ بھی مشاہدہ کرایاگا کہ جب عربوں کو شوکت ورفعت نصیب ہوگی ساتھ ہی اس شرکا بھی آغاز ہوجانے گا جوان کی تباہی اور زوال کاسبب بنے گا۔ ان کے عروج کا یہ زمانہ لمبا نہیں، ان کو حاصل ہونے والی شوکت وحشمت جلد ہی دوسروں کے ہاتھوں میں چلی جائے گی۔
آپﷺ ساتھیوں سمیت مدینہ کی اونچی عمارتوں میں سے ایک عمارت پر تشریف فرما تھے تو عالم مثال میں آپ کو دکھایا گیا کہ خود آپ کے شہر مدینہ پر نازل ہونے والے فتنوں کے مقدمات کی برسات شروع ہوگئی ہے جو عام انسانوں کی آنکھوں سے اوجھل ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ فتوحات کے نتیجے میں حاصل ہونے والے اموال،مناصب اور پھر کچھ عرصہ بعد دور درازعلاقوں کے عرب جنہوں نے مدینہ کارخ کیا اور پھر عجمی لوگ جو اپنی اپنی سوچ لے کر غلاموں وغیرہ کی صور ت میں مدینہ پہنچے، انہوں نے ایسے افکار کو ہوادی جن کی بنا پر اولین مسلمانوں کے درمیان نہ صرف اختلافات پیدا ہوئے بکلہ خون ریزی کابھی آغاز ہوگیا۔ قیامت کے مقدمات کے طور پر بالکل ابتدائی فتنے جو مسلمان معاشرے حتی کہ مدینہ میں درآئے وہ مسلمانوں کے باہمی اختلاف ہی کی صورت میں تھے۔ حضرت عمر کے زمانے تک ان پرسختی سے کنٹرول رہا۔ اس کے باوجود نہ صرف کثرت سے مدینہ میں داخل ہونے لگے بلکہ ان کی قوت اور تعداد میں بہت اضافہ ہوگیا۔ حضرت عمر ان کے آگے بند دروازہ تھے لیکن ان فتنوں کی قوت نے یہ دروازہ توڑدیا۔ حضرت عمر کو شہید کردیاگیا اور فتنوں کا راستہ کھل گیا۔
مسلمانوں کے باہمی اختلافات اور خون ریزی کے بارےمیں رسول اللہﷺ نے نہ صرف صحابہ کو خبردار دیا بلکہ اس دوران میں نجات کے راستے کی نشاندہی بھی کی جس پر چل کر مسلمان تباہی سے بچ سکتے تھے۔
آپﷺ نےجہاں جزیرہ عرب کے اردگرد کی طاقتور ترین اور امیر ترین سلطنتوں کے خلاف مسلمانوں کی کامیابی کی پیشین گوئی فرمائی، جس پر سننےوالوں کی عقلیں دنگ رہ گئیں،وہاں آپ نے اس بات سےبھر خبردار فرمایا کہ دنیا بھر کے خزانے میں آجانے کے بعد مسلمانوں کی آزمائش کا سخت ترین دور شروع ہوجائےگا۔ مخاصمت اور خانہ جنگی کا خطرناک دور شروع ہوجائےگا،فتنے ایسے ہوں گے جو اکثریت کو اپنی لپیٹ میں لےلیں گے۔ وہی بچے گا جو ان سے دور رہنےمیں کامیاب ہوجائےگا۔عام معاشرے سےکنارہ کشی اختیار کر لےگا، دنیاوی معاملات میں اپنی تک ودو کو محدود کر لے گا ۔ بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے کھڑے ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا، آپس کے اختلافات ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے پر منتج ہوں گے۔ آپ نے اپنے عہد مبارک کے فورا بعد سےلے کر قیامت تک نمودار ہونے والی قیامت کی علامات کی خبردی ۔ آپ نے صحابہ کے اجتماعات میں خطبات ارشاد فرمائے اور ایسے موثر انداز میں آنے والے واقعات کی تفصیلات بیان فرمائیں کہ صحابہ زارہ قطار روتے رہے۔یہ علامات کچھ لوگوں نے زیادہ یاد رکھیں اور کچھ نے کم، کچھ صحابہ نے زیادہ تفصیلات سمیت ان کو بیان کیا ، کچھ فتنے چھوٹے تھے کچھ بڑے،سننے والوں اورآگے ان سے سننے والوں نے اپنی اپنی یادداشت کے مطابق بیان کیا۔ ضرورت پڑنے پر متعلقہ حصہ بیان کیا، اس لیے اس ترتیب کا اہتمام برقرار نہ رہ سکا جو بیان کرتے وقت ملحوظ تھی لیکن بیان کی ہوئی نشانیاں اپنی اصل ترتیب کے مطابق سامنے آنے لگیں اور قیامت تک سامنے آتی رہیں گی ۔ عہد رسالت سےآج تک اور آج سے قیامت تک کاکوئی دور ایسانہیں جوان علامات کے ظہور سےخالی ہو۔انسانیت کو بالعموم اورامت مسلمہ کو بالخصوص تسلسل سے یاد ہانی کرائی جارہی ہے کہ اب فلاں نشانی سامنے آگئی ہے، اب قیامت کاوقت اور قریب آگیا ہے ۔ کسی سوچنے سمجھنے اور اپنے انجام پر نظر رکھنے والے انسان کے پاس یہ کہنے کا کوئی موقع نہیں کہ رسول اللہﷺ کی بتائی ہوئی قیامت کی نشانیاں بھولی بسری باتیں بن گئی تھیں،
تمہید باب
ابن صیاد یا ابن صائد ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوا۔اس کا نام"صاف"یا صافی تھا ۔بچپنسے اس کے اطواروانداز عجیب تھے۔اس میں دجال کی عام نشانیوں میں سے کچھ نشانیاں بھی نظر آتی تھیں(دیکھئے۔جامع ترمذی۔حدیث نمبر۔2248)اس باب کی احادیث سے پتہ چلتاہے کہ کچھ غیر مرئی(شیطانی)قوتوں سے اس کا ر ابطہ تھا۔جیسے کاہنوں وغیرہ کا ہوتا ہے۔اس کی بعض باتوں سے یہ شک ہوتا تھا کہ وہ دجال ہوسکتا ہے ۔صحابہ( رضوان اللہ عنھم اجمعین ) کو یہ شک ہوا بھی۔رسول اللہ ﷺنےاس سے بات چیت کرکے اور اس کی بے خبری میں اس کے پاس سے آنے والی آوازوں یا اس کی بڑبڑاہٹ سن کرا س کی حقیقتجاننے کی کوشش فرمائی۔لیکن اس کا معاملہ مشکوک ہی رہا۔آپ نے اس کے ساتھرابطہ رکھنے والی نادیدہ قوتوں کو آزمانے کے لیے اس سے سوال بھی کیا توپتہ چلا کہ وہ غیر معمولی قوتوں کا حامل نہیں اس لیے آپ نے اسے نظر انداز فرمادیا۔اس نے اسلام قبول کرنے کا دعویٰ بھی کیا اور حج وغیرہ بھی کیا،لیکن اسکی مشتبہ باتوں کی بناء پرآخر تک صحابہرضوان اللہ عنھم اجمعین کے سامنے اس کامعاملہ مشکوک ہی رہا اس سے علانیہ طور پر اور صریح اندازمیں کوئی ایسا کام سر زد نہ ہوا جس کی بناء پر اس کے خلاف کوئی رسمی کاروائی ہوتی۔بعض علماء کا خیال ہے کہ وہ بڑ ا دجال تو نہ تھا لیکن اس تیس دجالوں میں سے ایک ہوسکتا ہے جن کی رسول اللہ ﷺ نے خبر دی۔رسول اللہ ﷺنے براہ راست اللہ تعالیٰ سےاس کی حقیقت جاننے کے بجائے خود اس کی حقیقت معلوم کرنے کی کوششفرمائی۔مقصود یہ تھا کہ آپ کے بعد آپ ﷺکی اُمت آپ ﷺکے طریقے پر عمل کرتے ہوئے خود اس طرح کے لوگوں کی حقیقتپہچاننے کی کوشش کرے اور ہمیشہگمراہی سے محفوظ رہے
جریر نےاعمش سے ،انھوں نے ابو وائل سے اور انھوں نے حضرت عبداللہ (ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے روایت کی، کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے کہ ہم چند لڑکوں کے پاس سے گزرے ، ان میں ابن صیاد بھی تھا، سب بچے بھاگ گئے اور ابن صیاد بیٹھ گیا، تو ایسا لگا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس بات کو ناپسند کیا ہے، نبی کریم ﷺ نے اس سے فرمایا: ’’تیرے ہاتھ خاک آلودہوں! کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ بلکہ کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کو قتل کردوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر یہ وہی ہے جو تمہارا گمان ہے تو تم اس کو قتل نہیں کرسکوگے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فائدہ: ابن صیاد یا ابن صائد ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوا اس کا نام صاف یا ’’صافی‘‘ تھا بچپن سے اس کے اطوار و انداز عجیب تھے تھے اس میں دجال کی عام نشانیوں میں سے کچھ نشانیاں بھی نظر آتی تھیں، (دیکھیے، جامع الترمذي ، حدیث: 2248) اس باب کی احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ غیر مرئی (شیطانی) قوتوں سے اس کا رابطہ تھا جیسے کاہنوں وغیرہ کا ہوتا ہے۔ اس کی باتوں سے شک ہوتا تھا کہ وہ دجال ہو سکتا ہے، صحابہ کو یہ شک ہو ابھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بات چیت کرکے اور اس کی بے خبری میں اس کے پاس آنے والی آوازوں یا اس کی بڑبڑاہٹ سن کر اس کی حقیقت جاننے کی کوشش فرمائی، لیکن اس کا معاملہ مشکوک ہی رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ رابطہ رکھنے والی نادیدہ قوتوں کو آزمانے کے لیے اس سے سوال بھی کیا، تو پتہ چلا کہ وہ غیر معمولی قوتوں کا حامل نہیں، اس لیے آپ نے اسے نظر انداز فرما دیا۔ اس نے اسلام قبول کرنے کا دعویٰ بھی کیا اور حج وغیرہ بھی کیا، لیکن اس کی مشتبہ باتوں کی بنا پر آخر تک صحابہ کے سامنے اس کا معاملہ مشکوک ہی رہا۔ اس سے علانیہ طور پر اور صریح انداز میں کوئی ایسا کام سرزد نہ ہوا جس کی بنا پر اس کے خلاف کوئی رسمی کارروائی ہوتی۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ وہ بڑا دجال تو نہیں تھا لیکن ان تیس (30) دجالوں میں سے ایک ہو سکتا ہے جن کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے براہِ راست اللہ تعالی سے اس کی حقیقت جاننے کی بجائے خود اس کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش فرمائی۔ مقصود یہ تھا کہ آپ کے بعد آپ کی امت آپ کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے خود اس طرح کے لوگوں کی حقیقت پہچاننے کی کوشش کرے اور ہمیشہ گمراہی سے محفوظ رہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے چنانچہ ہمارا گزر بچوں کے پاس سے ہوا جن میں ابن صیاد بھی تھا تو بچے بھاگ گئے اور ابن صیاد بیٹھا رہا۔ سو گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے فعل کو پسند نہ کیا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہا: ’’تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں، کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟‘‘ تو اس نے کہا نہیں، بلکہ کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ سو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے اجازت دیجیے تاکہ میں اس کو قتل کردوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر یہ وہی ہے جو تم سمجھتے ہو۔ یعنی دجال ہے تو تم اس کو قتل نہیں کر سکتے۔‘‘ (کیونکہ دجال کو حضرت عیسیٰ نے قتل کرنا ہے)
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
ابن صیاد جس کا نام صاف ہے، اس کی ولادت اور ہیئت کذائی عام بچوں سے الگ تھلگ تھی اور بعض صفات، دجال کی صفات سے ملتی جلتی تھیں، اس لیے بعض صحابہ کو اس سے دجال ہونے کا شبہ پڑتا تھا اور آپﷺ نے اس کو قتل اس لیے نہیں کروایا کہ وہ یہودی تھا اور یہودیوں کے ساتھ آپﷺ نے معاہدہ کیا تھا کہ وہ ان کے ساتھ امن و سلامتی سے رہیں گے، بعد میں ان کی ریشہ دوانیوں اور شرارتوں کی بنا پر، ان کو مدینہ منورہ سے نکال دیا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdullah reported: We were along with Allah's Messenger (ﷺ) that we happened to pass by children amongst whom there was Ibn Sayyad. The children made their way but Ibn Sayyad kept sitting there (and it seemed) as if Allah's Messenger (ﷺ) did not like it (his sitting with the children) and said to him: May your nose he besmeared with dust, don't you bear testimony to the fact that I am the Messenger of Allah? (ﷺ) Thereupon he said: No, but you should bear testimony that I am the messenger of Allah. Thereupon 'Umar bin Khattab said: Allah's Messenger, permit me that I should kill him. Thereupon Allah's Messenger (ﷺ) said: If he is that person who is in your mind (Dajjal ), you will not be able to kill him.