Muslim:
The Book of Commentary on the Qur'an
(Regarding the Tafseer of miscellaneous verses)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3016.
ابن شہاب سے روایت ہے ،کہا:مجھے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خبر دی کہ اللہ عزوجل نے رسول اللہ ﷺ کی وفات سے پہلے آپ کی وفات تک لگاتار وحی نازل فرمائی اور جس دن آپﷺ کی وفات ہوئی اس دن سب سے زیادہ وحی آئی۔
تشریح:
فوائد و مسائل:
1۔ اکثر شارحین نے (یوم توفي)اس سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کا آخری دور لیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے دراودی کی حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کردہ حدیث کا حوالہ دیا ہے، جس میں یہ ہے کہ زہری نے کہا: میں نے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت سے پہلے، نزول وحی میں کوئی وقفہ آیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا: زیادہ اور اکٹھی ہوکر (وحی نازل) ہوئی۔ (فتح الباري: 11/9) صحیح بخاری میں مروی الفاظ (أن الله تعالي تابع علي رسوله ﷺ قبل وفاته حتي توفاه، أكثر ما كا ن الوحي، توفي رسول الله ﷺ بعد) ’’بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کی وفات سے پہلے لگا تار وحی نازل ہوئی حتی کہ اللہ تعالی نے آپ کو وفات دی تو اس وقت سب سے زیادہ وحی آئی، آئی پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے‘‘ (صحیح البخاري، حدیث 4982) 2۔ بعض شارحین نے یہ کہا ہے کہ وحی عام ہے ، اس سے مراد محض وحی متلو یا قرآن کی آیات نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں امت کو جو بھی وصیتیں کیں، یا د دہانیاں کرائیں یا خبریں دیں، مثلاً حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے آپ کی گفتگو، یا دیگر اقدامات فرمائے، سب کچھ اللہ تعالی کے حکم سے اور اس کی وحی کے مطابق تھا۔
صحیح مسلم کا آخری حصہ کتاب التفسیر پر مشتمل ہے ۔ یہ انتہائی مختصر ہے۔بظاہر لگتا ہے کہ امام مسلم نے تفسیر کےحوالے سے جو صحیح احادیث موجود تھیں ان کا احاطہ کرنے کی کوشش نہیں لیکن اگر اس کتاب کی احادیث اور ان کی ترتیب کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تفسیر سے متعلقہ احادیث کا احاطہ ان کا مقصود ہی نہیں تھا بلکہ انہوں نے کتاب التفسیر کو اس طرح مرتب کیا ہے کہ تفسیر سے بنیادی اصول سمجھ میں آ جائیں اس کتاب کے پہلے باپ میں متفرق آیات کی تفسیر پر مشتمل احادیث ہیں سب سے پہلی حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ کی نازل کردہ ہدایث بلکہ اس کے الفاظ تک انتہائی اہم ہیں ،ان کا تحفظ اور ان کے مقصود کے مطابق ان پر عمل کرنا کامیابی کا ذریعہ ہے وحی کے الفاظ کو سنجیدگی سے نہ لینے والے اور انھیں استہزا کا نشانہ بنانے والے یہودی طرح اللہ کے غضب کا شکار ہو جاتے ہیں ۔دوسری حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قرآن ،جو اللہ کی وحی ہے ،انسانوں کی ضرورت اور حالات کے مطابق نازل ہوا ہے اس کے بعد حضرت عمر سے مروی احادیث ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام نے جن جن مواقع پر اور جن حالات میں قرآن مجید نازل ہوا ان کو اچھی طرح یاد رکھا ،وہ ان سب باتوں سے پہلے دن سے ہی آگاہ تھے پھر مختلف آیات کی تفسیر میں حضرت عائشہ صدیقہؓ سے منقول احادیث ہیں ان احادیث سے اچھی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن مجید کے بعض وضاحت طلب مقامات و صحیح طور پر سمجھنے کے لیے ان حالات کو پیش نظر رکھنا نا گزیر ہے جن میں آیات کا نزول ہوا۔حضرت عائشہ ؓ سے جن آیات کی تفسیر ان احادیث میں منقول ہے ان کا صحیح مفہوم حضرت عائشہ ؓ کی تفسیر سے سمجھ میں آتا ہے حضرت عائشہ ؓ نے مفہوم کا تعین ان حالات کی بنیاد پر اور اس ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا جس کے مطابق آیات نازل ہوئیں یہ بھی ایک دلچسپ پہلو ہے کہ امام مسلم نے حضرت عائشہ کے حوالے سے جو احادیث بیان کیں ان کا تعلق انہی آیات سے ہے جو خواتین کے حقوق اور خانکی معاملات کے بارے میں نازل ہوئیں ،لیکن ان کی تفسیر انہی مسائل سے متعلقہ آیات تک محدود نہیں۔بطور نمونہ جنگ خندق کے دوران میں مسلمانوں کی حالت کی منظر کشی کرنے والی آیات کے تعین پر مبنی حدیث بھی شامل ہے اسی طرح وہ حدیث بھی شامل ہے جس میں حضرت عائشہ ؓ نے قرآن کی آیت کو رسول اللہ ﷺ کے بعد کے حالات پر منطبق کر کے ڈھایا ہے۔
اس کے بعد ابن عباس سے مروی احادیث ہیں انھوں نے ان آیات کا مفہوم جن کے بارے میں اختلاف پیدا ہو گیا تھا نزول کے حالات اور آیا ت کی ترتیب کی روشنی میں کر کے رہنمائی مہیا کی اور اختلاف مٹایا ۔ان کی تفسیر سے پتا چلا کہ وہ قرآن کے حکم اور مفہوم کے حوالے سے کسی قسم کا رعایتی پہلو تلاش کرنے کے روادرانہ تھے ۔حضرت ابن عباس ؓ ترتیب نزول کو ملحوظ رکھنے کی اہمیت ک کو واضح کرنے کے لیے تفسیر کے طالب علموں سے اس کے متعلق سوال بھی کرتے تھے ۔ (حدیث:7546) پھر امام مسلم نے حضرت براء بن عازب ،حضرت عبداللہ بن مسعود ،حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت جابر سے مختلف روایات پیش کیں اور کھایا کہ صحابہ کرام کس طرح مختلف حالات میں اترنے والی آیات مبارکہ کا مفہوم ان حالات کی روشنی میں کرتے تھے اور اس طریق سے مفہوم کس قدر واضح ہو جاتا ہے ۔
حضرت ابن عباس ؓ نے قرآن کے طالب علموں کی تفہیم کے لیے مختلف سورتوں کے موضوعات کی نشاندہی کر کے کام آسان فرمایا۔ تفسیر کے حوالے سے یہ بھی انتہائی اہم نکتہ ہے ۔
شراب کی حرمت کے حوالے سے حضرت عمر ؓ سے مروی جو احادیث پیش کی گئیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ مفہوم کے تعین کے لیے شان نزول کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے لیکن اس سے ان کے حکم میں کسی طرح کی تخصیص یا تحدید نہیں ہوتی۔ شان نزول سے صحیح مفہوم کا تعین ہوتا ہے لیکن حکم عام اور دائمی ہوتا ہے ان کی حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ بات لازمی نہیں کہ ہر ایک کے لیے ہر آیت کا مفہوم واضح ہو ان کو کچھ معاملات میں مشکلات در پیش تھیں انہوں نے ان کی نشاندہی فرمائی اور واضح کیا کہ قرآن کے مفہوم کا تعین آپ ﷺ کے فرامین کی روشنی ہی میں ہو سکتا ہے انہوں نے سرعام صحابہ کے سامنے ذکر کر کے ان کی حمتوں و مہمیہ دی کہ وہ ایک دوسرے سے رسول اللہ ﷺ کے زیادہ سے زیادہ فرامین معلوم کریں ، ان بر غورو خوض کریں اور مشکل مسائل کو حل کریں الحمدللہ امت نے اس چیلنج کو قبول کیا اور بہترین نتائج سامنے آئے۔
حضرت ابوذر ؓ سے مروی آخری حدیث اس بات کا ثبوت ہے کہ فرامین رسول اور آثارصحابہ میسر نہ ہوں تو قرآن مجید کی اصل تفسیر ممکن ہی نہیں۔ اصل تفسیر ، تفسیرثور ہی ہے۔
ابن شہاب سے روایت ہے ،کہا:مجھے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خبر دی کہ اللہ عزوجل نے رسول اللہ ﷺ کی وفات سے پہلے آپ کی وفات تک لگاتار وحی نازل فرمائی اور جس دن آپﷺ کی وفات ہوئی اس دن سب سے زیادہ وحی آئی۔
حدیث حاشیہ:
فوائد و مسائل:
1۔ اکثر شارحین نے (یوم توفي)اس سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کا آخری دور لیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے دراودی کی حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کردہ حدیث کا حوالہ دیا ہے، جس میں یہ ہے کہ زہری نے کہا: میں نے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت سے پہلے، نزول وحی میں کوئی وقفہ آیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا: زیادہ اور اکٹھی ہوکر (وحی نازل) ہوئی۔ (فتح الباري: 11/9) صحیح بخاری میں مروی الفاظ (أن الله تعالي تابع علي رسوله ﷺ قبل وفاته حتي توفاه، أكثر ما كا ن الوحي، توفي رسول الله ﷺ بعد) ’’بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کی وفات سے پہلے لگا تار وحی نازل ہوئی حتی کہ اللہ تعالی نے آپ کو وفات دی تو اس وقت سب سے زیادہ وحی آئی، آئی پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے‘‘ (صحیح البخاري، حدیث 4982) 2۔ بعض شارحین نے یہ کہا ہے کہ وحی عام ہے ، اس سے مراد محض وحی متلو یا قرآن کی آیات نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں امت کو جو بھی وصیتیں کیں، یا د دہانیاں کرائیں یا خبریں دیں، مثلاً حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے آپ کی گفتگو، یا دیگر اقدامات فرمائے، سب کچھ اللہ تعالی کے حکم سے اور اس کی وحی کے مطابق تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کر تے ہیں،اللہ عزوجل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے آپ پر وحی لگاتار اتاری، حتی کہ آپﷺ فوت ہوگئے اور آپ کی وفات کے عہد وزمانہ میں وحی کا نزول بہت بڑھ گیا تھا، یعنی آپ کی زندگی کے آخری ایام میں وحی کی آمد زیادہ ہوگئی تھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Anas bin Malik (RA) reported that Allah, the Exalted and Glorious, sent revelation to Allah's Messenger (ﷺ) just before his death in quick succession until he left for his heavenly home, and the day when he died, he received the revelation profusely.