Muslim:
The Book of Commentary on the Qur'an
(Regarding the Tafseer of miscellaneous verses)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3017.
سفیان نے قیس بن مسلم سے اور انھوں نے طارق بن شہاب سے روایت کی کہ یہودیوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا: آپ لوگ (مسلمان) ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں کہ اگر وہ آیت ہمارے ہاں نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید بنا لیتے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں جانتا ہوں، وہ آیت کس جگہ اور کس دن نازل ہوئی تھی اور جس وقت وہ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ کہاں تھے۔ یہ آیت عرفہ (کے مقام) پر نازل ہوئی تھی اور اس وقت رسول اللہ ﷺ میدان عرفات میں تھے۔ سفیان نے کہا مجھے شک ہے کہ (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بھی کہا تھا) جمعہ کا دن تھا یا نہیں؟ ان کی مراد اس آیت سے تھی: ’’آج میں تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی۔‘‘
تشریح:
فائدہ:
جس دن یہ آیت نازل ہوئی وہ یہودیوں کے اندازوں سے بھی بڑا دن تھا۔ وہ دنیا کے گوشے گوشے سے اللہ کے بلاوے پر لبیک اللھم لبیک کہہ کر آنے والوں کے سب سے بڑے اجتماع کا اور ان کی عبادتوں، گڑگڑانے اور گناہ بخشوانے کا دن تھا، اور رہے گا۔ جہاں سے دین حنیف کا آغاز ہوا تھا وہیں اس نعمت کا اتمام اور تکمیل بھی ہوئی۔ وہ دن اور اس کا وہ لمحہ اللہ تعالی نے منتخب فرمایا۔ اسے شرف و عزت بخشی، اسے اپنے بندوں کے لئے مغفرت اور جہنم سے آزادی کا دن بنایا، اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور امت کی دعائیں قبول فرمائیں۔ اور یوں ان کو عظیم ترین انعام سے نوازا۔ یہ یہودیوں کی عیدوں کی طرح انسانوں کا مقرر کردہ دن نہیں۔ نہ مسلمانوں کو ایسے دنوں کی ضرورت ہے۔
صحیح مسلم کا آخری حصہ کتاب التفسیر پر مشتمل ہے ۔ یہ انتہائی مختصر ہے۔بظاہر لگتا ہے کہ امام مسلم نے تفسیر کےحوالے سے جو صحیح احادیث موجود تھیں ان کا احاطہ کرنے کی کوشش نہیں لیکن اگر اس کتاب کی احادیث اور ان کی ترتیب کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تفسیر سے متعلقہ احادیث کا احاطہ ان کا مقصود ہی نہیں تھا بلکہ انہوں نے کتاب التفسیر کو اس طرح مرتب کیا ہے کہ تفسیر سے بنیادی اصول سمجھ میں آ جائیں اس کتاب کے پہلے باپ میں متفرق آیات کی تفسیر پر مشتمل احادیث ہیں سب سے پہلی حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ کی نازل کردہ ہدایث بلکہ اس کے الفاظ تک انتہائی اہم ہیں ،ان کا تحفظ اور ان کے مقصود کے مطابق ان پر عمل کرنا کامیابی کا ذریعہ ہے وحی کے الفاظ کو سنجیدگی سے نہ لینے والے اور انھیں استہزا کا نشانہ بنانے والے یہودی طرح اللہ کے غضب کا شکار ہو جاتے ہیں ۔دوسری حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قرآن ،جو اللہ کی وحی ہے ،انسانوں کی ضرورت اور حالات کے مطابق نازل ہوا ہے اس کے بعد حضرت عمر سے مروی احادیث ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام نے جن جن مواقع پر اور جن حالات میں قرآن مجید نازل ہوا ان کو اچھی طرح یاد رکھا ،وہ ان سب باتوں سے پہلے دن سے ہی آگاہ تھے پھر مختلف آیات کی تفسیر میں حضرت عائشہ صدیقہؓ سے منقول احادیث ہیں ان احادیث سے اچھی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن مجید کے بعض وضاحت طلب مقامات و صحیح طور پر سمجھنے کے لیے ان حالات کو پیش نظر رکھنا نا گزیر ہے جن میں آیات کا نزول ہوا۔حضرت عائشہ ؓ سے جن آیات کی تفسیر ان احادیث میں منقول ہے ان کا صحیح مفہوم حضرت عائشہ ؓ کی تفسیر سے سمجھ میں آتا ہے حضرت عائشہ ؓ نے مفہوم کا تعین ان حالات کی بنیاد پر اور اس ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا جس کے مطابق آیات نازل ہوئیں یہ بھی ایک دلچسپ پہلو ہے کہ امام مسلم نے حضرت عائشہ کے حوالے سے جو احادیث بیان کیں ان کا تعلق انہی آیات سے ہے جو خواتین کے حقوق اور خانکی معاملات کے بارے میں نازل ہوئیں ،لیکن ان کی تفسیر انہی مسائل سے متعلقہ آیات تک محدود نہیں۔بطور نمونہ جنگ خندق کے دوران میں مسلمانوں کی حالت کی منظر کشی کرنے والی آیات کے تعین پر مبنی حدیث بھی شامل ہے اسی طرح وہ حدیث بھی شامل ہے جس میں حضرت عائشہ ؓ نے قرآن کی آیت کو رسول اللہ ﷺ کے بعد کے حالات پر منطبق کر کے ڈھایا ہے۔
اس کے بعد ابن عباس سے مروی احادیث ہیں انھوں نے ان آیات کا مفہوم جن کے بارے میں اختلاف پیدا ہو گیا تھا نزول کے حالات اور آیا ت کی ترتیب کی روشنی میں کر کے رہنمائی مہیا کی اور اختلاف مٹایا ۔ان کی تفسیر سے پتا چلا کہ وہ قرآن کے حکم اور مفہوم کے حوالے سے کسی قسم کا رعایتی پہلو تلاش کرنے کے روادرانہ تھے ۔حضرت ابن عباس ؓ ترتیب نزول کو ملحوظ رکھنے کی اہمیت ک کو واضح کرنے کے لیے تفسیر کے طالب علموں سے اس کے متعلق سوال بھی کرتے تھے ۔ (حدیث:7546) پھر امام مسلم نے حضرت براء بن عازب ،حضرت عبداللہ بن مسعود ،حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت جابر سے مختلف روایات پیش کیں اور کھایا کہ صحابہ کرام کس طرح مختلف حالات میں اترنے والی آیات مبارکہ کا مفہوم ان حالات کی روشنی میں کرتے تھے اور اس طریق سے مفہوم کس قدر واضح ہو جاتا ہے ۔
حضرت ابن عباس ؓ نے قرآن کے طالب علموں کی تفہیم کے لیے مختلف سورتوں کے موضوعات کی نشاندہی کر کے کام آسان فرمایا۔ تفسیر کے حوالے سے یہ بھی انتہائی اہم نکتہ ہے ۔
شراب کی حرمت کے حوالے سے حضرت عمر ؓ سے مروی جو احادیث پیش کی گئیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ مفہوم کے تعین کے لیے شان نزول کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے لیکن اس سے ان کے حکم میں کسی طرح کی تخصیص یا تحدید نہیں ہوتی۔ شان نزول سے صحیح مفہوم کا تعین ہوتا ہے لیکن حکم عام اور دائمی ہوتا ہے ان کی حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ بات لازمی نہیں کہ ہر ایک کے لیے ہر آیت کا مفہوم واضح ہو ان کو کچھ معاملات میں مشکلات در پیش تھیں انہوں نے ان کی نشاندہی فرمائی اور واضح کیا کہ قرآن کے مفہوم کا تعین آپ ﷺ کے فرامین کی روشنی ہی میں ہو سکتا ہے انہوں نے سرعام صحابہ کے سامنے ذکر کر کے ان کی حمتوں و مہمیہ دی کہ وہ ایک دوسرے سے رسول اللہ ﷺ کے زیادہ سے زیادہ فرامین معلوم کریں ، ان بر غورو خوض کریں اور مشکل مسائل کو حل کریں الحمدللہ امت نے اس چیلنج کو قبول کیا اور بہترین نتائج سامنے آئے۔
حضرت ابوذر ؓ سے مروی آخری حدیث اس بات کا ثبوت ہے کہ فرامین رسول اور آثارصحابہ میسر نہ ہوں تو قرآن مجید کی اصل تفسیر ممکن ہی نہیں۔ اصل تفسیر ، تفسیرثور ہی ہے۔
سفیان نے قیس بن مسلم سے اور انھوں نے طارق بن شہاب سے روایت کی کہ یہودیوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا: آپ لوگ (مسلمان) ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں کہ اگر وہ آیت ہمارے ہاں نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید بنا لیتے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں جانتا ہوں، وہ آیت کس جگہ اور کس دن نازل ہوئی تھی اور جس وقت وہ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ کہاں تھے۔ یہ آیت عرفہ (کے مقام) پر نازل ہوئی تھی اور اس وقت رسول اللہ ﷺ میدان عرفات میں تھے۔ سفیان نے کہا مجھے شک ہے کہ (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بھی کہا تھا) جمعہ کا دن تھا یا نہیں؟ ان کی مراد اس آیت سے تھی: ’’آج میں تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
جس دن یہ آیت نازل ہوئی وہ یہودیوں کے اندازوں سے بھی بڑا دن تھا۔ وہ دنیا کے گوشے گوشے سے اللہ کے بلاوے پر لبیک اللھم لبیک کہہ کر آنے والوں کے سب سے بڑے اجتماع کا اور ان کی عبادتوں، گڑگڑانے اور گناہ بخشوانے کا دن تھا، اور رہے گا۔ جہاں سے دین حنیف کا آغاز ہوا تھا وہیں اس نعمت کا اتمام اور تکمیل بھی ہوئی۔ وہ دن اور اس کا وہ لمحہ اللہ تعالی نے منتخب فرمایا۔ اسے شرف و عزت بخشی، اسے اپنے بندوں کے لئے مغفرت اور جہنم سے آزادی کا دن بنایا، اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور امت کی دعائیں قبول فرمائیں۔ اور یوں ان کو عظیم ترین انعام سے نوازا۔ یہ یہودیوں کی عیدوں کی طرح انسانوں کا مقرر کردہ دن نہیں۔ نہ مسلمانوں کو ایسے دنوں کی ضرورت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ یہودیوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا: آپ لوگ (مسلمان) ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں کہ اگر وہ آیت ہمارے ہاں نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید بنا لیتے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں جانتا ہوں، وہ آیت کس جگہ اور کس دن نازل ہوئی تھی اور جس وقت وہ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں تھے۔ یہ آیت عرفہ (کے مقام) پر نازل ہوئی تھی اور اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میدان عرفات میں تھے۔ سفیان نے کہا مجھے شک ہے کہ جمعہ کا دن تھا یا نہیں؟ ان کی مراد اس آیت سے تھی: ’’آج میں تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی۔‘‘ (المائدہ:3)
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
یہ آیت مبارکہ دو عیدوں کے دن،میدان عرفات میں اتری، ہفتہ کی عید یعنی جمعہ کا دن تھا اور سالانہ عید،عرفہ کا دن تھا اور مسلمانوں کے لیے یہ دونوں عید کے دن ہیں، کیونکہ عرفہ کادن، عیدالاضحیٰ کا پیش خیمہ ہے اور مسلمانوں کا سب سےبڑا اجتماع ہے، اسی دن عرفات کے میدان میں ہوتا ہے، اپنے طور پر عید کا دن مقرر کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ بعض حضرات نے اس حدیث سےاستدلال کرتے ہوئے لکھا ہے، (اس سے معلوم ہوا کہ کسی دینی کامیابی کےدن کو خوشی کا دن مناناجائز اور صحابہ سے ثابت ہے، ورنہ حضرت عمرو،ابن عباس رضی اللہ عنھم صاف فرمادیتے کہ جس دن کوئی خوشی کا واقعہ ہواس کی یادگار قائم کرنا اور اس روز کو عید منانا ہم بدعت جانتےہیں، اس سے ثابت ہوا کہ عید میلاد منانا جائز ہے، کیونکہ وہ اعظم نعم الٰہیہ کی یادگار و شکر گزاری ہے۔ (خزائن العرفان از مولانا نعیم مراد آبادی،ص171) سوال یہ ہے کہ اگر کسی خوشی کے واقعہ کی یادگار قائم کرنا اور اس روز کو عید منانا صحابہ کرام کے نزدیک جائز تھا، تو انہوں نے ہر سال تکمیل قرآن کی یادگار کیوں نہیں منائی اور اس کے لیے عید والا جشن کیوں قائم نہ کیا اور کیا آج مسلمان تکمیل قرآن کا جشن، نوذالحجہ کو مناتے ہیں اور عید میلادالنبی کی طرح جلسے اور جلوس نکالتے ہیں، صحابہ کرام نے غزوہ بدر کا جشن منایا، فتح مکہ کے دن کو عیدکا دن قرار پایا یا عید میلادالنبی کےلیے، آپ کی پیدائش کے دن کو عید کا دن قرار دیا، ائمہ اربعہ میں سے کسی نے کسی تیسری عید کی نشان دہی کی اور عیدین کی طرح اپنی کتابوں میں اس کے لیے ابواب قائم کیے؟ عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردیں ہیں اسی طرح عرفہ اور جمعہ کا دن پہلے سے عید کا دن ہے نہ کہ قرآن کے نزول کی تکمیل کے بعد۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Tariq bin Shihab reported that a Jew said to'Umar (RA) : You recite a verse which, if it had been revealed in relation to us, we would have taken that day as the day of rejoicing. Thereupon 'Umar said: I know where it was revealed and on the day when it was revealed and where Allah's Messenger (ﷺ) had been at that time when it was revealed. It was revealed on the day of 'Arafa (ninth of Dhu'l Hijjah) and Allah's Messenger (ﷺ) had been staying in 'Arafat. Sufyan said: I doubt, whether it was Friday or not (and the verse referred to) is this: "Today I have perfected your religion for you and completed My favours upon you" (v. 4).