Muslim:
The Book of Commentary on the Qur'an
(Regarding the Tafseer of miscellaneous verses)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3026.
ابو اسحاق سے روایت ہے کہا: میں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: انصار جب حج کر کے واپس آتے تو گھروں میں (دروازوں کے بجائے) ان کے پچھواڑے ہی سے داخل ہوتے انصار میں سے ایک شخص آیا اور اپنے دروازے سے (گھر کے اندر) داخل ہوا تو اس کے بارے میں اس پر باتیں کی گئیں تو یہ آیت اتری: ’’اور یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم گھروں کے اندران کے پچھواڑوں سے آؤ۔‘‘
صحیح مسلم کا آخری حصہ کتاب التفسیر پر مشتمل ہے ۔ یہ انتہائی مختصر ہے۔بظاہر لگتا ہے کہ امام مسلم نے تفسیر کےحوالے سے جو صحیح احادیث موجود تھیں ان کا احاطہ کرنے کی کوشش نہیں لیکن اگر اس کتاب کی احادیث اور ان کی ترتیب کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تفسیر سے متعلقہ احادیث کا احاطہ ان کا مقصود ہی نہیں تھا بلکہ انہوں نے کتاب التفسیر کو اس طرح مرتب کیا ہے کہ تفسیر سے بنیادی اصول سمجھ میں آ جائیں اس کتاب کے پہلے باپ میں متفرق آیات کی تفسیر پر مشتمل احادیث ہیں سب سے پہلی حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ کی نازل کردہ ہدایث بلکہ اس کے الفاظ تک انتہائی اہم ہیں ،ان کا تحفظ اور ان کے مقصود کے مطابق ان پر عمل کرنا کامیابی کا ذریعہ ہے وحی کے الفاظ کو سنجیدگی سے نہ لینے والے اور انھیں استہزا کا نشانہ بنانے والے یہودی طرح اللہ کے غضب کا شکار ہو جاتے ہیں ۔دوسری حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قرآن ،جو اللہ کی وحی ہے ،انسانوں کی ضرورت اور حالات کے مطابق نازل ہوا ہے اس کے بعد حضرت عمر سے مروی احادیث ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام نے جن جن مواقع پر اور جن حالات میں قرآن مجید نازل ہوا ان کو اچھی طرح یاد رکھا ،وہ ان سب باتوں سے پہلے دن سے ہی آگاہ تھے پھر مختلف آیات کی تفسیر میں حضرت عائشہ صدیقہؓ سے منقول احادیث ہیں ان احادیث سے اچھی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن مجید کے بعض وضاحت طلب مقامات و صحیح طور پر سمجھنے کے لیے ان حالات کو پیش نظر رکھنا نا گزیر ہے جن میں آیات کا نزول ہوا۔حضرت عائشہ ؓ سے جن آیات کی تفسیر ان احادیث میں منقول ہے ان کا صحیح مفہوم حضرت عائشہ ؓ کی تفسیر سے سمجھ میں آتا ہے حضرت عائشہ ؓ نے مفہوم کا تعین ان حالات کی بنیاد پر اور اس ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا جس کے مطابق آیات نازل ہوئیں یہ بھی ایک دلچسپ پہلو ہے کہ امام مسلم نے حضرت عائشہ کے حوالے سے جو احادیث بیان کیں ان کا تعلق انہی آیات سے ہے جو خواتین کے حقوق اور خانکی معاملات کے بارے میں نازل ہوئیں ،لیکن ان کی تفسیر انہی مسائل سے متعلقہ آیات تک محدود نہیں۔بطور نمونہ جنگ خندق کے دوران میں مسلمانوں کی حالت کی منظر کشی کرنے والی آیات کے تعین پر مبنی حدیث بھی شامل ہے اسی طرح وہ حدیث بھی شامل ہے جس میں حضرت عائشہ ؓ نے قرآن کی آیت کو رسول اللہ ﷺ کے بعد کے حالات پر منطبق کر کے ڈھایا ہے۔
اس کے بعد ابن عباس سے مروی احادیث ہیں انھوں نے ان آیات کا مفہوم جن کے بارے میں اختلاف پیدا ہو گیا تھا نزول کے حالات اور آیا ت کی ترتیب کی روشنی میں کر کے رہنمائی مہیا کی اور اختلاف مٹایا ۔ان کی تفسیر سے پتا چلا کہ وہ قرآن کے حکم اور مفہوم کے حوالے سے کسی قسم کا رعایتی پہلو تلاش کرنے کے روادرانہ تھے ۔حضرت ابن عباس ؓ ترتیب نزول کو ملحوظ رکھنے کی اہمیت ک کو واضح کرنے کے لیے تفسیر کے طالب علموں سے اس کے متعلق سوال بھی کرتے تھے ۔ (حدیث:7546) پھر امام مسلم نے حضرت براء بن عازب ،حضرت عبداللہ بن مسعود ،حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت جابر سے مختلف روایات پیش کیں اور کھایا کہ صحابہ کرام کس طرح مختلف حالات میں اترنے والی آیات مبارکہ کا مفہوم ان حالات کی روشنی میں کرتے تھے اور اس طریق سے مفہوم کس قدر واضح ہو جاتا ہے ۔
حضرت ابن عباس ؓ نے قرآن کے طالب علموں کی تفہیم کے لیے مختلف سورتوں کے موضوعات کی نشاندہی کر کے کام آسان فرمایا۔ تفسیر کے حوالے سے یہ بھی انتہائی اہم نکتہ ہے ۔
شراب کی حرمت کے حوالے سے حضرت عمر ؓ سے مروی جو احادیث پیش کی گئیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ مفہوم کے تعین کے لیے شان نزول کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے لیکن اس سے ان کے حکم میں کسی طرح کی تخصیص یا تحدید نہیں ہوتی۔ شان نزول سے صحیح مفہوم کا تعین ہوتا ہے لیکن حکم عام اور دائمی ہوتا ہے ان کی حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ بات لازمی نہیں کہ ہر ایک کے لیے ہر آیت کا مفہوم واضح ہو ان کو کچھ معاملات میں مشکلات در پیش تھیں انہوں نے ان کی نشاندہی فرمائی اور واضح کیا کہ قرآن کے مفہوم کا تعین آپ ﷺ کے فرامین کی روشنی ہی میں ہو سکتا ہے انہوں نے سرعام صحابہ کے سامنے ذکر کر کے ان کی حمتوں و مہمیہ دی کہ وہ ایک دوسرے سے رسول اللہ ﷺ کے زیادہ سے زیادہ فرامین معلوم کریں ، ان بر غورو خوض کریں اور مشکل مسائل کو حل کریں الحمدللہ امت نے اس چیلنج کو قبول کیا اور بہترین نتائج سامنے آئے۔
حضرت ابوذر ؓ سے مروی آخری حدیث اس بات کا ثبوت ہے کہ فرامین رسول اور آثارصحابہ میسر نہ ہوں تو قرآن مجید کی اصل تفسیر ممکن ہی نہیں۔ اصل تفسیر ، تفسیرثور ہی ہے۔
ابو اسحاق سے روایت ہے کہا: میں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: انصار جب حج کر کے واپس آتے تو گھروں میں (دروازوں کے بجائے) ان کے پچھواڑے ہی سے داخل ہوتے انصار میں سے ایک شخص آیا اور اپنے دروازے سے (گھر کے اندر) داخل ہوا تو اس کے بارے میں اس پر باتیں کی گئیں تو یہ آیت اتری: ’’اور یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم گھروں کے اندران کے پچھواڑوں سے آؤ۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت براء رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، انصار جب حج کر کے واپس آتے، توگھروں میں صرف ان کے پچھواڑوں سے داخل ہوتے، چنانچہ ایک آدمی آیا، تووہ اپنے (گھر) کےدروازے سے داخل ہو گیا۔ تو اس سلسلہ میں اسے طعنہ دیا گیا، جس پر یہ آیت اتری، ’’نیکی یہ نہیں ہے کہ تم گھروں میں ان کی پچھلی طرف سے آؤ(پچھواڑوں سے آؤ)۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
حمس (قریشی اور خزاعہ وغیرھا) کے سوا، عرب لوگ اور انصار، جب گھر سے حج اور عمرہ کے لیے نکلتے اور پھر کسی وجہ سے گھر آنے کی ضرورت پیش آتی، تو وہ گھر میں دروازہ سے داخل ہونا صحیح نہیں سمجھتے تھے، اسی طرح حج وعمرہ سے فراغت کے بعد، دروازوں کی بجائے مکانوں کے پچھواڑوں سے یا کسی دوسرے راستہ سے داخل ہوتے، شاید اس عجیب و غریب حرکت کا محرک یہ وہم ہو کہ جن دروازوں سے گناہوں کا بوجھ لا دے ہوئے نکلے تھے، پاک ہوجانے کے بعد انھی دروازوں سے گھروں میں داخل ہونا، درست نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Bara' reported: When the Ansar performed the Pilgrimage, they did not enter their houses but from behind. A person from the Ansar came and he began to enter from his door but it was said to him (why he was doing something in contravention to the common practice of coming to the houses from behind). Then this verse was revealed. "Piety is not that you come to the doors from behind" (ii. 189).