باب: فرمان باری تعالیٰ:" کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی یہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کو یاد کرتے ہوئے گڑگڑائیں " کی تفسیر
)
Muslim:
The Book of Commentary on the Qur'an
(Chapter: Allah's Saying: "Has Not The Time Come For The Hearts Of Those Who Believe To Be Affected By Allah's Reminder")
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3027.
عون بن عبداللہ کے والد سے روایت ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےکہا: ہمارے اسلام لانے اور ہم پر اس آیت کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے عتاب کے درمیان چار سال سے زیادہ کا وقفہ نہ تھا: ’’کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی یہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کو یاد کرتے ہوئے گڑگڑائیں۔‘‘
تشریح:
فائدہ:
عتاب، دوست کی پیار بھری ناراضی کو کہتے ہیں جس کا تعلق کسی خاص توقع کی تکمیل سے ہوتا ہے۔
صحیح مسلم کا آخری حصہ کتاب التفسیر پر مشتمل ہے ۔ یہ انتہائی مختصر ہے۔بظاہر لگتا ہے کہ امام مسلم نے تفسیر کےحوالے سے جو صحیح احادیث موجود تھیں ان کا احاطہ کرنے کی کوشش نہیں لیکن اگر اس کتاب کی احادیث اور ان کی ترتیب کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تفسیر سے متعلقہ احادیث کا احاطہ ان کا مقصود ہی نہیں تھا بلکہ انہوں نے کتاب التفسیر کو اس طرح مرتب کیا ہے کہ تفسیر سے بنیادی اصول سمجھ میں آ جائیں اس کتاب کے پہلے باپ میں متفرق آیات کی تفسیر پر مشتمل احادیث ہیں سب سے پہلی حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ کی نازل کردہ ہدایث بلکہ اس کے الفاظ تک انتہائی اہم ہیں ،ان کا تحفظ اور ان کے مقصود کے مطابق ان پر عمل کرنا کامیابی کا ذریعہ ہے وحی کے الفاظ کو سنجیدگی سے نہ لینے والے اور انھیں استہزا کا نشانہ بنانے والے یہودی طرح اللہ کے غضب کا شکار ہو جاتے ہیں ۔دوسری حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قرآن ،جو اللہ کی وحی ہے ،انسانوں کی ضرورت اور حالات کے مطابق نازل ہوا ہے اس کے بعد حضرت عمر سے مروی احادیث ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام نے جن جن مواقع پر اور جن حالات میں قرآن مجید نازل ہوا ان کو اچھی طرح یاد رکھا ،وہ ان سب باتوں سے پہلے دن سے ہی آگاہ تھے پھر مختلف آیات کی تفسیر میں حضرت عائشہ صدیقہؓ سے منقول احادیث ہیں ان احادیث سے اچھی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن مجید کے بعض وضاحت طلب مقامات و صحیح طور پر سمجھنے کے لیے ان حالات کو پیش نظر رکھنا نا گزیر ہے جن میں آیات کا نزول ہوا۔حضرت عائشہ ؓ سے جن آیات کی تفسیر ان احادیث میں منقول ہے ان کا صحیح مفہوم حضرت عائشہ ؓ کی تفسیر سے سمجھ میں آتا ہے حضرت عائشہ ؓ نے مفہوم کا تعین ان حالات کی بنیاد پر اور اس ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا جس کے مطابق آیات نازل ہوئیں یہ بھی ایک دلچسپ پہلو ہے کہ امام مسلم نے حضرت عائشہ کے حوالے سے جو احادیث بیان کیں ان کا تعلق انہی آیات سے ہے جو خواتین کے حقوق اور خانکی معاملات کے بارے میں نازل ہوئیں ،لیکن ان کی تفسیر انہی مسائل سے متعلقہ آیات تک محدود نہیں۔بطور نمونہ جنگ خندق کے دوران میں مسلمانوں کی حالت کی منظر کشی کرنے والی آیات کے تعین پر مبنی حدیث بھی شامل ہے اسی طرح وہ حدیث بھی شامل ہے جس میں حضرت عائشہ ؓ نے قرآن کی آیت کو رسول اللہ ﷺ کے بعد کے حالات پر منطبق کر کے ڈھایا ہے۔
اس کے بعد ابن عباس سے مروی احادیث ہیں انھوں نے ان آیات کا مفہوم جن کے بارے میں اختلاف پیدا ہو گیا تھا نزول کے حالات اور آیا ت کی ترتیب کی روشنی میں کر کے رہنمائی مہیا کی اور اختلاف مٹایا ۔ان کی تفسیر سے پتا چلا کہ وہ قرآن کے حکم اور مفہوم کے حوالے سے کسی قسم کا رعایتی پہلو تلاش کرنے کے روادرانہ تھے ۔حضرت ابن عباس ؓ ترتیب نزول کو ملحوظ رکھنے کی اہمیت ک کو واضح کرنے کے لیے تفسیر کے طالب علموں سے اس کے متعلق سوال بھی کرتے تھے ۔ (حدیث:7546) پھر امام مسلم نے حضرت براء بن عازب ،حضرت عبداللہ بن مسعود ،حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت جابر سے مختلف روایات پیش کیں اور کھایا کہ صحابہ کرام کس طرح مختلف حالات میں اترنے والی آیات مبارکہ کا مفہوم ان حالات کی روشنی میں کرتے تھے اور اس طریق سے مفہوم کس قدر واضح ہو جاتا ہے ۔
حضرت ابن عباس ؓ نے قرآن کے طالب علموں کی تفہیم کے لیے مختلف سورتوں کے موضوعات کی نشاندہی کر کے کام آسان فرمایا۔ تفسیر کے حوالے سے یہ بھی انتہائی اہم نکتہ ہے ۔
شراب کی حرمت کے حوالے سے حضرت عمر ؓ سے مروی جو احادیث پیش کی گئیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ مفہوم کے تعین کے لیے شان نزول کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے لیکن اس سے ان کے حکم میں کسی طرح کی تخصیص یا تحدید نہیں ہوتی۔ شان نزول سے صحیح مفہوم کا تعین ہوتا ہے لیکن حکم عام اور دائمی ہوتا ہے ان کی حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ بات لازمی نہیں کہ ہر ایک کے لیے ہر آیت کا مفہوم واضح ہو ان کو کچھ معاملات میں مشکلات در پیش تھیں انہوں نے ان کی نشاندہی فرمائی اور واضح کیا کہ قرآن کے مفہوم کا تعین آپ ﷺ کے فرامین کی روشنی ہی میں ہو سکتا ہے انہوں نے سرعام صحابہ کے سامنے ذکر کر کے ان کی حمتوں و مہمیہ دی کہ وہ ایک دوسرے سے رسول اللہ ﷺ کے زیادہ سے زیادہ فرامین معلوم کریں ، ان بر غورو خوض کریں اور مشکل مسائل کو حل کریں الحمدللہ امت نے اس چیلنج کو قبول کیا اور بہترین نتائج سامنے آئے۔
حضرت ابوذر ؓ سے مروی آخری حدیث اس بات کا ثبوت ہے کہ فرامین رسول اور آثارصحابہ میسر نہ ہوں تو قرآن مجید کی اصل تفسیر ممکن ہی نہیں۔ اصل تفسیر ، تفسیرثور ہی ہے۔
عون بن عبداللہ کے والد سے روایت ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےکہا: ہمارے اسلام لانے اور ہم پر اس آیت کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے عتاب کے درمیان چار سال سے زیادہ کا وقفہ نہ تھا: ’’کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی یہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کو یاد کرتے ہوئے گڑگڑائیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
عتاب، دوست کی پیار بھری ناراضی کو کہتے ہیں جس کا تعلق کسی خاص توقع کی تکمیل سے ہوتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے اسلام لانے اور ہمیں اس آیت کے ذریعہ عتاب فرمانے کے درمیان صرف چار سال کا فاصلہ ہے، ’’کیا مومنوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کےذکر سے پسیج جائیں،‘‘ (الحدید،:16)
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
اَلَمْ يَاْنِ: کسی چیز کا وقت ہوجانا۔
فوائد ومسائل
اس آیت کے اصل مخاطب وہ لوگ ہیں، جنہوں نے موقع کی مناسبت سے اسلام کو تو قبول کرلیا تھا، مگر ابھی تک اس کے لیے جان کو جوکھوں میں ڈالنے اور کسی قسم کی قربانی کے لیے تیار نہیں تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn Mas'ud said: Since our acceptance of Islam and the revelation of this verse in which Allah has shown annoyance to us: "Has not the time yet come for the believers that their hearts should be humble for the remembrance of Allah?" (lvii. 16), there was a gap of four years.