باب: (اذان) سننے والے کے لیے مؤذن کے مانند کلمات کہنا مستحب ہے، پھر وہ رسول اللہﷺ پر درود پڑھے، پھر اللہ سے آپ کے لیے وسیلہ مانگے
)
Muslim:
The Book of Prayers
(Chapter: It Is Recommended For The One Who Hears The Mu'adhdhin To Repeat His Words, Then To Send Salat Upon The Prophet (saws) And Ask Allah To Grant Him Al-Wasilah)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
386.
محمد بن رمح اور قتیبہ بن سعید کی دو الگ الگ سندوں سے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ سے روایت کیا کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’جس نے مؤذن کی آواز سنتے ہوئے یہ کہا: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔‘‘ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ’’اور محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘ رَضِيتُ بِاللهِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، ’’میں اللہ کے رب ہونے پر اور محمدﷺ کے رسول ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں۔‘‘ تو اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے۔‘‘ ابن رمح نے اپنی روایت میں کہا: جس نے مؤذن کی آواز سنتے ہوئے یہ کہا: وأنا أشهد اور قتیبہ نے وأنا کا لفظ بیان نہیں۔
انسان اشرف المخلوقات ہے، اگر اب تک میسر سائنسی معلومات کو بنیاد بنایا جائے تو انسان ہی سب سے عقلمند مخلوق ہے جس نے عناصر قدرت سے کام لے کر اپنے لیے قوت و طاقت کے بہت سے انتظامات کر لیے ہیں ۔ اس کے باوجود یہ بہت ہی کمزور ، بار بار مشکلات میں گھر کر بے بس ہو جانے والی مخلوق ہے جو اپنی زندگی کے اکثر معاملات میں دوسروں کی مدد کی محتاج ہے، دوسروں پر انحصار کرتی ہے، اپنے مستقبل کے حوالے سے ہر وقت خدشات کا شکار اور خوفزدہ رہتی ہے۔ ان میں سے جو انسان ایک قادر مطلق پر ایمان سے محروم ہیں، ان میں سے اکثر دوسری ایسی مخلوقات کا سہارا لیتے اور ان کو اپنا محافظ ، اپنا رازق اور خالق سمجھتے اور ان سے مدد کی درخواست کرتے ہیں جو ان کی پہنچ سے دور ہوں یا جن کی اپنی کمزوریوں سے انسان بے خبر ہوں۔ مظاہر فطرت کی پوجا، بتوں کی پوجا، دیوتاؤں اور دیویوں کی پرستش حتی کہ ہاتھیوں، بندروں اور سانپوں کی عبادت کمزور انسان کی خوفزدگی اور اس کی احتیاج کی دلیل ہے۔
اللہ کے بھیجے ہوئے دین نے انسان کو یہ سکھایا کہ جنہیں تم پوجتے ہو وہ بھی تمھاری طرح بلکہ تم سے بڑھ کر کمزور اورمحتاج ہیں ۔ وہ محض ایک ہی ذات ہے جس کے ساتھ کسی کی کوئی شراکت داری نہیں اور وہی ہر شے پر قادر ہے۔ ہر قوت اس کے پاس ہے۔ ہر نعمت کے خزانوں کا مالک وہی ہے۔ اس نے سبھی کو پیدا کیا۔ وہ بھی پیدا ہونے کا یا کسی بھی اور چیز کا محتاج تھانہ آیندہ بھی ہوگا۔ وہ ہماری عبادت کا بھی محتاج نہیں بلکہ ہم ہی اس کے قرب، اس کی رحمت، اس کی مہربانی اور اس کی سخاوت کے محتاج ہیں ۔ اس کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہوجانے سے ہماری کمزوری طاقت میں، ہماری احتیاج فراوانی میں بدل سکتی ہے اور ہمارا خوف عمل سلاتی
کے احساس میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
تمام انبیاء کا مشن یہی تھا کہ انسان اس ابدی حقیقت کو سمجھ لے اور اس قادر مطلق کا قرب حاصل کرنے کے لیے عبادت کاصحیح طریقہ اپنا لے ۔ اس وقت جتنے آسمانی دین موجود ہیں ان میں سب سے مکمل، سب سے خوبصورت اور سب سے آسان طریقہ عبادت وہ ہے جو اسلام نے سکھایا ہے۔ ان اسلامی عبادات میں سے اہم ترین عبادت نماز ہے۔ نماز کا ارادہ کرتے ہی خیر ، برکت اور کسب اعمال صالحہ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ طہارت اور وضو سے انسان ظاہری اور باطنی کثافت اور میل کچیل سے صاف ہو جاتا ہے اور نماز میں داخل ہونے کے ساتھ ہی وہ اللہ کے حضور بازیاب ہو جا تا ہے۔اس عبادت میں بندہ گا ہے اپنے جیسے بہت سے عبادت گزاروں کے ساتھ مل کر جذب و سرمستی میں اللہ کو پکارتا، اس سے حال دل کہتا اور اس کے سامنے زاری کرتا ہے اور گاہے تنہائی کے عالم میں اپنے رب کے سامنے ہوتا ہے اور اس کے ساتھ سرگوشی اور مناجات کرتاہے(1)صحيح مسلم ،المساجد،باب النهى عن البصاق فى المسجد،حديث:1230(551) عبادت کایہ مکمل اورسب سےخوبصورت طریقہ خود الله تبارک و تعالی نے کائنات کے افضل ترین عبادت گزار (عبد) محمد رسول اللہﷺ کو سکھایا اور انھوں نے انسانیت کو اس کی تعلیم دی۔آپ کی نمازکی کیفیتیں کیاتھیں؟ان کی تفصیل صحیح مسلم کی كتاب الصلاة ،كتاب المساجد،كتاب صلاة المسافرين اورمابعدکےابواب میں بالتفصیل مذکور ہے۔ جن خوش نصیب لوگوں نےاس عبادت کاطریقہ براہ راست رسول اللہﷺ سےسیکھا،وہ اس کی لذتوں سےصحیح طورپرآشناتھے،مثلاحضرت انس انہیں یادکرکےبےاختیارکہتےتھے:ماصليت ورآءإمام قط أخف صلاة ولاأتم صلاة من رسولﷺ’’میں کبھی کسی امام کےپیچھےنمازنہیں پڑھی جس کی نمازرسول اللہﷺ کی نمازسےزیادہ ہلکی اورمکمل ترین ہو۔ ‘‘(2)صحيح مسلم،الصلاة،باب أمرالأئمة بتخفيف الصلاةفى تمام، حديث:1054(469)یہ نمازباجماعت کی کیفیت تھی۔ رات کی تنہائیوں میں آپ کی نمازکیسی تھی، حضرت عائشہؓ بتانابھی چاہتی ہیں اوراس سےزیادہ کہہ بھی نہیں سکتیں:يٌصلى أربعافلاتسأل عن حسنهن وطولهن ،ثم يصلى أربعافلاتسال عن حسنهن وطولهن ’’آپ چاررکعتیں پڑھتےاورمت پوچھوکہ ان کی خوبصورتی کیاتھی اورطوالت کتنی تھی،پھرآپ چاررکعتیں ادافرماتے،نہ پوچھوکہ ان کاجمال کیساتھا،کتنی لمبی ہوتی تھیں۔‘‘(3) صحيح مسلم،صلاة المسافرين وقصرها، باب الصلاة الليل ،حديث:1723(738)یہ لذتیں محسوس کی جاسکتی تھیں لیکن زبان ان کےبیان سےقاصرتھی۔ قرآن مجیدنےاس عبادت کاتذکرہ اس طرح کیاکہ اس مشاہدہ کرنےوالےاس کی طرف کھچےچلےآتےتھےاوراس میں مستغرق ہوجاتےہیں: ﴿وَأَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّـهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا﴾ ’’اورجب اللہ کابندہ اس کوپکارنےکھڑاہوا،تووہ اس پرگروہ درگروہ اکٹھےہونےلگے۔ ‘‘الجن19:72)محدثین نے رسول اللہ ﷺ کی نماز کے حوالے سے وہ ساری تفصیلات انتہائی جانفشانی سے جمع کر کے یکجا کر دیں جو صحابہ کرام نے بیان کی تھیں۔ آج اگر ذوق وشوق کی کیفیتوں میں ڈوب کر ان کا مطالعہ کیا جائے تو پورا منظر سامنے آ جاتا ہے، جو حسن و جمال کا بے مثال مرقع ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد فتنوں کا دور آیا۔ بے شمار انسانوں کے عقائد اور اعمال اس کی زد میں آئے منع زکاة، ارتد او،خوارج وغیرہ کے باطل عقائد اسی فتنے کی تباہ کاریوں کے چند پہلو ہیں ۔ اس دور کا مطالعہ کیا جائے تو عبادات اور اعمال میں سہل انگاری، غفلت اور لاپروائی حتی کہ جہالت کی ایسی کیفیتیں سامنے آتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ بنو امیہ کے دور میں نماز جیسے اسلام کے بنیادی رکن کی کیفیت ایسی ہوگئی تھی کہ حضرت انس بنانے اس کے سبب سے باقاعدہ گریہ میں مبتلا ہوجاتے تھے۔ لوگوں اور ان کے حکمرانوں نے اس دور میں اوقات نماز تک ضائع کر دیے تھے۔ امام زہری کہتے ہیں: میں دمشق میں حضرت انس نے کے ہاں حاضر ہوا تو آپ رورہے تھے۔ میں نے پوچھا: کیا بات ہے جو آپ کو رلا رہی ہے؟ فرمایا: میں نے عہد رسالت مآب ﷺ میں جو کچھ دیکھا تھا اس میں نماز ہی رہ گئی تھی، اب یہ بھی نماز بھی ضائع کردی گئی ہے۔ (4) صحيح البخارى ،مواقيت الصلاة ،باب فى تضييع الصلاة عن وقتها، حديث:530)آپ سےنمازکےبارےمیں یہ الفاظ بھی منقول ہیں ،رسول اللہﷺ کےعہدمیں جوکچھ ہوتاتھاان میں سےکوئی چیزنہیں جومیں پہچان سکوں(سب کچھ بدل گیاہے۔)کہاگیا:نماز(توہے!)فرمایاکیااس میں بھی تم نےوہ سب کچھ نہیں کردیاجوکردیاہے۔(1) صحيح البخارى ،مواقيت الصلاة ،باب فى تضييع الصلاة عن وقتها، حديث :529) جامع ترمذی کی روایت کےالفاظ ہیں تم نےاپنی نمازوں میں وہ سب کچھ نہیں کرڈالاجس کاتمھی کوپتہ ہے۔ (2)جامع الترمذى ،صفة القيامة،باب حديث إضاعة الناس الصلاة،حديث2447)ایک اور روایت میں ہے، ثابت بنانی کہتے ہیں : ہم حضرت انس بن مالک کے ساتھ تھے کہ حجاج نے نماز میں تاخیر کر دی،حضرت انس کھڑے ہوئے، وہ اس سے بات کرنا چاہتے تھے، ان کے ساتھیوں نے حجاج سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے انھیں روک دیا تو آپ وہاں سے نکلے ، سواری پر بیٹھے اور راستے میں کہا: رسول اللہﷺ کے عہد مبارک کی کوئی چیز باقی نہیں رہی سوائے لا الہ الا اللہ کی شہادت کے ۔ ایک آدمی نے کہا: ابوحمزه! نماز؟ تو فرمایا تم نے ظہر کی نماز مغرب میں پہنچا دی! کیا رسول اللہ ﷺ کی نماز یہ تھی۔ (3)فتح البارى ،مواقيت الصلاه،باب تضييع الصلاة عن وقتها،حديث:529)حکمرانوں کی جہالت کی وجہ سے خرابی کا یہ سلسلہ بڑھتا گیا اور سوائے چند اہل علم کے باقی لوگ اسی ناقص اور بگاڑی ہوئی نماز کےعادی ہو گئے ۔ حافظ ابن حجر نے امام عبدالرزاق کے حوالے سے مشہور تابعی عطاء کا واقعہ نقل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ولید بن عبد الملک نے جمعے میں تاخیر کی حتی کہ شام ہوگئی، میں آیا اور بیٹھنے سے پہلے ظہر ادا کر لی، پھر اس کے خطبے کے دوران میں بیٹھے ہوئے اشارے سے عصر پڑھی۔ اشارے سے اس لیے کہ عطاء کو خوف تھا کہ اگر انھوں نے کھڑے ہو کر نماز پڑھی تو انھیں قتل کردیا جائے گا۔(4) فتح البارى ،مواقيت الصلاه،باب تضييع الصلاة عن وقتها،حديث:529)اکثر لوگ حکمرانوں کے اس عمل ہی کو اسلام سمجھتے تھے، ان کو اس بات کا احساس تک نہ تھا کہ یہ سب رسول اللہ ﷺکی سنت کے خلاف ہے۔ عام لوگوں کی تو بات ہی کیا ہے حضرت عمر بن عبدالعزیز جیسے عالم کو بھی مدینہ کا گورنر مقرر ہونے تک اصل اوقات نماز کا علم نہ تھا۔ وہ مدینہ کے گورز ہو کر آئے تو ایک دن انھوں نے عصر کی نماز میں تاخیر کر دی۔ عروہ بن زبیر ان کے پاس آئے اور انھیں بتایا کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے، جب وہ عراق میں گورنر تھے، ایک دن نماز میں تاخیر کر دی تو حضرت ابو مسعود انصاری (بدری) آپ کے پاس آئے اور فرمایا: مغیرہ یہ کیا ہے؟ کیا تمھیں معلوم نہیں کہ جبریل نے نازل ہوکر نماز پڑھائی .... .( پانچویں نماز یں، ایک دن ہر نماز کا وقت شروع ہونے پر اور دوسرے دن ہر نماز کے وقت آخر میں پڑھائیں۔) اس پر عمر بن عبدالعزیز نے عروہ سے کہا: دیکھ لو کیا کہہ رہے ہو؟ کیا واقعی جبریل نے رسول اللہﷺ کے لیے نماز کے وقت کی نشاندہی کی ؟ عروہ نے جواب دیا: بشیر بن ابی مسعود اپنے والد (بدری صحابی ابومسعود انصاری) سے اس طرح بیان کرتے تھے۔(5) فتح البارى ،مواقيت الصلاه،باب تضييع الصلاة وفضلها،حديث:521)نماز کے طریقے میں بھی اسی طرح کی تبدیلیاں پیدا ہوگئیں۔ صحابہ کرام اور ان کے شاگردوں نے اس صورت حال کی اصلاح کے لیے جہاد شروع کیا، پھر محدثین نے، جو علم حدیث میں ان ہی کے جانشیں تھے، اس جہاد کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی نماز کی تمام تفصیلات پوری تحقیق اور جستجو کے بعد امت کے سامنے پیش کر دیں اور امت کو رسول اللهﷺ کے اس فرمان مبارک پر کماحقہ عمل کا موقع فراہم کیا کہ «صلوا كما رأيتموني أصلي» تم اسی طرح نماز ادا کرو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘(1)صحيح البخارى ،الأذان،باب الأذان للمسافرين،حديث:631)یہ ایک فطری بات ہے کہ انسان جس صورت میں جس عمل کا عادی ہوتا ہے ہمیشہ اسی کو درست سمجھتا ہے اور ہر صورت میں اس کے دفاع کی کوشش کرتا ہے۔ محدثین کے سامنے بہت بڑا اور كٹھن مشن تھا، انھوں نے نادان حکمرانوں کی سر پرستی میں راسخ شده عادات کے خلاف اتنا مؤثر جہاد کیا کہ اب ان لوگوں کے سامنے، جو عادت کی بنا پر اصرار اور ضد کا شکار نہیں ، رسول اللہ ﷺ کی سنت مبارکہ اور آپ کا منور طر یق عمل روز روشن کی طرح واضح ہے۔امام مسلم نے کتاب الصلاة، کتاب المساجد، کتاب صلاة المسافرین اور بعد کے ابواب میں خوبصورت ترتیب سےصحیح اسناد کے ساتھ رسول اللہﷺ کی نماز کی مکمل تفصیلات جمع کردی ہیں ۔ محدثین کے عظیم الشان کام کے بعد امت کے فقہاء اور علماءکے استنباطات، چاہے وہ جس مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں، محدثین کی بیان کردہ اانہی احادیث کے گرد گھومتے ہیں۔ تمام فقہی اختلافات کے حوالے سے بھی آخری اور حتمی فیصلہ صرف اور صرف وہی ہوسکتا ہے جو رسول اللہ ﷺصادر فرما دیا اور جسے محدثین نے پوری امانت داری سے امت تک پہنچا دیا ہے۔
محمد بن رمح اور قتیبہ بن سعید کی دو الگ الگ سندوں سے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ سے روایت کیا کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’جس نے مؤذن کی آواز سنتے ہوئے یہ کہا: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ،’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔‘‘وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ’’اور محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘رَضِيتُ بِاللهِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا،’’میں اللہ کے رب ہونے پر اور محمدﷺ کے رسول ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں۔‘‘ تو اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے۔‘‘ ابن رمح نے اپنی روایت میں کہا: جس نے مؤذن کی آواز سنتے ہوئے یہ کہا: وأنا أشهد اور قتیبہ نے وأنا کا لفظ بیان نہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت سعد بن ابی وقاس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت سنائی کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’جس نے مؤذن کی اذان سننے کے وقت کہا: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ،میں گواہی دیتا ہوں، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یگانہ ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔رَضِيتُ بِاللهِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا،میں اللہ کو رب مان کر اور محمدﷺ کو رسول مان کر اور اسلام کو دستور زندگی مان کر راضی اور مطمئن ہوں۔ تو اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ ابن رمح نے اپنی روایت میں کہا، جس نے مؤذن سے اذان سننے وقت کہا: وأنا أشھد، میں بھی شہادت دیتا ہوں، اور قتیبہ نے سامع کے لیے وأنا کا لفظ بیان نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اذان کے ساتھ اذان کے کلمات کہے جائیں گے یہ اور دوسری دعا اذان کے بعد پڑھی جائے گی اور ابن رمح کے الفاظ (وأنا أشهد) سے معلوم ہوتا ہے کہ کلمات شہادت کے ساتھ اس کو پڑھا جا سکتا ہے۔ ایک استدلال اور، اس کا جواب ، احادیث میں، اذان سن کر، مؤذن کےکلمات کہنے کا ذکر ہے۔ (حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ یا حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ) کی جگہ (لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّابِاللَّهِ) کا اور پھر سامع کا حکم ہے کہ وہ اذان کے بعد اکرم نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے، لیکن بعض حضرات نے فقہی کتب کے حوالہ سے لکھا ہے کہ پہلی مرتبہ: (أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ سن کر قَرَّتْ عَيْنِي بِكَ يَا رَسُوْلُ الله) کہنا مستحب ہے، علامہ شامی نے رد المختار 1/ 293۔ (مکتبہ ماجدیہ کوئٹہ) میں اس کی تائید میں ایک حدیث نقل کی ہے جو المقاصد الحسنہ للسخاوي کے حوالہ سے ہے اور پھر جراحی کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ: (لَمْ يَصح فِي الْمَرْفُوعِ مِنْ كُل هَذَا شَئْيٌ) جب حدیث ہی صحیح نہیں تو تائید کیسے ہو گی، اور المقاصد الحسنہ دار الکتاب العربی ص450 میں ایک اور حدیث ہے علامہ ابن عابدین والی روایت موجود ہی نہیں ہے اور ملا علی قاری نے جو بات سخاوی کی عبارت کے بعد کہی ہے وہ درست نہیں ہے۔ ایک متعصب حنفی فاضل عبدالفتاح ابوغدہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کی ایک دوسری کتاب (كتاب الْمَصْنُوع فِي معرفَة الحَدِيث الْمَوْضُوع ) مکتبہ المطبوعات الاسلامیہ بحلب ص169 حاشیہ نمبر2 پر علامہ قاری کی عبارت: (وَإِذَا ثَبَتَ رَفَعَه إِلَى الصدّيق فَيَكْفِي العَمَل بِهِ! لِقَولِهِ عَلَيْهِ الصَّلاَةُ وَالسَّلام: عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْن) پر انتہائی تعجب کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں: (فكان تعقبه لا معني له الا الخطاء اذا لم يصح اسناده الي ابي بكر)کہ اس تعاقب کی غلطی کے سوا کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف اس کی نسبت ہی صحیح نہیں ہے اور ابو غدہ نے طحطاوی کے استدلال کے بارے میں لکھا ہے۔ (هُوَ كَلَامٌ مَرْدُوْدٌ بِمَا قَالَه الحفاظ) اور ملا علی قاری کے بارے میں میں لکھا ہے۔ (يطيب لَهُ فِي كَثِيْرٍ مِنَ التعقبَاتِ حب استدراك ولو بتاويل بَعِيْدٍ لَا يَقُوْمُ عَلَيْهِ دَلِيْل) کہ وہ محض استدراک کے شوق میں بلا دلیل تاویل بعید سے کام لیتے ہیں۔ (ص170) اور علامہ الصباع نے الموضوعات الکبریٰ کے حاشیہ 316 پر لکھا ہے۔ (كَيْفَ يَقُولَ المؤلِّفُ إِذَا ثَبَتَ وَقَدْ ذَكَرَ قَبْلَ قَلِيْل أَنَّهُ لَايَصِحُّ؟) مولف نے (إذاثبت) (جبکہ ثابت ہے) کیسے کہہ دیا حالانکہ وہ تھوڑا سا پہلے خود کہہ چکے ہیں یہ صحیح نہیں ہے اور بقول امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کتاب الفردوس میں، احادیث موضوعہ یعنی من گھڑت احادیث بہت ہیں۔ (منہاج السنہ:3/17) اور حدیث میں سامع کو دردو پڑھنے کا حکم ہے اور وہ بھی اذان کے جواب کے بعد اور ظاہر ہے سامع اذان کا جواب آہستہ دیتا ہے اور درود بھی آہستہ پڑھتا ہے لیکن بعض حضرات نے اس حکم میں مؤذن کو بھی شامل کر لیا ہے اور پھر مؤذن کے لیے اذان سے پہلے اور اذان کے بعد بلند آواز سے درود پڑھنا ثابت کیا ہے۔ اور طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے علامہ سخاوی اور علامہ علائی کی عبارت سے یہ واضح ہو گیا کہ اذان کے بعد صلاۃ و سلام آٹھویں صدی ہجری میں سلطان صلاح الدین ابو المظفر کے حکم سے پڑھنا شروع کیا گیا اور چودھویں صدی کے اخیر سے پانچوں نمازوں کی اذان سے پہلے یا بعد میں صلاوۃ و سلام پڑھا جاتا ہے۔ (شرح صحیح مسلم اردو:1/ 1093، علامہ غلام رسول سعیدی) سوال یہ ہے اگر یہ خیر کا کام ہے جیسا کہ اللہ کے کلام ﴿وَافْعَلُوا الْخَيْرَ﴾ سے اس کو ثابت کیا گیا ہے تو اس خیر کا پتہ 781 ہجری تک کسی صحابی، تابعی یا محدث وامام کو کیوں نہ چل سکا، اور پھر اس کا علم بھی ہوا تو ایک بادشاہ کو، درود وسلام ایک عمل مطلوب ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و عقیدت کا ایک تقاضا اور علامت ہے، سوال اس مخصوص کیفیت و ہئیت کا ہے جس کا ثبوت دین میں نہیں اور اس کے بارے میں قول فیصل، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا فرمان ہے، جس کو خود علامہ سعیدی نے نقل کیا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پہلو میں بیٹھے ہوئے آدمی کو چھینک آئی تو اس نے کہا (الحمدلله والسلام علي رسول الله) ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، میں کہتا ہوں شکر کا حقدار اللہ ہے اور سلامتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھینک کے جواب میں اس طرح تعلیم نہیں دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ ہم کہیں۔ (الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ) اس کے بعد علامہ سعیدی لکھتے ہیں، اس شخص نے جو چھینک کے بعد (الحمدلله والسلام علي رسول الله) کہا تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا تھا اور نہ یہ بات تھی کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض کی بنا پر اس کو چھینک کے بعد درودشریف پڑھنے سے منع کر رہے تھے ان کا مطلب صرف اتنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عبادات جس طرح مشروع اور مقرر فرمائی ہیں ان کو کسی ترمیم اورا ضافہ کے بغیر ادا کرنا اتباع رسول اور جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ وابستگی ہے اور اپنی رائے سے ان میں کسی سابقہ اور لاحقہ کا اضافہ کرنا بہر حال لائق ستائش نہیں۔ (شرح صحیح مسلم اردو:1/ 1095) اور اس سے پہلے یہ تسلیم کر چکے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مدینہ منورہ میں دس سال اذان دی جاتی رہی خلفائے راشدین کے دور میں تیس سال اذان دی جاتی رہی اور سو سال تک عہد صحابہ و تابعین میں اذان دی جاتی رہی اور کسی دور میں بھی اذان سے پہلے یا بعد فصل کر کے جہراً درود شریف نہیں پڑھا گیا۔ اور آٹھ صدیوں تک مسلمان اس طریقہ سے اذان دیتے رہے۔ (1/ 1094) سوال یہ ہے کہ اب اس میں ترمیم واضافہ کی کیوں ضرورت پیش آ گئی ہے اگر اسی طرح نیکی کے نام سے دین میں اضافہ کی اجازت دے دی جائے تو یہ کام کہیں رکنے کا نام نہیں لے گا۔ اور (كل بدعة ضلالة) کا معنی مطلب ہی ختم ہو جائے گا کیونکہ ہر بدعت نیکی کے نام سے ایجاد کی جاتی ہے کوئی کہہ سکتا ہے اذان کہنا دین کا شعار ہے اور دین کے منشور کا اعلان ہے نماز جمعہ کے لیے اجتماع کی خاطر اذان دی جاتی ہے اور عیدین میں اس سے بڑا اجتماع ہوتا ہے لہٰذا اس کے لیے اذان کہنے میں کیا حرج ہے؟ قرآن پڑھنا نیکی کا عمل ہے لہٰذا سری نمازوں میں بلند قرآءت کرنے میں کیا حرج ہے؟ درود شریف پڑھنا پسندیدہ کام ہے تو اس کو نماز کے قیام یا رکوع یا سجدہ میں پڑھنے میں کیا حرج ہے؟ نماز دین کا ستون ہے اور بہت افضل عمل ہے لہٰذا شام کی رکعات چار اور فجر کی بھی چار کرنے میں کیا حرج ہے؟ آپ نے کب کہا ، مغرب کی چاررکعات نہ بنانا ،یا فجر میں اضافہ نہ کرنا، اس طرح نیکی کے نام سے جو چاہو اضافہ کرتے جاؤ اور بطور دلیل کہہ دو، اللہ کا فرمان ہے: ﴿وَافْعَلُوا الْخَيْرَ﴾ نیکی کے کام کرو، خلاصہ کلام یہ ہے کہ دین اس کا نام ہے جو کام آپﷺ نے جیسے کیا ہے اس کو ویسے ہی کیا جائے اس میں اپنی طرف سے کمی و بیشی نہ کی جائے یا کسی عمل کے لیے اپنی طرف سے کوئی مخصوص کیفیت اور شکل ایجاد نہ کی جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Sa'd bin Abu Waqqas reported: The Messenger of Allah (ﷺ) said: If anyone says on hearing the Mu'adhdhin: I testify that there is no god but Allah alone. Who has no partner, and that Muhammad is His servant and His Messenger, (and that) I am satisfied with Allah as my Lord, with Muhammad as Messenger. and with Islam as din (code of life), his sins would be forgiven. In the narration transmitted by Ibn Rumh the words are: "He who said on hearing the Mu'adhdhin and verity I testify." ' Qutaiba has not mentioned his words: "And I."