باب: تشہد (کے الفاظ کہنے) کے بعد نبیﷺ پر درود پڑھنا
)
Muslim:
The Book of Prayers
(Chapter: Sending Salat Upon The Prophet (saws) After The Tashah-hud)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
408.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نےفرمایا: ’’جس نے مجھ پر ایک بار درود بھیجا اللہ تعالیٰ اس پر دس بار رحمت نازل فرمائے گا۔‘‘
انسان اشرف المخلوقات ہے، اگر اب تک میسر سائنسی معلومات کو بنیاد بنایا جائے تو انسان ہی سب سے عقلمند مخلوق ہے جس نے عناصر قدرت سے کام لے کر اپنے لیے قوت و طاقت کے بہت سے انتظامات کر لیے ہیں ۔ اس کے باوجود یہ بہت ہی کمزور ، بار بار مشکلات میں گھر کر بے بس ہو جانے والی مخلوق ہے جو اپنی زندگی کے اکثر معاملات میں دوسروں کی مدد کی محتاج ہے، دوسروں پر انحصار کرتی ہے، اپنے مستقبل کے حوالے سے ہر وقت خدشات کا شکار اور خوفزدہ رہتی ہے۔ ان میں سے جو انسان ایک قادر مطلق پر ایمان سے محروم ہیں، ان میں سے اکثر دوسری ایسی مخلوقات کا سہارا لیتے اور ان کو اپنا محافظ ، اپنا رازق اور خالق سمجھتے اور ان سے مدد کی درخواست کرتے ہیں جو ان کی پہنچ سے دور ہوں یا جن کی اپنی کمزوریوں سے انسان بے خبر ہوں۔ مظاہر فطرت کی پوجا، بتوں کی پوجا، دیوتاؤں اور دیویوں کی پرستش حتی کہ ہاتھیوں، بندروں اور سانپوں کی عبادت کمزور انسان کی خوفزدگی اور اس کی احتیاج کی دلیل ہے۔
اللہ کے بھیجے ہوئے دین نے انسان کو یہ سکھایا کہ جنہیں تم پوجتے ہو وہ بھی تمھاری طرح بلکہ تم سے بڑھ کر کمزور اورمحتاج ہیں ۔ وہ محض ایک ہی ذات ہے جس کے ساتھ کسی کی کوئی شراکت داری نہیں اور وہی ہر شے پر قادر ہے۔ ہر قوت اس کے پاس ہے۔ ہر نعمت کے خزانوں کا مالک وہی ہے۔ اس نے سبھی کو پیدا کیا۔ وہ بھی پیدا ہونے کا یا کسی بھی اور چیز کا محتاج تھانہ آیندہ بھی ہوگا۔ وہ ہماری عبادت کا بھی محتاج نہیں بلکہ ہم ہی اس کے قرب، اس کی رحمت، اس کی مہربانی اور اس کی سخاوت کے محتاج ہیں ۔ اس کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہوجانے سے ہماری کمزوری طاقت میں، ہماری احتیاج فراوانی میں بدل سکتی ہے اور ہمارا خوف عمل سلاتی
کے احساس میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
تمام انبیاء کا مشن یہی تھا کہ انسان اس ابدی حقیقت کو سمجھ لے اور اس قادر مطلق کا قرب حاصل کرنے کے لیے عبادت کاصحیح طریقہ اپنا لے ۔ اس وقت جتنے آسمانی دین موجود ہیں ان میں سب سے مکمل، سب سے خوبصورت اور سب سے آسان طریقہ عبادت وہ ہے جو اسلام نے سکھایا ہے۔ ان اسلامی عبادات میں سے اہم ترین عبادت نماز ہے۔ نماز کا ارادہ کرتے ہی خیر ، برکت اور کسب اعمال صالحہ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ طہارت اور وضو سے انسان ظاہری اور باطنی کثافت اور میل کچیل سے صاف ہو جاتا ہے اور نماز میں داخل ہونے کے ساتھ ہی وہ اللہ کے حضور بازیاب ہو جا تا ہے۔اس عبادت میں بندہ گا ہے اپنے جیسے بہت سے عبادت گزاروں کے ساتھ مل کر جذب و سرمستی میں اللہ کو پکارتا، اس سے حال دل کہتا اور اس کے سامنے زاری کرتا ہے اور گاہے تنہائی کے عالم میں اپنے رب کے سامنے ہوتا ہے اور اس کے ساتھ سرگوشی اور مناجات کرتاہے(1)صحيح مسلم ،المساجد،باب النهى عن البصاق فى المسجد،حديث:1230(551) عبادت کایہ مکمل اورسب سےخوبصورت طریقہ خود الله تبارک و تعالی نے کائنات کے افضل ترین عبادت گزار (عبد) محمد رسول اللہﷺ کو سکھایا اور انھوں نے انسانیت کو اس کی تعلیم دی۔آپ کی نمازکی کیفیتیں کیاتھیں؟ان کی تفصیل صحیح مسلم کی كتاب الصلاة ،كتاب المساجد،كتاب صلاة المسافرين اورمابعدکےابواب میں بالتفصیل مذکور ہے۔ جن خوش نصیب لوگوں نےاس عبادت کاطریقہ براہ راست رسول اللہﷺ سےسیکھا،وہ اس کی لذتوں سےصحیح طورپرآشناتھے،مثلاحضرت انس انہیں یادکرکےبےاختیارکہتےتھے:ماصليت ورآءإمام قط أخف صلاة ولاأتم صلاة من رسولﷺ’’میں کبھی کسی امام کےپیچھےنمازنہیں پڑھی جس کی نمازرسول اللہﷺ کی نمازسےزیادہ ہلکی اورمکمل ترین ہو۔ ‘‘(2)صحيح مسلم،الصلاة،باب أمرالأئمة بتخفيف الصلاةفى تمام، حديث:1054(469)یہ نمازباجماعت کی کیفیت تھی۔ رات کی تنہائیوں میں آپ کی نمازکیسی تھی، حضرت عائشہؓ بتانابھی چاہتی ہیں اوراس سےزیادہ کہہ بھی نہیں سکتیں:يٌصلى أربعافلاتسأل عن حسنهن وطولهن ،ثم يصلى أربعافلاتسال عن حسنهن وطولهن ’’آپ چاررکعتیں پڑھتےاورمت پوچھوکہ ان کی خوبصورتی کیاتھی اورطوالت کتنی تھی،پھرآپ چاررکعتیں ادافرماتے،نہ پوچھوکہ ان کاجمال کیساتھا،کتنی لمبی ہوتی تھیں۔‘‘(3) صحيح مسلم،صلاة المسافرين وقصرها، باب الصلاة الليل ،حديث:1723(738)یہ لذتیں محسوس کی جاسکتی تھیں لیکن زبان ان کےبیان سےقاصرتھی۔ قرآن مجیدنےاس عبادت کاتذکرہ اس طرح کیاکہ اس مشاہدہ کرنےوالےاس کی طرف کھچےچلےآتےتھےاوراس میں مستغرق ہوجاتےہیں: ﴿وَأَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّـهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا﴾ ’’اورجب اللہ کابندہ اس کوپکارنےکھڑاہوا،تووہ اس پرگروہ درگروہ اکٹھےہونےلگے۔ ‘‘الجن19:72)محدثین نے رسول اللہ ﷺ کی نماز کے حوالے سے وہ ساری تفصیلات انتہائی جانفشانی سے جمع کر کے یکجا کر دیں جو صحابہ کرام نے بیان کی تھیں۔ آج اگر ذوق وشوق کی کیفیتوں میں ڈوب کر ان کا مطالعہ کیا جائے تو پورا منظر سامنے آ جاتا ہے، جو حسن و جمال کا بے مثال مرقع ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد فتنوں کا دور آیا۔ بے شمار انسانوں کے عقائد اور اعمال اس کی زد میں آئے منع زکاة، ارتد او،خوارج وغیرہ کے باطل عقائد اسی فتنے کی تباہ کاریوں کے چند پہلو ہیں ۔ اس دور کا مطالعہ کیا جائے تو عبادات اور اعمال میں سہل انگاری، غفلت اور لاپروائی حتی کہ جہالت کی ایسی کیفیتیں سامنے آتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ بنو امیہ کے دور میں نماز جیسے اسلام کے بنیادی رکن کی کیفیت ایسی ہوگئی تھی کہ حضرت انس بنانے اس کے سبب سے باقاعدہ گریہ میں مبتلا ہوجاتے تھے۔ لوگوں اور ان کے حکمرانوں نے اس دور میں اوقات نماز تک ضائع کر دیے تھے۔ امام زہری کہتے ہیں: میں دمشق میں حضرت انس نے کے ہاں حاضر ہوا تو آپ رورہے تھے۔ میں نے پوچھا: کیا بات ہے جو آپ کو رلا رہی ہے؟ فرمایا: میں نے عہد رسالت مآب ﷺ میں جو کچھ دیکھا تھا اس میں نماز ہی رہ گئی تھی، اب یہ بھی نماز بھی ضائع کردی گئی ہے۔ (4) صحيح البخارى ،مواقيت الصلاة ،باب فى تضييع الصلاة عن وقتها، حديث:530)آپ سےنمازکےبارےمیں یہ الفاظ بھی منقول ہیں ،رسول اللہﷺ کےعہدمیں جوکچھ ہوتاتھاان میں سےکوئی چیزنہیں جومیں پہچان سکوں(سب کچھ بدل گیاہے۔)کہاگیا:نماز(توہے!)فرمایاکیااس میں بھی تم نےوہ سب کچھ نہیں کردیاجوکردیاہے۔(1) صحيح البخارى ،مواقيت الصلاة ،باب فى تضييع الصلاة عن وقتها، حديث :529) جامع ترمذی کی روایت کےالفاظ ہیں تم نےاپنی نمازوں میں وہ سب کچھ نہیں کرڈالاجس کاتمھی کوپتہ ہے۔ (2)جامع الترمذى ،صفة القيامة،باب حديث إضاعة الناس الصلاة،حديث2447)ایک اور روایت میں ہے، ثابت بنانی کہتے ہیں : ہم حضرت انس بن مالک کے ساتھ تھے کہ حجاج نے نماز میں تاخیر کر دی،حضرت انس کھڑے ہوئے، وہ اس سے بات کرنا چاہتے تھے، ان کے ساتھیوں نے حجاج سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے انھیں روک دیا تو آپ وہاں سے نکلے ، سواری پر بیٹھے اور راستے میں کہا: رسول اللہﷺ کے عہد مبارک کی کوئی چیز باقی نہیں رہی سوائے لا الہ الا اللہ کی شہادت کے ۔ ایک آدمی نے کہا: ابوحمزه! نماز؟ تو فرمایا تم نے ظہر کی نماز مغرب میں پہنچا دی! کیا رسول اللہ ﷺ کی نماز یہ تھی۔ (3)فتح البارى ،مواقيت الصلاه،باب تضييع الصلاة عن وقتها،حديث:529)حکمرانوں کی جہالت کی وجہ سے خرابی کا یہ سلسلہ بڑھتا گیا اور سوائے چند اہل علم کے باقی لوگ اسی ناقص اور بگاڑی ہوئی نماز کےعادی ہو گئے ۔ حافظ ابن حجر نے امام عبدالرزاق کے حوالے سے مشہور تابعی عطاء کا واقعہ نقل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ولید بن عبد الملک نے جمعے میں تاخیر کی حتی کہ شام ہوگئی، میں آیا اور بیٹھنے سے پہلے ظہر ادا کر لی، پھر اس کے خطبے کے دوران میں بیٹھے ہوئے اشارے سے عصر پڑھی۔ اشارے سے اس لیے کہ عطاء کو خوف تھا کہ اگر انھوں نے کھڑے ہو کر نماز پڑھی تو انھیں قتل کردیا جائے گا۔(4) فتح البارى ،مواقيت الصلاه،باب تضييع الصلاة عن وقتها،حديث:529)اکثر لوگ حکمرانوں کے اس عمل ہی کو اسلام سمجھتے تھے، ان کو اس بات کا احساس تک نہ تھا کہ یہ سب رسول اللہ ﷺکی سنت کے خلاف ہے۔ عام لوگوں کی تو بات ہی کیا ہے حضرت عمر بن عبدالعزیز جیسے عالم کو بھی مدینہ کا گورنر مقرر ہونے تک اصل اوقات نماز کا علم نہ تھا۔ وہ مدینہ کے گورز ہو کر آئے تو ایک دن انھوں نے عصر کی نماز میں تاخیر کر دی۔ عروہ بن زبیر ان کے پاس آئے اور انھیں بتایا کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے، جب وہ عراق میں گورنر تھے، ایک دن نماز میں تاخیر کر دی تو حضرت ابو مسعود انصاری (بدری) آپ کے پاس آئے اور فرمایا: مغیرہ یہ کیا ہے؟ کیا تمھیں معلوم نہیں کہ جبریل نے نازل ہوکر نماز پڑھائی .... .( پانچویں نماز یں، ایک دن ہر نماز کا وقت شروع ہونے پر اور دوسرے دن ہر نماز کے وقت آخر میں پڑھائیں۔) اس پر عمر بن عبدالعزیز نے عروہ سے کہا: دیکھ لو کیا کہہ رہے ہو؟ کیا واقعی جبریل نے رسول اللہﷺ کے لیے نماز کے وقت کی نشاندہی کی ؟ عروہ نے جواب دیا: بشیر بن ابی مسعود اپنے والد (بدری صحابی ابومسعود انصاری) سے اس طرح بیان کرتے تھے۔(5) فتح البارى ،مواقيت الصلاه،باب تضييع الصلاة وفضلها،حديث:521)نماز کے طریقے میں بھی اسی طرح کی تبدیلیاں پیدا ہوگئیں۔ صحابہ کرام اور ان کے شاگردوں نے اس صورت حال کی اصلاح کے لیے جہاد شروع کیا، پھر محدثین نے، جو علم حدیث میں ان ہی کے جانشیں تھے، اس جہاد کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی نماز کی تمام تفصیلات پوری تحقیق اور جستجو کے بعد امت کے سامنے پیش کر دیں اور امت کو رسول اللهﷺ کے اس فرمان مبارک پر کماحقہ عمل کا موقع فراہم کیا کہ «صلوا كما رأيتموني أصلي» تم اسی طرح نماز ادا کرو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘(1)صحيح البخارى ،الأذان،باب الأذان للمسافرين،حديث:631)یہ ایک فطری بات ہے کہ انسان جس صورت میں جس عمل کا عادی ہوتا ہے ہمیشہ اسی کو درست سمجھتا ہے اور ہر صورت میں اس کے دفاع کی کوشش کرتا ہے۔ محدثین کے سامنے بہت بڑا اور كٹھن مشن تھا، انھوں نے نادان حکمرانوں کی سر پرستی میں راسخ شده عادات کے خلاف اتنا مؤثر جہاد کیا کہ اب ان لوگوں کے سامنے، جو عادت کی بنا پر اصرار اور ضد کا شکار نہیں ، رسول اللہ ﷺ کی سنت مبارکہ اور آپ کا منور طر یق عمل روز روشن کی طرح واضح ہے۔امام مسلم نے کتاب الصلاة، کتاب المساجد، کتاب صلاة المسافرین اور بعد کے ابواب میں خوبصورت ترتیب سےصحیح اسناد کے ساتھ رسول اللہﷺ کی نماز کی مکمل تفصیلات جمع کردی ہیں ۔ محدثین کے عظیم الشان کام کے بعد امت کے فقہاء اور علماءکے استنباطات، چاہے وہ جس مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں، محدثین کی بیان کردہ اانہی احادیث کے گرد گھومتے ہیں۔ تمام فقہی اختلافات کے حوالے سے بھی آخری اور حتمی فیصلہ صرف اور صرف وہی ہوسکتا ہے جو رسول اللہ ﷺصادر فرما دیا اور جسے محدثین نے پوری امانت داری سے امت تک پہنچا دیا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نےفرمایا: ’’جس نے مجھ پر ایک بار درود بھیجا اللہ تعالیٰ اس پر دس بار رحمت نازل فرمائے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجے گا، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
1۔ اللہ کے بعد مسلمانوں پر سب سے زیادہ احسان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، جن کے ذریعے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایمان کی دولت ملی اور کامل ضابطہ حیات نصیب ہوا تو جس طرح اللہ تعالیٰ خالق ومالک اور کائنات کا مدبر ومنتظم ہونے کی بنا پر، عبادت اور حمد وتسبیح کا حقدار ہے اس طرح آپﷺ کا ہم پرحق ہے کہ ہم آپﷺ پر درود وسلام بھیج کر، آپﷺ کے لیے اللہ تعالیٰ کی مزید رحمت ورافت اور رفع درجات کی دعا کریں۔ اور یہ درحقیقت آپﷺ کی بارگاہ میں عقیدت ومحبت کا ہدیہ، وفاداری و نیاز کیشی کا نذرانہ اور ممنونیت و سپاس گزاری کا اعتراف ہے۔ ورنہ ظاہر ہے آپﷺ کو ہماری ان دعاؤں کی کیا احتیاج ہے۔ اور ہم جیسے فقیروں اورمسکینوں کے ہدیوں اور تحائف کی کیا ضرورت ہے بلکہ اس دعا گوئی اور اظہار اطاعت کیشی کا سب سے بڑا فائدہ تو خود ہم کو پہنچتا ہے۔ ایک طرف ہمارا ایمانی رابطہ مستحکم ہوتا ہے تو دوسری طرف ہمیں ایک دفعہ کے مخلصانہ درود کے صلہ میں، اللہ تعالیٰ کی کم از کم دس رحمتیں حاصل ہوتی ہیں۔ اور ہمیں اپنی اوقات معلوم ہوتی ہے کہ اگر آپﷺ جیسی مقدس ومحترم ہستی، اللہ کی رحمت وسلامتی کی محتاج ہے اور آپﷺ کا حق اور مقام عالی بس یہی ہے کہ آپﷺ کے واسطے رحمت وسلامتی کی دعائیں کی جائیں، رحمت وسلامتی آپﷺ کے ہاتھ میں نہیں ہے، اور جب آپﷺ کے ہاتھ میں نہیں تو پھر کسی اور مخلوق یا انسان کے ہاتھ میں بھی نہیں ہے۔ کیونکہ ساری مخلوق میں آپﷺ کا مقام سب سے بالا اور برتر ہے، ہر انسان اللہ کے رحمت وسلامتی کا محتاج ہے اور اس کے بغیر کسی ہستی اور مخلوق سے یہ حاصل نہیں ہو سکتی، اس لیے کوئی اس کا شریک وسہیم بھی نہیں ہے۔ 2۔ آل کا مفہوم: عربی زبان اور قرآن وحدیث کے محاورہ کی رو سے کسی شخص کے آل ان کو کہا جاتا ہے، جو اس کے ساتھ خصوصی تعلق وربط رکھتے ہوں، خواہ یہ تعلق نسب اور رشتہ کا ہو یا رفاقت، معیت اور عقیدت ومحبت کا یا اس کی اتباع واطاعت کا، قرآن مجید میں آلِ اِبرَاہِیم، آلِ عِمراَن اور آلِ فِرعَون سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔ 3۔ قرآن مجید میں ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردرود وسلام بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے، لیکن اس میں نماز یا غیر نماز کا تذکرہ نہیں ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ کی حمدوتسبیح کا حکم ہے۔ لیکن نماز یا غیر نماز کا تذکرہ نہیں ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نور نبوت کی روشنی میں حمد وتسبیح کا خاص محل نماز میں بیان فرمایا ہے اس طرح صلاۃ وسلام کے حکم کی تعمیل کا خاص محل وموقع نماز کے تشہد وقعود کو قرار دیا ہے لیکن جیسا کہ تسبیح وتمہید نماز کے ساتھ خاص نہیں ہے اسی طرح درود وسلام بھی نماز کے ساتھ خاص نہیں ہے آگے پیچھے بھی مطلوب ہے۔ 4۔ آخری قعدہ میں درود شریف کے پڑھنے کے بارے میں ائمہ کا اختلاف ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک درود پڑھنا فرض ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہو گی۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور علماء کے نزدیک درود پڑھنا سنت ہے، اگر کسی نے نہ پڑھا تو نماز ہو جائے گی چونکہ سورہ احزاب میں آپﷺ کے لیے صلٰوۃ وسلام بھیجنے کا حکم ہے اور اس کا خاص موقع ومحل نماز ہے اس لیے کم از کم نماز میں تو فرض ہونا چاہیے۔ 5۔ آپﷺ پردرود کو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر درود بھیجنے سے تشبیہ دی گئی ہے، اس پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ ادنیٰ کو اعلیٰ سے تشبیہ دی جاتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم پر درود، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پردرود سے قوی ہے علماء نے اس کے مختلف جواب دیے ہیں آسان جواب یہ ہے کہ تشبیہ صرف نزول رحمت میں ہے، اس کی کیفیت کا لحاظ نہیں ہے۔ ایک چیز میں ایک صفت معروف اورمشہور ہوتی ہے تو دوسری چیز کو اگرچہ اس میں یہ صفت زائد اور قوی ہو پہلی چیز سے تشبیہ دے دی جاتی ہے حالانکہ اس پر یہ صفت کم ہوتی ہے۔جیسا کہ کوئی انسان صفت جود وسخا میں کس قدر بڑھ جائے، اس کو تشبیہ حاتم کے ساتھ ہی دیں گے۔ اس طرح اللہ کے نور کو قرآن مجید میں ایک مخصوص قسم کےچراغ کے ساتھ دی گئی ہے، حالانکہ چہ نسبت خاکہ را بعالم پاک لیکن چونکہ انسانوں میں اس قسم کے چراغ کی روشنی معروف ومشہور تھی اس لیے اس کے ساتھ تشبیہ دے دی گئی اورکَمَا میں کیفیت کا لحاظ نہیں ہوتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: ﴿كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ﴾ تو کیا ہمارے روزوں اور پہلی امتوں کے روزوں کی کیفیت میں یکسانیت ہے؟ 6۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور فقہاء کا قول یہ ہے کہ غیر انبیاء پر استقلالاً درود بھیجنا درست نہیں ہے۔ مثلاً اَبُوْبَکَر عَلَیْهِ الصَّلاَۃ یا عُمَر عَلَیْہِ الصَّلاۃ کہنا درست نہیں۔ اور امام جوینی کا خیال ہے سلام کا بھی یہی حکم ہے اور اس کے جواز کے لیے سورہ توبہ کی آیت: ﴿وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ﴾ یا ﴿هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلائِكَتُهُ﴾ استدلال کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ ان آیات میں یہ لفظ لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے اور کسی کے نام کے ساتھ استعمال کی صورت میں، یہ اصطلاحی معنی میں ہو گا، اور اصطلاحی رو سے یہ اَنبِیَاء عَلَیْہُمُ السَّلاَم کے ساتھ خاص ہے، اس طرح ملاقات کے سلام سے علیہ السلام کے جواز کے لیے استدلال کرنا درست نہیں ہے ورنہ۔ (السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين) کے تحت اور ﴿هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلائِكَتُهُ﴾ کی رو سے صلوۃ وسلام ہر انسان کے لیے عام ہو جائے گا۔ اور اس کی وہ تعظیم وتوقیر قائم نہیں رہے گی جو انبیاء علیہم السلام کے ساتھ مخصوص ہونے کی صورت میں، ان الفاظ کو حاصل ہے۔ اس لیے صلاۃ وسلام کا لفظ انبیاء علیہم السلام کے لیے، رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لفظ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ اگر لغوی معنی کو ملحوظ رکھیں تو پھر ان کا استعمال ہر نیک انسان کے لیے عام ہو جائے گا اور ان کی معنویت ہی ختم ہو جائے گی، ہاں بالطبع ان کا استعمال جائز ہو گا۔ مثلاً اللهم صَلِّ وَسَلَّم عَلٰی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاَصْحَابِهِ وَاَزْوَاجِهِ وَذُرِّيتِهِ اِنَّكَ حمَِيدٌ مَّجِيْد۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported: The Messenger of Allah (ﷺ) said: He who blesses me once, Allah would bless him ten times.