باب: نماز کے دوران میں شیطان پر لعنت بھیجنے ، اس سے پناہ مانگنے اور تھوڑے سے عمل کا جواز
)
Muslim:
The Book of Mosques and Places of Prayer
(Chapter: The permissibility of cursing the Shaitan during prayer, and seeking refuge with Allah from him; and the permissibility of doing a few actions while in salat)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
542.
حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ قیام (کی حالت) میں تھے کہ ہم نے آپﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا: ’’میں تجھ سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔‘‘ پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’میں تجھ پر اللہ کی لعنت بھیجتا ہوں۔‘‘ آپﷺ نے یہ تین بار کہا اور آپﷺ نے اپنا ہاتھ بڑھایا، گویا کہ آپﷺ کسی چیز کو پکڑ رہے ہیں، جب آپﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے پوچھا: اے اللہ کے رسولﷺ! ہم نے آپﷺ کو نماز میں کچھ کہتے سنا ہے جو اس سے پہلے آپﷺ کو کبھی کہتے نہیں سنا اور ہم نے آپﷺ کو دیکھا کہ آپﷺ نے اپنا ہاتھ (آگے) بڑھایا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کا دشمن ابلیس آگ کا ایک شعلہ لے کر آیا تھا تا کہ اسے میرے چہرے پر ڈال دے، میں نے تین دفعہ (اَعُوْذُ بِاللہِ مِنْكَ) ’’میں تجھ سے اللہ کی پنا ہ مانگتا ہوں‘‘ کہا، پھر میں نے تین بار کہا:میں تجھ پر اللہ کی کامل لعنت بھیجتا ہوں۔ وہ پھر بھی پیچھے نہ ہٹا تو میں نے اسے پکڑ نے کا ارادہ کر لیا۔ اللہ کی قسم! اگر ہمارے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا نہ ہوتی تو وہ صبح تک بندھا رہتا اور مدینہ والوں کے بچے اس کے ساتھ کھیلتے۔‘‘
امام مسلم کتاب الصلاۃ میں اذان اقامت اور بنیادی ارکانِ صلاۃ کے حوالے سے روایات لائے ہیں۔ مساجد اور نماز سے متعلقہ ایسے مسائل جو براہ راست ارکانِ نماز کی ادائیگی کا حصہ نہیں نماز سے متعلق ہیں انھیں امام مسلم نے کتاب المساجد میں ذکر کیا ہے مثلاً:قبلۂ اول اور اس کی تبدیلی نماز کے دوران میں بچوں کو اٹھانا‘ضروری حرکات جن کی اجازت ہے نماز میں سجدے کی جگہ کو صاف یا برابر کرنا ‘ کھانے کی موجودگی میں نماز پڑھنا‘بدبو دار چیزیں کھا کر آنا‘وقار سے چلتے ہوئے نماز کے لیے آنا‘بعض دعائیں جو مستحب ہیں حتی کہ اوقات نماز کو بھی امام مسلم نے کتاب المساجد میں صحیح احادیث کے ذریعے سے واضح کیا ہے۔ یہ ایک مفصل اور جامع حصہ ہے جو انتہائی ضروری عنوانات پر مشتمل ہے اور کتاب الصلاۃ سے زیادہ طویل ہے۔
حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ قیام (کی حالت) میں تھے کہ ہم نے آپﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا: ’’میں تجھ سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔‘‘ پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’میں تجھ پر اللہ کی لعنت بھیجتا ہوں۔‘‘ آپﷺ نے یہ تین بار کہا اور آپﷺ نے اپنا ہاتھ بڑھایا، گویا کہ آپﷺ کسی چیز کو پکڑ رہے ہیں، جب آپﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے پوچھا: اے اللہ کے رسولﷺ! ہم نے آپﷺ کو نماز میں کچھ کہتے سنا ہے جو اس سے پہلے آپﷺ کو کبھی کہتے نہیں سنا اور ہم نے آپﷺ کو دیکھا کہ آپﷺ نے اپنا ہاتھ (آگے) بڑھایا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کا دشمن ابلیس آگ کا ایک شعلہ لے کر آیا تھا تا کہ اسے میرے چہرے پر ڈال دے، میں نے تین دفعہ (اَعُوْذُ بِاللہِ مِنْكَ)’’میں تجھ سے اللہ کی پنا ہ مانگتا ہوں‘‘ کہا، پھر میں نے تین بار کہا:میں تجھ پر اللہ کی کامل لعنت بھیجتا ہوں۔ وہ پھر بھی پیچھے نہ ہٹا تو میں نے اسے پکڑ نے کا ارادہ کر لیا۔ اللہ کی قسم! اگر ہمارے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا نہ ہوتی تو وہ صبح تک بندھا رہتا اور مدینہ والوں کے بچے اس کے ساتھ کھیلتے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوالدرداء رضی اللہ تعا لیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو ہم نے آپ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا: میں تجھ سے اللّٰہ کی پناہ میں آتا ہوں۔ پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’میں تجھ پر اللّٰہ کی لعنت بھیجتا ہوں‘‘، تین بار اور آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ بڑھایا گویا کہ آپ ﷺ کسی چیز کو پکڑ رہے ہیں تو جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے ہم نے پوچھا، اے اللّٰہ کے رسول ﷺ! ہم نے آپ ﷺ کو نماز میں کچھ کہتے سنا ہے، ہم نے اس سے پہلے آپ ﷺ کو یہ کلمات کہتے نہیں سنا اور ہم نے آپ ﷺ کو اپنا ہاتھ بڑھاتے دیکھا، آپﷺ نے فرمایا: اللّٰہ کا دشمن ابلیس، آگ کا ایک انگارا لے کر آیا تاکہ میرے چہرے پر ڈال دے تو میں نے تین دفعہ (اَعُوْذُ بِاللہِ مِنْكَ) کہا، پھر میں نے تین دفعہ کہا: ’’میں تجھ پر اللّٰہ کی کامل لعنت بھیجتا ہوں‘‘، وہ پیچھے نہ ہٹا پھر میں نے اس کو پکڑنے کا ارادہ کر لیا، اللّٰہ کی قسم اگر ہمارے بھائی سلیمان عَلیہِ السَّلام کی دعا نہ ہوتی تو وہ صبح تک باندھ دیا جاتا اور اہل مدینہ کے بچے اس کے ساتھ کھیلتے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
(1) ان دونوں حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ جن ایک مستقل اور انسانوں سے الگ مخلوق ہے جیسا کہ جنوں کا وجود قرآن مجید سے بھی ثابت ہے چونکہ جن عام لوگوں کی نگاہوں سے مستور اور مخفی رہتے ہیں اس لیے ان کو یہ نام ملا۔ (2) جنوں کو عام لوگ نہیں دیکھ سکتے اور نہ عام طور پر دیکھا جا سکتا ہے لیکن کبھی کبھار ان کو دیکھنا ممکن ہے جیسا کہ آپﷺ نے جن کو دیکھا اس کا گلا گھونٹا دھکا دیا اور اس کو باندھنے کا ارادہ فرمایا۔ (3) جنات حضرت سلیمان علیہ السلام کی فوج میں داخل تھے اور ان کے بڑے بڑے مشکل اور زور طلب کام کرتے تھے اگر آپﷺ جن کو پکڑ کر ستون کے ساتھ باندھ دیتے تو یہ اشتباہ پیدا ہو سکتا تھا کہ جنوں پر آپﷺ کو بھی قدرت و اقتدار حاصل ہے اس لیے آپﷺ نے اپنے ارادے کو عملی جامہ نہیں پہنایا۔ (4) کسی کو جن اگر تنگ کریں تو وہ ان پر لعنت بھیج سکتا ہے اور نماز میں بھی تَعَوَّذْ (اللہ کی پناہ) لینا جائز ہے جنوں کے حملہ سے محفوظ رہنے کا بہترین طریقہ اللہ تعالیٰ سے پناہ چاہنا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Darda' reported: Allah's Messenger (ﷺ) stood up (to pray) and we heard him say: "I seek refuge in Allah from thee." Then said: "curse thee with Allah's curse" three times, then he stretched out his hand as though he was taking hold of something. When he finished the prayer, we said: Messenger of Allah, we heard you say something during the prayer which we have not heard you say before, and we saw you stretch out your hand. He replied: Allah's enemy Iblis came with a flame of fire to put it in my face, so I said three times: "I Seek refuge in Allah from thee." Then I said three times: "I curse thee with Allah's full curse." But he did not retreat (on any one of these) three occasions. Thereafter I meant to seize him. I swear by Allah that had it not been for the supplication of my brother Sulaiman he would have been bound, and made an object of sport for the children of Madinah.