Muslim:
The Book of Mosques and Places of Prayer
(Chapter: The permissibility of taking one or two steps while praying, and that is not disliked if done for a reason. The permissibility of the Imam praying in a place that is higher than the people praying behind him, if that is done for a reason, such as teaching them how to offer prayers, and other than that)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
544.
عبدالعزیز بن ابی حازم نے اپنے والد سے خبر دی کہ کچھ لوگ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے منبر نبویﷺ کے بارے میں میں بحث کی تھی کہ وہ کس لکڑی سے بنا ہے؟ انھوں (سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے کہا: ہاں! اللہ کی قسم! میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ کس لکڑی کا ہے اور اسے کس نے بنایا تھا۔ رسول اللہ ﷺ جب پہلے دن اس پر بیٹھے تھے، میں نے آپﷺ کو دیکھا تھا۔ میں (ابو حازم) نے کہا: ابو عباس! پھر تو (آپ) ہمیں (اس کی) تفصیل بتائیے۔ انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ایک عورت کی طرف پیغام بھیجا۔ ابو حازم نے کہا: وہ اس دن اس کا نام بھی بتا رہے تھے اور کہا: ’’اپنے بڑھئی غلام کو دیکھو (اور کہو) وہ میرے لیے لکڑیاں (جوڑ کر منبر) بنا دے تا کہ میں اس پر سے لوگوں سے گفتگو کیا کروں۔‘‘ تو اس نے یہ تین سیٹرھیاں بنائیں، پھر رسول للہ ﷺ نے اس کے بارے میں حکم دیا اور اسے اس جگہ رکھ دیا گیا اور یہ مدینہ کے جنگل کے درخت جھاؤ (کی لکڑی) سے بنا تھا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، آپﷺ اس پر کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی، لوگوں نے بھی آپﷺ کے پیچھے تکبیر کہی جبکہ آپﷺ منبر ہی پر تھے، پھر آپﷺ (نے رکوع سے سر اٹھایا) اٹھے اور الٹے پاؤں نیچے اترے اور منبر کی جڑ میں (جہاں وہ رکھا ہوا تھا ) سجدہ کیا، پھر دوبارہ وہی کیا (منبر پر کھڑے ہو گئے) حتی کہ نماز پوری کر کے فارغ ہوئے، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’لوگو! میں نے یہ کام اس لیے کیا ہےتاکہ تم (مجھے دیکھتے ہوئے) میری پیروی کرو اور میری نماز سیکھ لو۔‘‘
امام مسلم کتاب الصلاۃ میں اذان اقامت اور بنیادی ارکانِ صلاۃ کے حوالے سے روایات لائے ہیں۔ مساجد اور نماز سے متعلقہ ایسے مسائل جو براہ راست ارکانِ نماز کی ادائیگی کا حصہ نہیں نماز سے متعلق ہیں انھیں امام مسلم نے کتاب المساجد میں ذکر کیا ہے مثلاً:قبلۂ اول اور اس کی تبدیلی نماز کے دوران میں بچوں کو اٹھانا‘ضروری حرکات جن کی اجازت ہے نماز میں سجدے کی جگہ کو صاف یا برابر کرنا ‘ کھانے کی موجودگی میں نماز پڑھنا‘بدبو دار چیزیں کھا کر آنا‘وقار سے چلتے ہوئے نماز کے لیے آنا‘بعض دعائیں جو مستحب ہیں حتی کہ اوقات نماز کو بھی امام مسلم نے کتاب المساجد میں صحیح احادیث کے ذریعے سے واضح کیا ہے۔ یہ ایک مفصل اور جامع حصہ ہے جو انتہائی ضروری عنوانات پر مشتمل ہے اور کتاب الصلاۃ سے زیادہ طویل ہے۔
عبدالعزیز بن ابی حازم نے اپنے والد سے خبر دی کہ کچھ لوگ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے منبر نبویﷺ کے بارے میں میں بحث کی تھی کہ وہ کس لکڑی سے بنا ہے؟ انھوں (سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے کہا: ہاں! اللہ کی قسم! میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ کس لکڑی کا ہے اور اسے کس نے بنایا تھا۔ رسول اللہ ﷺ جب پہلے دن اس پر بیٹھے تھے، میں نے آپﷺ کو دیکھا تھا۔ میں (ابو حازم) نے کہا: ابو عباس! پھر تو (آپ) ہمیں (اس کی) تفصیل بتائیے۔ انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ایک عورت کی طرف پیغام بھیجا۔ ابو حازم نے کہا: وہ اس دن اس کا نام بھی بتا رہے تھے اور کہا: ’’اپنے بڑھئی غلام کو دیکھو (اور کہو) وہ میرے لیے لکڑیاں (جوڑ کر منبر) بنا دے تا کہ میں اس پر سے لوگوں سے گفتگو کیا کروں۔‘‘ تو اس نے یہ تین سیٹرھیاں بنائیں، پھر رسول للہ ﷺ نے اس کے بارے میں حکم دیا اور اسے اس جگہ رکھ دیا گیا اور یہ مدینہ کے جنگل کے درخت جھاؤ (کی لکڑی) سے بنا تھا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، آپﷺ اس پر کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی، لوگوں نے بھی آپﷺ کے پیچھے تکبیر کہی جبکہ آپﷺ منبر ہی پر تھے، پھر آپﷺ (نے رکوع سے سر اٹھایا) اٹھے اور الٹے پاؤں نیچے اترے اور منبر کی جڑ میں (جہاں وہ رکھا ہوا تھا ) سجدہ کیا، پھر دوبارہ وہی کیا (منبر پر کھڑے ہو گئے) حتی کہ نماز پوری کر کے فارغ ہوئے، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’لوگو! میں نے یہ کام اس لیے کیا ہےتاکہ تم (مجھے دیکھتے ہوئے) میری پیروی کرو اور میری نماز سیکھ لو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عبد العزیزبن ابی ابو حازم رحمتہ اللّٰہ علیہ اپنے باپ کے واسطہ سے بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہ منبر نبویﷺ کے بارے میں جھگڑ رہے تھے کہ وہ کس لکڑی سے بنا ہے؟ تو انہوں نے کہا، ہاں اللّٰہ کی قسم! میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ کس لکڑی کا ہے اور اسے کس نے بنایا ہے اور رسول اللہ ﷺ جب پہلے دن اس پر بیٹھے تھے میں نے آپ ﷺ کو دیکھا تھا، میں (ابو حازم) نے کہا اے ابو عباس! تو ہمیں بتائیے، انہوں نے کہا، رسول اللہ ﷺ نے ایک عورت کی طرف پیغام بھیجا (ابو حازم نے کہا، وہ اس دن اس کا نام بھی بتا رہے تھے)۔ کہ اپنے بڑھئی غلام کو دیکھو (اور کہو) وہ مجھے لکڑیوں کو جوڑ کر (منبر بنا دے) میں ان پر لوگوں سے گفتگو کروں گا تو اس نے تین سیڑھیاں بنائیں، پھر رسول اللہ ﷺ نے اس کے بارے میں حکم دیا اور اسے اس جگہ پر رکھ دیا گیا اور وہ مدینہ کے جنگل کے جھاؤ سے بنا تھا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا اس پر کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی اور لوگوں نے بھی آپﷺ کے پیچھے تکبیر کہی اور آپ ﷺ منبر پر ہی تھے، پھر آپ ﷺ (رکوع سے) اٹھے اور الٹے پاؤں نیچے اترے، حتیٰ کہ منبر کی جڑ میں سجدہ کیا، پھر دوبارہ منبر پر کھڑے ہو گئے، حتیٰ کہ نماز پوری کر کے فارغ ہو گئے، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے لوگو! میں نے یہ کام اس لیے کیا ہے تاکہ تم میری اقتدا کرو اور میری نماز سیکھ لو یا جان لو (اگر (تَعَلَّمُوْا) ہو تو معنی سیکھ لو ہو گا اور اگر (تَعْلَمُوا) ہو تو معنی جان لو ہوگا)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hazim is reported on the authority of his father: Some people came to Sahl bin Sa'd and began to differ about the wood of which the (Prophet's pulpit was made. He (Sahl bin Sa'd) said: By Allah, I know of which wood it is made and who made it, and the day when I saw the Messenger of Allah (ﷺ) seated himself on it on the first day. I said to him: O Abu Abbas (kunyah of Sabl bin Sa'd), narrate to us (all these facts), He said: The Messenger of Allah (ﷺ) sent a person to a woman asking her to allow her slave, a carpenter, to work on woods (to prepare a pulpit) so that I should talk to the people (sitting on it). Abu Hazim said: He (Sahl bin Sa'd) pointed out the name of (that lady) that day. So he (the carpenter) made (a pulpit) with these three steps. Then the Messenger of Allah (ﷺ) commanded it to be placed here (where it is lying now). It was fashioned out of the wood of al-Ghaba. And I saw the Messenger of Allah (ﷺ) (may peace he upon him) standing upon it and glorifying Allah and the people also glorified Allah after him, while he was on the pulpit. He then raised (his head from prostration) and stepped back (on his heels) till he prostrated himself at the base of pulpit, and then returned (to the former place and this movement of one or two steps continued) till the prayer was complete. He then turned towards the people and said: O people, I have done it so that you should follow me and learn (my mode of) prayer.