Muslim:
The Book of Mosques and Places of Prayer
(Chapter: As-Sahw (forgetfulness) in prayer and prostrating to compensate for it)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
576.
حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا کہ آپ ﷺ نے سورۃ النجم کی تلاوت کی اور اس میں سجدہ کیا اور آپﷺ کے ساتھ جتنے لوگ تھے سب نے سجدہ کیا، مگر ایک بوڑھے (امیہ بن خلف) نے کنکریوں یا مٹی کی ایک مٹھی بھر کر اپنی پیشانی سے لگا لی اور کہا: میرے لیے یہی کافی ہے۔ عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے کہا: میں نےبعد میں دیکھا، اسے کفر کی حالت میں قتل کیا گیا۔
امام مسلم کتاب الصلاۃ میں اذان اقامت اور بنیادی ارکانِ صلاۃ کے حوالے سے روایات لائے ہیں۔ مساجد اور نماز سے متعلقہ ایسے مسائل جو براہ راست ارکانِ نماز کی ادائیگی کا حصہ نہیں نماز سے متعلق ہیں انھیں امام مسلم نے کتاب المساجد میں ذکر کیا ہے مثلاً:قبلۂ اول اور اس کی تبدیلی نماز کے دوران میں بچوں کو اٹھانا‘ضروری حرکات جن کی اجازت ہے نماز میں سجدے کی جگہ کو صاف یا برابر کرنا ‘ کھانے کی موجودگی میں نماز پڑھنا‘بدبو دار چیزیں کھا کر آنا‘وقار سے چلتے ہوئے نماز کے لیے آنا‘بعض دعائیں جو مستحب ہیں حتی کہ اوقات نماز کو بھی امام مسلم نے کتاب المساجد میں صحیح احادیث کے ذریعے سے واضح کیا ہے۔ یہ ایک مفصل اور جامع حصہ ہے جو انتہائی ضروری عنوانات پر مشتمل ہے اور کتاب الصلاۃ سے زیادہ طویل ہے۔
حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا کہ آپ ﷺ نے سورۃ النجم کی تلاوت کی اور اس میں سجدہ کیا اور آپﷺ کے ساتھ جتنے لوگ تھے سب نے سجدہ کیا، مگر ایک بوڑھے (امیہ بن خلف) نے کنکریوں یا مٹی کی ایک مٹھی بھر کر اپنی پیشانی سے لگا لی اور کہا: میرے لیے یہی کافی ہے۔ عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے کہا: میں نےبعد میں دیکھا، اسے کفر کی حالت میں قتل کیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے سُورَةُ النَّجْمِ کی تلاوت کی اور اس میں سجدہ کیا اور آپﷺ کے ساتھ تمام حاضرین نے سجدہ کیا، صرف ایک بوڑھے نے کنکریوں یا مٹی کی ایک مٹھ بھر کر اپنی پیشانی سے لگائی اور کہا میرے لیے یہی کافی ہے، عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، میں نے اس کو (یعنی امیہ بن خلف) کفر کی حالت میں قتل ہوتے دیکھا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
1۔عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آغاز میں مشرکین مکہ بھی بعض دفعہ قرآن مجید کی تلاوت سن لیتے تھے۔آپﷺ نے سُوْرَۃُ النَّجْمِ کی تلاوت کی جس میں لات ومنات اور عزی کا تذکرہ ہے تو وہ اس پر بہت شاداں وفرحاں ہوئے اور جب آپﷺ نے آخر میں سجدہ کیا تو امیہ کے سوا تمام موجود مشرکین نے بھی مسلمانوں کے ساتھ سجدہ کیا اور لوگوں میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ مشرکین مکہ مسلمان ہو گئے ہیں۔ 2۔ جس وقت سُوْرَۃُ النَّجْمِ میں آپﷺ نے سجدہ کیا تو تمام حاضرین نے آپﷺ کے ساتھ سجدہ کیا اور یہ ظاہر بات ہے، وہ تمام باوضو نہیں ہوں گے، اس لیے سجدہ تلاوت کے لیے وضو کو لازم ٹھہرانا جب کہ یہ سننے والے کے ذمہ بھی ہے، درست نہیں ہے۔ الا یہ کہ شرط لگائی جائے کہ قرآن مجید کی تلاوت اور سماع وضو کے بغیر نہیں ہو سکتا، حالانکہ زبانی تلاوت بالاتفاق وضو کے بغیر جائز ہے، اختلاف قرآن مجید کو ہاتھ لگا کر پڑھنے کی صورت میں ہے۔ 3۔ سُوْرَۃُ النَّجْمِ سن کر مشرکین مکہ نے کیوں سجدہ کیا؟ تو بقول قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ کے اس کا سبب یہ ہے، یہ قرآن مجید کی پہلی صورت ہے جس میں سجدہ آتا ہے، لیکن سوال یہ ہے اس کا مشرکین پر کیا اثر، صحیح بات یہی ہے کہ وہ اس سورۃ میں اپنے معبودوں کا ذکر سن کر خوش ہوں گے، مزید برآں اس وقت شیطان نے: (تِلْكَ الْغَرَانِيْقُ الْعُـلٰى وَإِنَّ شَفَاعَتُهُنَّ لَتُرْتَجىٰ) کے الفاظ بھی کہہ ڈالےیہ بلند مرتبہ دیویاں ہیں ،جن کی سفارش کی امید کی جاسکتی ہے۔ جیسا کہ علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے طبرانی سے روایت نقل کیا ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ﴿أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّىٰ (19) وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَىٰ﴾ کی تلاوت کی۔ تو: (أَلْقَى الشَّيْطَانُ عِنْدَهَا كلَِمَاتٍ حِيْنَ ذَكَرَ الطَّوَاغِيْتَ) شیطان نے اس وقت بتوں کا تذکرہ کرڈالا۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ان کلمات کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر جاری ہونے کا امکان نہیں ہے۔ نقل وعقل کی کسی رو سے بھی یہ جائز نہیں ہے۔ لیکن شیطان کا ان الفاظ کو کہہ ڈالنا، اس میں ناممکن ہونے والی کوئی بات نہیں ہے۔ اس کی تائید کے لیے تفسیر طبری سورہ حج کی آیات:( 52 تا54) دیکھیے۔ جنگ بدر میں قرآن کی تصریح کے مطابق اس نے مشرکین مکہ کوکہا تھا: ﴿لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ﴾ آج تم پر کوئی لوگ غالب نہیں آسکتے،﴿وَإِنِّي جَارٌ لَّكُمْ﴾ میں تمہارا معاون مددگار ہوں، اس طرح شیطان نے جنگ احد میں بخاری شریف کی روایت کے مطابق، آپس میں ٹکڑا دیا تھا اور خود قرآن مجید میں موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تلاوت فرماتے: ﴿أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آَيَاتِهِ﴾ کہ شیطان اس کی تلاوت میں کچھ ڈالتا ہے، اللہ تعالیٰ شیطان کے ڈالے ہوئے کو ختم کرڈالتا ہے، اور اپنی آیات کو محکم کرتا ہے، آگے فرمایا: ﴿لِّيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ فِتْنَةً لِّلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ﴾ تاکہ اللہ شیطان کے ڈالے ہوئے کو جن کے دلوں میں روگ ہے آزمائش وابتلا کا باعث بنائے۔ اگرشیطان کچھ ڈال نہیں سکتا تو پھر اللہ تعالیٰ دوریا ختم کس چیز کو کرتا ہے اور ا پنی آیات کو محکم کس چیز سے کرتا ہے؟ جن کے دلوں میں بیماری (کفر و نفاق) ہے ان کے لیے امتحان کس چیز کا ہوتا ہے۔ لیکن ان آیات مبارکہ سے یہ چیز بھی ثابت ہو رہی ہے کہ شیطان کے بول سے صرف کافر ومنافق ہی متاثر ہو سکتے ہیں، اس لیے یہ کہنا کہ اس سے توتمام شریعت سے اعتماد اٹھ جائے گا کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ہم تک صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کی روایت سے جو احکام پہنچے ہیں وہ آپﷺ کا فرمان نہ ہوں بلکہ شیطان کا کہا ہوا ہو، بے محل ہے، کیونکہ یہ تو تب ممکن تھا اگر اللہ تعالیٰ اس سے آگاہ نہ فرماتا یا اہل ایمان اس سے متاثر ہو کر اس کو قبول کر لیتے۔ سورۃ حج کی آیات: (52تا54) اس وقت غور سے پڑھ لی جائیں تو بات بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ ان آیات کی تفسیر کے لیے دیکھے۔ (فتح البیان: ج :4 ص 416۔417)۔ علامہ آلوسی نے شیخ ابومنصور ماتریدی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ صحیح بات یہ ہے کہ شیطان نے اپنے زندیق اور بے دین چیلوں کے دلوں میں: (تِلْكَ الْغَرَانِيْقُ الْعُلىٰ) کا وسوسہ ڈالا، تاکہ وہ ضعیف مسلمانوں کو دین کے بارے میں شک وشبہ میں مبتلا کریں۔ (روح المعانی: ج1ص230) امام ابوبکر جصاص حنفی کا قول دیکھئے (احکام القرآن امام جصاص: ج3 ص321) امام ابوبکر العربی مالکی کا قول دیکھیے۔ (احکام القرآن امام ابن العربی: ج3 ص303)(تفسیر الطبری: ج9 ص 178) (مکتبہ دارالکتاب العلمیہ بیروت) ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ کلمات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر جاری نہیں ہوئے۔ (أَنَّ الشَّيْطَانَ أَوْقَعَ فِي مَسَامِعَ الْمُشْرِكِيْنَ ذٰلِكَ مِنْ دُوْنِ أَنْ يَّتَكَلَّمَ بِهِ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) میں نے جو معنی کیا ہےاسے علامہ جریرطبری۔ امام ابوبکر جصاص حنفی۔ امام ابوبکر ابن العربی مالکی۔ حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ابن حجر و حزم نے تسلیم کیا ہے لیکن اکثر ائمہ نے اس واقعہ کو تسلیم نہیں کیا، اس پر کچھ اعتراضات کیے ہیں لیکن ہم تفصیلات میں نہیں جا سکتے۔ اس لیے ان کے جوابات نہیں لکھ سکتے، وہ سب تب وارد ہیں اگر اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ یہ کلمات آپﷺ کی زبان سے جاری ہوئے اور ہم بتا چکے ہیں یہ صورت ناممکن ہے۔ (جدید دور کے کسی محدث یا مفسر نے اس واقعہ کو تسلیم نہیں کیا) جن لوگوں نے تردید کی ہے اس واقعہ کی آپﷺ کی زبان پر جاری کرتے ہیں علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی بنیاد پر اس کی تردید پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdullah (b. 'Umar) reported: The Apostle of Allah (ﷺ) recited (Surat) al Najm and performed prostration during its recital and all those who were along with him also prostrated themselves except one old man who took a handful of pebbles or dust in his palm and lifted it to his forehead and said: This is sufficient for me. 'Abdullah said: 1 saw that he was later killed in a state of unbelief.