باب: فرض نماز باجماعت ادا کرنے اور نماز کا انتظار کرنے کی فضیلت
)
Muslim:
The Book of Mosques and Places of Prayer
(Chapter: The virtue of offering the obligatory prayers in congregation, the virtue of waiting for prayer and taking many steps towards the masjid, the virtue of walking to the masjid)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
649.
ابو معاویہ نے اعمش سے حدیث بیان کی، انھوں نے ابو صالح سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا، کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’آدمی کی باجماعت (ادا کی گئی) نماز اس کی گھر میں یا بازار میں پڑھی ہوئی نماز کی نسبت بیس سے زیادہ درجے بڑھ کر ہے اور وہ یوں کہ جب ان میں سے کوئی وضو کرتا ہے اور اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر مسجد آتا ہے، اسے نماز ہی نے اٹھایا ہے اور نماز کے علاوہ کچھ نہیں چاہتا۔ تو وہ کوئی قدم نہیں اٹھاتا مگر اس کے سبب سے اس کا درجہ بلند کر دیا جاتا ہے اور اس کا ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ مسجد میں داخل ہو جاتا ہے، پھر جب مسجد میں داخل ہو جاتا ہے تو جب تک نماز اسے روکے رکھتی ہے وہ نماز ہی میں ہوتا ہے (اس کے انتظار کا وقت نماز میں شمار ہوتا ہے) اور تم میں سے کوئی شخص جب تک اس جگہ رہتا ہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہے تو فرشتے اس کے حق میں دعا کرتے رہتے ہیں۔‘‘ وہ کہتے ہیں: ’’اے اللہ! اس پر رحم فرما، اے اللہ! اس کی توبہ قبول فرما، جب تک وہ اس جگہ (پر کسی کو) تکلیف نہیں پہنچاتا اور جب تک وہ اس جگہ بے وضو نہیں ہوتا۔‘‘
امام مسلم کتاب الصلاۃ میں اذان اقامت اور بنیادی ارکانِ صلاۃ کے حوالے سے روایات لائے ہیں۔ مساجد اور نماز سے متعلقہ ایسے مسائل جو براہ راست ارکانِ نماز کی ادائیگی کا حصہ نہیں نماز سے متعلق ہیں انھیں امام مسلم نے کتاب المساجد میں ذکر کیا ہے مثلاً:قبلۂ اول اور اس کی تبدیلی نماز کے دوران میں بچوں کو اٹھانا‘ضروری حرکات جن کی اجازت ہے نماز میں سجدے کی جگہ کو صاف یا برابر کرنا ‘ کھانے کی موجودگی میں نماز پڑھنا‘بدبو دار چیزیں کھا کر آنا‘وقار سے چلتے ہوئے نماز کے لیے آنا‘بعض دعائیں جو مستحب ہیں حتی کہ اوقات نماز کو بھی امام مسلم نے کتاب المساجد میں صحیح احادیث کے ذریعے سے واضح کیا ہے۔ یہ ایک مفصل اور جامع حصہ ہے جو انتہائی ضروری عنوانات پر مشتمل ہے اور کتاب الصلاۃ سے زیادہ طویل ہے۔
ابو معاویہ نے اعمش سے حدیث بیان کی، انھوں نے ابو صالح سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا، کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’آدمی کی باجماعت (ادا کی گئی) نماز اس کی گھر میں یا بازار میں پڑھی ہوئی نماز کی نسبت بیس سے زیادہ درجے بڑھ کر ہے اور وہ یوں کہ جب ان میں سے کوئی وضو کرتا ہے اور اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر مسجد آتا ہے، اسے نماز ہی نے اٹھایا ہے اور نماز کے علاوہ کچھ نہیں چاہتا۔ تو وہ کوئی قدم نہیں اٹھاتا مگر اس کے سبب سے اس کا درجہ بلند کر دیا جاتا ہے اور اس کا ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ مسجد میں داخل ہو جاتا ہے، پھر جب مسجد میں داخل ہو جاتا ہے تو جب تک نماز اسے روکے رکھتی ہے وہ نماز ہی میں ہوتا ہے (اس کے انتظار کا وقت نماز میں شمار ہوتا ہے) اور تم میں سے کوئی شخص جب تک اس جگہ رہتا ہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہے تو فرشتے اس کے حق میں دعا کرتے رہتے ہیں۔‘‘ وہ کہتے ہیں: ’’اے اللہ! اس پر رحم فرما، اے اللہ! اس کی توبہ قبول فرما، جب تک وہ اس جگہ (پر کسی کو) تکلیف نہیں پہنچاتا اور جب تک وہ اس جگہ بے وضو نہیں ہوتا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آدمی کا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا اس کے اکیلے گھر میں یا اکیلے بازار میں نماز پڑھنے سے بیس سے زائد درجہ ثواب کا باعث ہے کیونکہ جب کوئی نمازی وضو کرتا ہے اور اچھی طرح وضو کرتا ہے ، پھر وہ مسجد میں آتا ہے اور صرف نماز ہی کی خاطر اٹھتا ہے۔ صرف نماز ہی کا ارادہ کرتا ہے تو وہ جو قدم بھی اٹھاتا ہے، اس کے بدلہ میں اس کا ایک درجہ بلند ہوتا ہے اور ایک گناہ اس کے سبب مٹا دیا جاتا ہے، حتیٰ کہ وہ مسجد میں داخل ہو جاتا ہے، پھر وہ مسجد میں داخل ہو جاتا ہے تو جب تک نماز اس کو روکے رکھتی ہے (نماز کا انتظار کرتا ہے) وہ نماز میں سمجھا جاتا ہے اور تم میں سے کوئی ایک جب تک اپنے نماز پڑھنے والی جگہ میں رہتا ہے فرشتے اس کے حق میں یہ دعا کرتے رہتے ہیں، وہ کہتے ہیں: اے اللہ! اس پر رحم فرما، اے اللہ! اس کو بخش دے، اے اللہ! اس پر نظر رحمت فرما، اس کی توبہ قبول فرما، جب تک وہ تکلیف نہیں پہنچاتا۔ جب تک کوئی نیا کام نہیں کرتا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1)لَايَنْهَزُهُ:اس کو نمازکےسوا کوئی چیزنہیں اٹھاتی، آگے لَايُرِيْدُ إِلَّاالصَّلٰوةَ: اس کی تفسیر وتوضیح ہے کہ وہ صرف نماز ہی کا ارادہ کرتا ہے۔ (2) خُطْوَة:پیش کے ساتھ، قدم۔ (3)خُطْوَة:زبر کے ساتھ، ایک قدم اٹھانا۔ (4) مَالَمْ يُؤْذِ: کی تفسیر ہے مَالَمْ يُحْدِثْ: یعنی ہوا خارج کرکے حاضرین (فرشتوں، انسانوں) کو اذیت وتکلیف پہنچانا، یا اس(مسجد) میں خلاف شریعت کسی حرکت کا ارتکاب کرنا۔
فوائد ومسائل
یہ حدیث پیچھے گزر چکی ہے اور وہاں اس کے فوائد گزر چکے ہیں مقصد یہ ہے کہ دور کی مسافت سے آنے والے نمازی کو قدم زیادہ اٹھانے پڑتے ہیں اس لیے اس کو اجرو ثواب بھی زیادہ ملتا ہے اور انسان جب تک مسجد میں نماز کے انتظار میں بیٹھتا ہے وہ نماز کے حکم میں ہوتا ہے اور فرشتوں کی دعاؤں کا حقدارٹھہرتا ہے اس لیے اس کو مسجد میں ادب و احترام اور وقار کے ساتھ بیٹھنا چاہیے اور کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی چاہیے دوسروں کے لیے تکلیف دہ ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: A man's prayer in congregation is more valuable than twenty degrees and some above them as compared with his prayer in his house and his market, for when he performs ablution doing it well, then goes out to the mosque, and he is impelled (to do so) only by (the love of congregational) prayer, he has no other objective before him but prayer. He does not take a step without being raised a degree for it and having a sin remitted for it, till he enters the mosque, and when he is busy in prayer after having entered the mosque, the angels continue to invoke blessing on him as long as he is in his place of worship. saying: O Allah, show him mercy, and pardon him! Accept his repentance (and the angels continue this supplication for him) so long as he does not do any harm in it, or as long as his ablution is not broken.