باب: مؤذن کے اقامت شروع کر لینے کے بعد نفل کا آغاز کرنا ناپسندیدہ
)
Muslim:
The Book of Prayer - Travellers
(Chapter: It is disliked to start a voluntary prayer after the Mu’adhdhin has started to say Iqamah for prayer, whether that is a regular sunnah, such as the sunnah of Subh or Zuhr, or anything else, and regardless of whether he knows that he will catch up with the rak`ah with the Imam or not)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
712.
حضرت عبداللہ بن سرجس (المزنی حلیف بنی مخزوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک آدمی مسجد میں آیا جبکہ رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز پڑھا رہے تھے، اس نے مسجد کے ایک کونے میں دو رکعتیں پڑھیں، پھر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز میں شریک ہو گیا، جب ر سول اللہ ﷺ نے سلام پھیرا تو فرمایا: ’’اے فلاں! تو نے دو نمازوں میں سے کون سی نماز کو شمار کیا ہے؟ اپنی اس نماز کو جو تم نے اکیلے پڑھی ہے یا اس کو جو ہمارے ساتھ پڑھی ہے؟‘‘
صحیح مسلم کی کتابوں اور ابواب کے عنوان امام مسلمؒ کے اپنے نہیں۔انہوں نے سنن کی ایک عمدہ ترتیب سے احادیث بیان کی ہیں،کتابوں اور ابواب کی تقسیم بعد میں کی گئی فرض نمازوں کے متعدد مسائل پر احادیث لانے کے بعد یہاں امام مسلمؒ نے سفر کی نماز اور متعلقہ مسائل ،مثلاً ،قصر،اور سفر کے علاوہ نمازیں جمع کرنے ،سفر کے دوران میں نوافل اور دیگر سہولتوں کے بارے میں احادیث لائے ہیں۔امام نوویؒ نے یہاں اس حوالے سے کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا کا عنوان باندھ دیا ہے۔ان مسائل کے بعد امام مسلم ؒ نے امام کی اقتداء اور اس کے بعد نفل نمازوں کے حوالے سے احادیث بیان کی ہیں۔آخر میں بڑا حصہ رات کےنوافل۔(تہجد) سے متعلق مسائل کے لئے وقف کیا ہے۔ان سب کے عنوان ابواب کی صورت میں ہیں۔ا س سے پتہ چلتا ہے کہ کتاب صلااۃ المسافرین وقصرھا مستقل کتاب نہیں بلکہ ذیلی کتاب ہے۔اصل کتاب صلاۃ ہی ہے جو اس ذیلی کتاب ہے کے ختم ہونے کے بہت بعد اختتام پزیر ہوتی ہے۔یہ وجہ ہے کہ بعض متاخرین نے اپنی شروح میں اس زیلی کتاب کو اصل کتاب الصلاۃ میں ہی ضم کردیا ہے۔
کتاب الصلاۃ کے اس حصے میں ان سہولتوں کا ذکر ہے۔جو اللہ کی طرف سے پہلے حالت جنگ میں عطا کی گئیں اور بعد میں ان کو تمام مسافروں کےلئے تمام کردیا گیا۔تحیۃ المسجد،چاشت کی نماز ،فرض نمازوں کے ساتھ ادا کئے جانے والے نوافل کے علاوہ رات کی نماز میں ر ب تعالیٰ کے ساتھ مناجات کی لذتوں،ان گھڑیوں میں مناجات کرنے والے بندوں کے لئے اللہ کے قرب اور اس کی بے پناہ رحمت ومغفرت کے دروازے کھل جانے اور رسول اللہ ﷺ کی خوبصورت دعاؤں کا روح پرورتذکرہ،پڑھنے والے کے ایمان میں اضافہ کردیتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن سرجس (المزنی حلیف بنی مخزوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک آدمی مسجد میں آیا جبکہ رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز پڑھا رہے تھے، اس نے مسجد کے ایک کونے میں دو رکعتیں پڑھیں، پھر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز میں شریک ہو گیا، جب ر سول اللہ ﷺ نے سلام پھیرا تو فرمایا: ’’اے فلاں! تو نے دو نمازوں میں سے کون سی نماز کو شمار کیا ہے؟ اپنی اس نماز کو جو تم نے اکیلے پڑھی ہے یا اس کو جو ہمارے ساتھ پڑھی ہے؟‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ کے واسطہ سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن سرجس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ ایک آدمی مسجد میں آیا جبکہ رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز پڑھا رہے تھے تو اس نے مسجد کے ایک کونے میں دو رکعتیں پڑھیں، پھر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز میں شریک ہو گیا جب رسول اللہ ﷺ نے سلام پھیرا تو فرمایا: ’’اے شخص تو نے دو نمازوں میں کون سی نماز کو فرض قرار دیا ہے؟ کیا اس نماز کو جو تو نے اکیلے پڑھی ہے یا اپنی اس نماز کو جو ہمارے ساتھ پڑھی ہے؟۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس باب میں آنے والی حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ جب مؤذن نماز کے لیے اقامت شروع کر دے تو اس کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھی جا سکتی سوائے اس نماز کے جو امام کی اقتدا میں ادا کرنی ہے اقامت کے شروع ہونے کے بعد نفل یا سنت کا آغاز کرنا جمہور کے نزدیک جائز نہیں ہے۔ اور جو نماز وہ پہلے پڑھ رہا ہے تو اگر وہ آخری رکعت کے رکوع سے گزر چکا ہے تو اس کو مکمل کر لے، وگرنہ چھوڑ دے کیونکہ عبد اللہ بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ صبح کی سنتیں پڑھنے والا نماز شروع کر چکا تھا پھر اقامت ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا کیا تم صبح کی چار رکعات پڑھو گے؟ تو گویا اس نے اقامت کے بعد ابھی دونوں رکعتیں پڑھنی تھیں لیکن احناف کے نزدیک چونکہ صبح کی سنتوں کی بہت تاکید کی گئی ہے اس لیے اگر وہ دوسری رکعت میں امام کے ساتھ شامل ہو سکتا ہو تو وہ اقامت کے بعد فجر کی سنتیں پڑھ سکتا ہے لیکن عبداللہ بن سرجس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں صراحتاً اقامت کے بعد صبح کی سنتیں مسجد میں پڑھنے کی ممانعت موجود ہے اس لیے علامہ سعیدی لکھتے ہیں۔ بظاہر اس حدیث سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی تائید ہوتی ہے کیونکہ فجر کی سنتوں کی تاکید بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی اقامت فجر کے وقت سنتیں پڑھنے پر ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے۔ اس لیے اتباع حدیث کا تقاضا یہ ہے کہ اقامت فجر کے وقت سنت پڑھنا شروع نہ کرے (کیونکہ جن کے حکم سے سنتیں پڑھی جاتی ہیں وہ خود منع فرما رہے ہیں) اور اگر سنتیں پہلے سے شروع کی ہوئی ہیں تو جلد ازجلد ختم کر کے جماعت میں شامل ہو جائےعلامہ دشتانی لکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس شخص کو مارتے تھے جو اقامت فجر کے وقت سنتیں پڑھتا تھا کیونکہ سرکار نے اس سے منع کیا ہے۔ (صحیح مسلم ج2ص:421) مزید لکھتے ہیں: یہ انتہائی غلط طریقہ مروج ہے کہ مسجد میں فجر کی جماعت کھڑی ہوتی ہے اور لوگ جماعت کی صفوں سے متصل کھڑے ہو کر سنتیں پڑھنا شروع کر دیتے ہیں اس میں ایک خرابی یہ ہے کہ امام بآواز بلند قرآن پڑھ رہا ہے جس کا سننا فرض ہے اور سنتوں میں مشغول شخص اس فرض کو ترک کر رہا ہے دوسری خرابی یہ ہے کہ سنتوں میں مشغول شخص بظاہر فرض اور جماعت سے اعراض کر رہا ہے اور تیسری خرابی یہ ہے کہ اس کا یہ عمل اس باب کی احادیث کی مخالفت کو مستلزم ہے۔ (ج2ص:421)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdullah bin Sarjis reported: A person entered the mosque, while the Messenger of Allah (ﷺ) was leading the dawn prayer. He observed two rak'ahs in a corner of the mosque, and then joined the Messenger of Allah (ﷺ) in prayer. When the Messenger of Allah (ﷺ) had pronounced salutations (he had concluded the prayer), he said: O, so and so, which one out of these two prayers did you count (as your Fard prayer), the one that you observed alone or the prayer that you observed with us?