Muslim:
The Book of Prayer - Travellers
(Chapter: The prayer and the supplication of the Prophet (saws) at night)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
769.
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ابو زہیر سے، انھوں نے طاؤس سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب رات کی آ خری تہائی میں نماز کے لئے اٹھتے تو فرماتے: ’’اے اللہ! تمام تعریف تیرے ہی لئے ہے، تو آسمانوں اور زمین کا نور ہے اور تیرے ہی لئے حمد ہے تو آسمانوں اور زمین کو قائم رکھنے والا ہے اور تیرے ہی لئے حمد ہے تو آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان میں ہے تو پالنے والا ہے۔ اور تو برحق ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تیرا قول اٹل ہے اور تیرے ساتھ ملاقات قطعی ہے اور جنت حق ہے اور جہنم حق ہے اور قیامت حق ہے۔اے اللہ میں نے اپنے آپ کو تیرے سپرد کر دیا اور میں تجھ پر ایمان لایا اور میں نے تجھ پر توکل اور بھروسہ کیا اور تیری طرف رجوع کیا اور تیری توفیق سے (تیرے منکروں سے) جھگڑا کیا اور تیرے ہی حضور فیصلہ لایا (تجھے ہی حاکم تسلیم کیا) تو بخش دے وہ گناہ جو میں نے پہلے کیے اور جو بعد میں کئے اور جو چھپ کر کئے اور جو ظاہراً کیے تو ہی میرا معبود ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘
صحیح مسلم کی کتابوں اور ابواب کے عنوان امام مسلمؒ کے اپنے نہیں۔انہوں نے سنن کی ایک عمدہ ترتیب سے احادیث بیان کی ہیں،کتابوں اور ابواب کی تقسیم بعد میں کی گئی فرض نمازوں کے متعدد مسائل پر احادیث لانے کے بعد یہاں امام مسلمؒ نے سفر کی نماز اور متعلقہ مسائل ،مثلاً ،قصر،اور سفر کے علاوہ نمازیں جمع کرنے ،سفر کے دوران میں نوافل اور دیگر سہولتوں کے بارے میں احادیث لائے ہیں۔امام نوویؒ نے یہاں اس حوالے سے کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا کا عنوان باندھ دیا ہے۔ان مسائل کے بعد امام مسلم ؒ نے امام کی اقتداء اور اس کے بعد نفل نمازوں کے حوالے سے احادیث بیان کی ہیں۔آخر میں بڑا حصہ رات کےنوافل۔(تہجد) سے متعلق مسائل کے لئے وقف کیا ہے۔ان سب کے عنوان ابواب کی صورت میں ہیں۔ا س سے پتہ چلتا ہے کہ کتاب صلااۃ المسافرین وقصرھا مستقل کتاب نہیں بلکہ ذیلی کتاب ہے۔اصل کتاب صلاۃ ہی ہے جو اس ذیلی کتاب ہے کے ختم ہونے کے بہت بعد اختتام پزیر ہوتی ہے۔یہ وجہ ہے کہ بعض متاخرین نے اپنی شروح میں اس زیلی کتاب کو اصل کتاب الصلاۃ میں ہی ضم کردیا ہے۔
کتاب الصلاۃ کے اس حصے میں ان سہولتوں کا ذکر ہے۔جو اللہ کی طرف سے پہلے حالت جنگ میں عطا کی گئیں اور بعد میں ان کو تمام مسافروں کےلئے تمام کردیا گیا۔تحیۃ المسجد،چاشت کی نماز ،فرض نمازوں کے ساتھ ادا کئے جانے والے نوافل کے علاوہ رات کی نماز میں ر ب تعالیٰ کے ساتھ مناجات کی لذتوں،ان گھڑیوں میں مناجات کرنے والے بندوں کے لئے اللہ کے قرب اور اس کی بے پناہ رحمت ومغفرت کے دروازے کھل جانے اور رسول اللہ ﷺ کی خوبصورت دعاؤں کا روح پرورتذکرہ،پڑھنے والے کے ایمان میں اضافہ کردیتا ہے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ابو زہیر سے، انھوں نے طاؤس سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب رات کی آ خری تہائی میں نماز کے لئے اٹھتے تو فرماتے: ’’اے اللہ! تمام تعریف تیرے ہی لئے ہے، تو آسمانوں اور زمین کا نور ہے اور تیرے ہی لئے حمد ہے تو آسمانوں اور زمین کو قائم رکھنے والا ہے اور تیرے ہی لئے حمد ہے تو آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان میں ہے تو پالنے والا ہے۔ اور تو برحق ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تیرا قول اٹل ہے اور تیرے ساتھ ملاقات قطعی ہے اور جنت حق ہے اور جہنم حق ہے اور قیامت حق ہے۔اے اللہ میں نے اپنے آپ کو تیرے سپرد کر دیا اور میں تجھ پر ایمان لایا اور میں نے تجھ پر توکل اور بھروسہ کیا اور تیری طرف رجوع کیا اور تیری توفیق سے (تیرے منکروں سے) جھگڑا کیا اور تیرے ہی حضور فیصلہ لایا (تجھے ہی حاکم تسلیم کیا) تو بخش دے وہ گناہ جو میں نے پہلے کیے اور جو بعد میں کئے اور جو چھپ کر کئے اور جو ظاہراً کیے تو ہی میرا معبود ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب آدھی رات کو نماز کے لئے اٹھتے تو فرماتے: ’’اے اللہ! تو ہی حمد کاحقدار ہے، تو ہی آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اور تو ہی شکر کا مستحق ہے تو آسمانوں اور زمین نگران ہے اور تیرے ہی لئے حمد ہے تو آسمانوں اور زمین کا (اور جو کچھ ان میں ہے) ان کا مالک ہے، اور تو برحق ہے، اور تیرا وعدہ شدنی ہے اور تیرا قول اٹل ہے اور تیری ملاقات قطعی ہے اور جنت موجود ہے اور آگ موجود ہے، اور قیامت واقع ہو کر رہے گی، اے اللہ! میں نے اپنے آپ کو تیرے سپرد کر دیا، اور تجھ ہی پر میں ایمان لایا، اور تجھ ہی پر میں نے اعتماد اور بھروسہ کیا، اور تیری ہی طرف رجوع کیا اور تیر ی ہی توفیق سے تیرے منکروں سے جھگڑا کیا، اور تیرے ہی حضور میں فیصلہ لایا، یعنی تجھے ہی حکم تسلیم کیا، تو میرے اگلے پچھلے، چھپے اور کھلے گناہ بخش دے تو ہی میرا الہ ہے تیرے سوا کوئی الہ نہیں ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) نُوْرُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ: آسمان و زمین تجھ ہی سے منور اور روشن ہے۔ اور تیرے نور ہی سے آسمان و زمین والے ہدایت و راہنمائی حاصل کر رہے ہیں، اور تیرے ہی نور سے آسمان و زمین کی ہر چیز اپنی ذمہ داری سے عہدہ بر آ ہو رہی۔ (2) قَيَّامُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ: آسمان و زمین کو تو ہی قائم رکھے ہوئے ہے تو ہر چیز کا نگہبان اور محافظ ہے اور آسمان و زمین تیرے ہی زیر انتظام چل رہے ہیں۔ (3) رَبُّ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ: رب کا معنی ہوتا ہے جس کی بات مانی جائے، جو ہر چیز کی ضرورت و حاجت کو پورا کرے یعنی مشکل اور حاجت روا ہو، آقا و مالک اور منتظم و مدبِّر ہو یعنی ہر چیز کا تو ہی مالک و آقا ہے۔ اور ہر جگہ تیری فرمانروائی ہے اور تو ہی ہر چیز کی ضروریات پوری کر رہا ہے۔ (4) اَنْتَ الْحَقُّ: حق کا استعمال مختلف معانی کے لیے ہوتا ہے جو چیز اپنے ظہور اور وجود کے لحاظ سے بالکل واضح اور بیِّن ہو اس کو بھی حق کہتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ کو حق کہا گیا۔ یہ اور جس کا واقع ہونا قطعی اور یقینی ہو، یعنی جو چیز شدنی ہو اس کو بھی حق کہتے ہیں، اس لیے قیامت اور اللہ کی ملاقات کو حق کہا گیا ہے، اور جس کے وجود اور تحقق میں کسی قسم کا شک و شبہ نہ ہو وہ بھی حق ہے۔ اس لیے اللہ کے وعدے اور جنت و دوزخ کو حق کہا گیا ہے، اور جو چیز جھگڑے اور اختلاف کے درمیان قول فیصل کی حیثیت رکھتی ہے اس کو بھی حق کہتے ہیں، اس لیے اللہ کے قول اور قرآن کو حق کہا گیا ہے۔ باطل کے مقابلہ میں بھی یہ لفظ آتا ہے، اور غایت و مقصد کے لیے بھی، اس لیے آسمان و زمین کی تخلیق کو بالحق قرار دیا گیا ہے۔ (5) لَكَ اَسْلَمْتُ: اسلام کا معنی ہے، اپنے آپ کو کسی کے حوالہ اور سپرد کر دینا، سرتسلیم خم کر دینا، اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا۔ (6) اِلَيْكَ اَنَبْتُ: انابت، رجوع اور واپسی کو کہتے ہیں، یعنی میں نے ہر امر و معاملہ میں تیری طرف ہی رجوع کیا، اور تیری ہی طرف متوجہ ہوا۔ (7) بِكَ خَاصَمْتُ: تیرے مخالفین و منکرین سے تیرے ہی عطاء کردہ دلائل و براہین اور قوت و طاقت سے مقابلہ کیا۔ (8) اِلَيْكَ حَاكَمْتُ: میں ہر فیصلہ تیری ہی عدالت میں لایا، تجھے ہی حکم و فیصل تسلیم کیا، تیرے سوا کسی کو بھی حکم نہیں مانا، اور جب میں ہر اعتبار اور ہر حیثیت سے تیرا ہوں تو تو ہی میرے ہر قسم کے قصور اور کوتاہیاں معاف فرما۔ کیونکہ تو ہی میرا معبود اور اِلٰہ ہے۔ (9) مَا قَدَّمْتُ وَمَا اَخَّرْتُ: جو اس وقت کر چکا ہوں یا آئندہ مجھ سے صادر ہوں گے یا جو کام بعد میں کرنا چاہیے تھا، وہ میں نے پہلے کر دیا اور جو پہلے کرنا چاہیے تھا اس کو مؤخّر کر دیا، پس تقدیم اور تاخیر کی کوتاہی کو معاف فرما۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn Abbas (RA) reported that when the Messenger of Allah (ﷺ) got up during the night to pray, he used to say: O Allah, to Thee be the praise Thou art the light of the heavens and the earth. To Thee be the praise; Thou art the Supporter of the heavens and the earth. To Thee be the praise; Thou art the Lord of the heavens and the earth and whatever is therein. Thou art the Truth; Thy promise is True, the meeting with Thee is True. Paradise is true, Hell is true, the Hour is true. O Allah, I submit to Thee; affirm my faith in Thee; repose my trust in Thee, and I return to Thee for repentance; by Thy help I have disputed; and to Thee I have come for decision, so forgive me my earlier and later sins, the sins that I committed in secret and openly. Thou art my God. There is no god but Thee.