Muslim:
The Book of Prayer - Travellers
(Chapter: It is recommended to recite for a long time in the night prayers)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
772.
عبداللہ بن نمیر، ابو معاویہ اور جریر سب نے اعمش سے، انھوں نے سعد بن عبیدہ سے، انھوں نے مستورد بن احنف سے، انھوں نے صلہ بن زفر سے اور انھوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا، انھوں نے کہا: ایک رات میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، آپﷺ نے سورہ بقرہ کا آغاز فرمایا، میں نے (دل میں ) کہا: آپﷺ سو آیات پڑھ کر رکوع فرمائیں گے مگر آپﷺ آگے بڑھ گئے میں نے کہا: آپﷺ اسے (پوری) رکعت میں پڑھیں گے، آپﷺ آگے پڑھتے گئے، میں نے سوچا، اسے پڑھ کر رکوع کریں گے مگر آپﷺ نے سورہ نساء شروع کردی، آپﷺ نے وہ پوری پڑھی، پھر آپﷺ نے آل عمران شروع کر دی، اس کو پورا پڑھا، آپﷺ ٹھہر ٹھہر کر قرائت فرماتے رہے جب ایسی آیت سے گزرتے جس میں تسبیح ہے تو(سُبْحَانَ اللہ) کہتے اور جب سوال (کرنے والی آیت) سے گزرتے (پڑھتے) تو سوا ل کرتے اور جب پناہ مانگنے والی آیت سے گزرتے تو ( اللہ سے) پناہ مانگتے، پھر آپﷺ نے ر کوع فرمایا اور (سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيْم) کہنے لگے، آپﷺ کا رکوع (تقریباً) آپﷺ کے قیام جتنا تھا۔ پھر آپﷺ نے (سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ) کہا: پھر آپﷺ لمبی دیر کھڑے رہے، تقریباً اتنی دیر جتنی دیر رکوع کیا تھا ، پھر سجدہ کیا اور (سُبْحَانَ رَبِّيَ الْاَعْلٰي) کہنے لگے اور آپﷺ کا سجدہ (بھی) آپﷺ کے قیام کے قریب تھا۔ جریر کی روایت میں یہ اضافہ ہےکہ آپﷺ نے کہا: (سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ) یعنی (رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ) کا اضافہ ہے۔)
صحیح مسلم کی کتابوں اور ابواب کے عنوان امام مسلمؒ کے اپنے نہیں۔انہوں نے سنن کی ایک عمدہ ترتیب سے احادیث بیان کی ہیں،کتابوں اور ابواب کی تقسیم بعد میں کی گئی فرض نمازوں کے متعدد مسائل پر احادیث لانے کے بعد یہاں امام مسلمؒ نے سفر کی نماز اور متعلقہ مسائل ،مثلاً ،قصر،اور سفر کے علاوہ نمازیں جمع کرنے ،سفر کے دوران میں نوافل اور دیگر سہولتوں کے بارے میں احادیث لائے ہیں۔امام نوویؒ نے یہاں اس حوالے سے کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا کا عنوان باندھ دیا ہے۔ان مسائل کے بعد امام مسلم ؒ نے امام کی اقتداء اور اس کے بعد نفل نمازوں کے حوالے سے احادیث بیان کی ہیں۔آخر میں بڑا حصہ رات کےنوافل۔(تہجد) سے متعلق مسائل کے لئے وقف کیا ہے۔ان سب کے عنوان ابواب کی صورت میں ہیں۔ا س سے پتہ چلتا ہے کہ کتاب صلااۃ المسافرین وقصرھا مستقل کتاب نہیں بلکہ ذیلی کتاب ہے۔اصل کتاب صلاۃ ہی ہے جو اس ذیلی کتاب ہے کے ختم ہونے کے بہت بعد اختتام پزیر ہوتی ہے۔یہ وجہ ہے کہ بعض متاخرین نے اپنی شروح میں اس زیلی کتاب کو اصل کتاب الصلاۃ میں ہی ضم کردیا ہے۔
کتاب الصلاۃ کے اس حصے میں ان سہولتوں کا ذکر ہے۔جو اللہ کی طرف سے پہلے حالت جنگ میں عطا کی گئیں اور بعد میں ان کو تمام مسافروں کےلئے تمام کردیا گیا۔تحیۃ المسجد،چاشت کی نماز ،فرض نمازوں کے ساتھ ادا کئے جانے والے نوافل کے علاوہ رات کی نماز میں ر ب تعالیٰ کے ساتھ مناجات کی لذتوں،ان گھڑیوں میں مناجات کرنے والے بندوں کے لئے اللہ کے قرب اور اس کی بے پناہ رحمت ومغفرت کے دروازے کھل جانے اور رسول اللہ ﷺ کی خوبصورت دعاؤں کا روح پرورتذکرہ،پڑھنے والے کے ایمان میں اضافہ کردیتا ہے۔
عبداللہ بن نمیر، ابو معاویہ اور جریر سب نے اعمش سے، انھوں نے سعد بن عبیدہ سے، انھوں نے مستورد بن احنف سے، انھوں نے صلہ بن زفر سے اور انھوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا، انھوں نے کہا: ایک رات میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، آپﷺ نے سورہ بقرہ کا آغاز فرمایا، میں نے (دل میں ) کہا: آپﷺ سو آیات پڑھ کر رکوع فرمائیں گے مگر آپﷺ آگے بڑھ گئے میں نے کہا: آپﷺ اسے (پوری) رکعت میں پڑھیں گے، آپﷺ آگے پڑھتے گئے، میں نے سوچا، اسے پڑھ کر رکوع کریں گے مگر آپﷺ نے سورہ نساء شروع کردی، آپﷺ نے وہ پوری پڑھی، پھر آپﷺ نے آل عمران شروع کر دی، اس کو پورا پڑھا، آپﷺ ٹھہر ٹھہر کر قرائت فرماتے رہے جب ایسی آیت سے گزرتے جس میں تسبیح ہے تو(سُبْحَانَ اللہ) کہتے اور جب سوال (کرنے والی آیت) سے گزرتے (پڑھتے) تو سوا ل کرتے اور جب پناہ مانگنے والی آیت سے گزرتے تو ( اللہ سے) پناہ مانگتے، پھر آپﷺ نے ر کوع فرمایا اور (سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيْم) کہنے لگے، آپﷺ کا رکوع (تقریباً) آپﷺ کے قیام جتنا تھا۔ پھر آپﷺ نے (سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ) کہا: پھر آپﷺ لمبی دیر کھڑے رہے، تقریباً اتنی دیر جتنی دیر رکوع کیا تھا ، پھر سجدہ کیا اور (سُبْحَانَ رَبِّيَ الْاَعْلٰي) کہنے لگے اور آپﷺ کا سجدہ (بھی) آپﷺ کے قیام کے قریب تھا۔ جریر کی روایت میں یہ اضافہ ہےکہ آپﷺ نے کہا: (سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ) یعنی (رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ) کا اضافہ ہے۔)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
امام صاحب مختلف اساتذہ سے روایت کرتے ہیں، حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنی شروع کی، آپﷺ نے سورہ بقرہ پڑھنی شروع کردی، میں نے دل میں سوچا، آپﷺ سو آیات پڑھ کر رکوع فرمائیں گے، مگر آپﷺ نے اس کے بعد قرأت جاری رکھی، میں نے سوچا، آپﷺ پوری سورت ایک رکعت میں پڑھیں گے، لیکن آپﷺ پڑھتے رہے، میں نے سوچا، آخر میں رکوع کریں گے، مگر آپﷺ نے سورہ نساء شروع کر دی، آپﷺ نے وہ پوری پڑھ ڈالی، پھر آل عمران شروع کر دی، اس کو پورا پڑھ ڈالا۔ آپﷺ ٹھہر ٹھہر کر قرأ ت فرماتے رہے، جب تسبیح والی آیت سے گزرتے تو (سُبْحَانَ اللہ) کہتے اور جب سوال والی آیت سے گزرتے (پڑھتے) تو سوا ل کرتے اور جب تعوذ(اللہ سے پناہ مانگنا) والی آیت سے گزرتے تو اللہ سے پناہ مانگتے، پھر آپﷺ نے ر کوع کیا اور مسلسل (سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيْم) کہتے رہے،اور آپﷺ کا رکوع آپﷺ کے قیام کے قریب تھا۔ پھر آپﷺ نے (سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ) کہا، پھر آپﷺ نے طویل قیام کیا،جو رکوع کے برابر تھا، پھر سجدہ کیا اور (سُبْحَانَ رَبِّيَ الْاَعْلٰي) کہتے رہے اور آپﷺ کا سجدہ آپﷺ کے قیام کے قریب تھا۔ اور جریر کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ آپﷺ نے کہا (سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ) یعنی (رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ) کا اضافہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ رات کی نماز میں قراءت طویل فرماتے تھے اور قیام کی طوالت کے ساتھ ، رکوع، قومہ اور سجدہ بھی قیام کی طرح لمبا کرتے اور اس میں تسبیحات کا تکرار فرماتے قراءت آہستہ آہستہ ٹھہرٹھہر کر فرماتے مزید برآں آیات کے مفہوم ومعنی کے مطابق جہاں تسبیح کی ضرورت ہوتی، وہاں (سُبْحَانَ اللہ) کہتے جہاں اللہ تعالیٰ سے مانگنے کی ضرورت ہوتی وہاں سوال کرتے اور جہاں اللہ تعالیٰ سے تعوذ سے پناہ طلب کرنے کی ضرورت ہوتی، وہاں تعوذ فرماتے۔ اس طرح قیام مزید طویل ہو جاتا اور حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نماز میں سورتوں کی ترتیب سے پڑھنا ضروری نہیں ہے کیونکہ آپﷺ نے آل عمران سے پہلے نساء پڑھی ہے۔ حالانکہ آل عمران پہلے ہے اور سورہ نساء بعد میں ہے۔ جولوگ نماز میں سورتوں کو ترتیب سے پڑھنا واجب قرار دیتے ہیں ان کی بات حدیث کے خلاف ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Hudhaifa reported: I prayed with the Apostle of Allah (ﷺ) one night and he started reciting al-Baqarah. I thought that he would bow at the end of one hundred verses, but he proceeded on; I then thought that he would perhaps recite the whole (surah) in a rak'ah, but he proceeded and I thought he would perhaps bow on completing (this surah). He then started al-Nisa', and recited it; he then started Al-i-'Imran and recited leisurely. And when he recited the verses which referred to the Glory of Allah, he glorified (by saying Subhan Allah-Glory to my Lord the Great), and when he recited the verses which tell (how the Lord) is to be begged, he (the Holy Prophet) would then beg (from Him), and when he recited the verses dealing with protection from the Lord, he sought (His) protection and would then bow and say: Glory be to my Mighty Lord; his bowing lasted about the same length of time as his standing (and then on returning to the standing posture after ruku') he would say: Allah listened to him who praised Him, and he would then stand about the same length of time as he had spent in bowing. He would then prostrate himself and say: Glory be to my Lord most High, and his prostration lasted nearly the same length of time as his standing. In the hadith transmitted by Jarir the words are:" He (the Holy Prophet) would say:" Allah listened to him who praised Him, our Lord, to Thee i the praise."