باب: اس خاص گھڑی کے بارے میں جو جمعہ کے دن میں ہوتی ہے
)
Muslim:
The Book of Prayer - Friday
(Chapter: The (special) time that occurs on Friday)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
853.
ابو بردہ بن ابی مو سیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روا یت ہے کہا: مجھ سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا: کیا تم نے اپنے والد کو جمعے کی گھڑی کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے حدیث بیان کرتے ہو ئے سنا ہے؟ کہ کہا: میں نے کہا: جی ہاں میں نے انھیں یہ کہتے سنا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپﷺ فرما رہے تھے: ’’یہ امام کے بیٹھنے سے لے کر نماز مکمل ہو نے تک ہے۔‘‘
یہ کتاب بھی کتاب الصلاۃ ہی کا تسلسل ہے۔ ہفتے میں ایک خاص دن کا بڑا اجتماع،نماز اور خطبہ ،جمعہ کہلاتا ہے ۔اس خصوصیت نماز کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو خاص دن مقرر فرمایا اس کی اہمیت کے بہت سے پہلو ہیں یہ انسانیت کےآغازسے لے کر انجام تک کے اہم واقعات کادن ہے ۔اللہ نے اسے باقی دنوں پر فضیلت دی اوراس میں ایک گھڑی ایسی رکھ دی جس میں کی گئی دعا کی قبولیت کاوعدہ کیاگیا ہے۔یہ ہفتہ وار اجتماعی تعلیم اور تذکیر کے حوالے سے خاص اہمیت رکھتاہے۔
امام مسلمؒ نے اس اجتماع میں حاضری کے خصوصی آداب ،صفائی،ستھرائی اور خوشبو کے استعمال سے کتاب کا آغازکیا ہے۔پھر توجہ سے خطبہ سننے کے بارے میں احادیث لائے ہیں۔اس اہم دن کی نماز اور خطبے کےلئے جلدی آنے،اس کی ادائیگی کابہترین وقت،دو خطبوں اور نماز کی ترتیب،دنیا کے کام چھوڑ کر اس میں حاضر ہونے،اس کے ساتھ امام کی طرف سے بھی اختصار ملحوظ رکھنے اور واضح اور عمدہ خطبہ دینے کی تلقین پر احادیث پیش کیں۔اس کے بعد احادیث کے ذریعے سے جمعہ کی نماز کا طریقہ واضح کیاگیا ہے،اسی کتاب میں جمعہ کی نماز فجر میں قراءت ،تحیۃ المسجد اورجمعہ کے بعد کی نماز کا بیان بھی آگیا ہے۔جمعہ کے حوالے سے یہ ایک جامع کتاب ہے۔اس میں درج احادیث مبارکہ سے اس کی اہمیت وفضیلت بھی ذہن نشین ہوتی ہے اور اس کی روحانی لذتوں کا لطف بھی دوبالا ہوجاتاہے۔
ابو بردہ بن ابی مو سیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روا یت ہے کہا: مجھ سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا: کیا تم نے اپنے والد کو جمعے کی گھڑی کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے حدیث بیان کرتے ہو ئے سنا ہے؟ کہ کہا: میں نے کہا: جی ہاں میں نے انھیں یہ کہتے سنا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپﷺ فرما رہے تھے: ’’یہ امام کے بیٹھنے سے لے کر نماز مکمل ہو نے تک ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو مو سیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے ابو بردہ کی روایت ہے کہ مجھ سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا: کیا تم نے اپنے باپ سے جمعہ کی ساعت کے بارے میں حدیث سنی ہے ؟ میں نے کہا: ہاں میں نے انسے یہ کہتے سنا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ’’یہ امام کے بیٹھنے سے لے کر نماز کے پڑھنے تک ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
ساعت جمعہ کے بارے میں بہت اختلافات ہیں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے چالیس سے زائد اقوال نقل کیے ہیں۔ لیکن صحیح ترین قول دو ہیں جو احادیث سے ثابت ہیں ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ساعت امام کے منبر پر بیٹھنے سے لے کر نماز کے اختتام تک ہے اور مسند احمد اور سنن میں مختلف صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عصر کے بعد ہے اس لیے بعض نے مسلم شریف کی روایت کو ترجیح دی ہے اور اکثریت کے نزدیک یہ عصر کے بعد ہے حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے دلائل سے ترجیح عصر کے بعد کی ساعت کو دی ہے لیکن یہ لکھا ہے کہ لوگوں کے اجتماع، ان کی نماز، ان کی اللہ کے حضور عاجزی اور تضرع اور گڑگڑانا کو بھی دعا کی قبولیت میں داخل ہے۔ اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ا پنی امت کو ان دونوں اوقات میں دعا اور اللہ کے سامنے گڑگڑانے کی ترغیب دی ہے۔ اور اس کا شوق و آمادگی دلائی ہے۔ لیکن یہ دونوں اوقات ایسے ہیں کہ ان میں انسان نماز نہیں پڑھ سکتا۔ اس لیے قَائِمٌ یُّصَلي، کھڑا ہوکر نماز پڑھتا ہے میں تاویل کی ضرورت ہے اس کا یا تو یہ معنی کرنا ہوگا کہ قیام سے مراد مواظبت اور پابندی ہے اور صلوۃ سے مراد دعا ہے کہ وہ دعا پر مواظبت اور پابندی کرتا ہے یا انتظار صلوۃ مراد ہوگا کہ وہ نماز کا منتظر ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس ساعت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ جمعہ کے دن کی آخری ساعت ہے۔ میں نے اعتراض کیا: (وَتِلْكَ السَّاعَةُ لَا يُصَلَّى فِيْهَا) اس گھڑی میں نماز نہیں پڑھی جاتی تو انہوں نے جواب دیا کہ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ جو انسان نماز کے انتظار میں بیٹھا ہے۔ (فَهُوَ فِي صَلَاةٍ) وہ نماز ہی پڑھ رہا ہے۔ تو میں نے کہا، ہاں، انہوں نےکہا، بس یہی بات ہے، اور ابن ماجہ کی روایت میں یہ ہے کہ یہ سوال حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا تو آپﷺ نے انہیں یہ جواب دیا تھا، خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ ساعت توعصر کے بعد ہی ہے لیکن مطلوب دونو، جگہ دعا کرنا ہے اور اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ خطبہ کے دوران دعا مانگنا انصات اورخاموشی کے منافی نہیں ہے۔ (کیونکہ علامہ شامی کے بقول تو یہ ساعت امام کے منبر پر بیٹھنے سے لے کر فراغت نماز تک ہے (شرح صحیح مسلم ،علامہ سعیدی ،ج2 ص 648)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Burda bin Abu Musa al-Ash'ari reported: 'Abdullah bin 'Umar (RA) said to me: Did you hear anything from your father narrating something from the Messenger of Allah (ﷺ) about the time on Friday? I said: Yes, I heard him say from the Messenger of Allah (ﷺ) (these words):" It is between the time when the Imam sits down and the end of the prayer."