سورج یا چاند کوگرہن لگنا انسانوں کے لئے غیر معمولی اور بہت بڑا واقعہ ہے سورج اور چاند دن اور رات میں روشنی کا منبع ہیں۔زمین پر رہنے والےتمام جانداروں،خصوصاًانسانوں کاجسمانی نظام اس طرح بنا ہواہے کہ ان کے پروگرام کا بنیادی اوراہم حصہ سورج نکلنے اور غروب ہونے یا دن اوررات کے ساتھ وابستہ ہے۔دیکھنا،رنگوں کی پہچان،سونا جاگنا،نشاط کار اورارتکاز توجہ وغیرہ کا تعلق دن اور رات کی تقسیم کے ساتھ جڑا ہواہے جب گرہن لگتاہے تو تمام جانداروں کے جسمانی نظام اس کے مطابق تبدیل ہوتے ہیں۔جدید سائنسی تحقیقات بتاتی ہیں کہ جب مکمل سورج گرہن ہوتا ہے تو رات کو سو جانےوالے جانوروں پر نیند طاری ہوجاتی ہے،پرندے بھی بے حس وحرکت ہوجاتے ہیں۔وہ جاندار جن کا جسمانی پروگرام دن کو سونے اور رات کو جاگنے کے لئے ہے وہ نیند سے بیدا ہوجاتے ہیں اور کچھ دیر بعد سورج گرہن زائل ہونے پرپریشان اور"Confuse"ہوجاتے ہیں۔انسانوں کے جسمانی پروگرام پر بھی ان کے اثرات مرتب ہوتے ہیں،سائنس یہ کہتی ہے کہ سورج گرہن کے موقع پر بسا اوقات"سائے کی پٹیاں"(Shadow bands)سامنےآجاتی ہیں۔ابتداء میں یہ زمین پربچھی ہوئی نظر آتی ہیں،پھر یہ رینگتی ہوئی نظر آتی ہیں،ایسا لگتا ہے کہ وہ تمہاری طرف بڑھی چلی آرہی ہیں،انسانوں کے لئے ان کو دیکھنا ایک خوف پیدا کرنے والا تجربہ ہوتاہے ان کے بارے میں(Draco Report) کی چند سطور کا ترجمہ یہ ہے۔"چاہے آپ کو معلوم ہو کہ اس کی حقیقت کیا ہے،یہ ایک خوفزدہ کردینے والا تجربہ ہوسکتا ہے۔آپ کا جسم اس کےبارے میں اپنی رائے رکھتا ہے کہ کیا ٹھیک ہے(اور کیا غلط) زمین پر آپ کی طرف رینگتی ہوئی پٹیاں اس کے لئے قابل قبول نہیں۔۔۔چاہے آپ کا دماغ کہہ رہا ہو کہ سب کچھ ٹھیک ہے،پھر بھی آپ کا جسم یہی چاہے گا کہ وہ وہاں سے بھاگ جائے اور کہیں چھپ جائے۔"
سورج گرہن،سورج اور زمین کے درمیان چاند کے حائل ہونے سے اور چاند گرہن،سورج اور چاند کے درمیان زمین حائل ہونے سے پیدا ہوتا ہے۔یہ ان سیاروں کی غیر معمولی پوزیشن ہے۔بعض مواقع پر چاند عام معمول کی نسبت زمین سے زیادہ قریب ہوتاہے۔اور بعض مواقع پر عام معمول سے زیادہ سورج کے قریب ہوجاتا ہے،قرآن مجید نے قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی بتائی ہے۔کہ چاند کو گرہن لگے گا،اس کے بعد ایسی پوزیشن پر آئے گا کہ سورج اور چاند ایک ہوجائیں گے۔کہکشاؤں میں ایسا ہوتا رہتاہے۔بڑے سیارے بے نور ہونے کے بعد ارد گرد کے نسبتاً چھوٹے سیاروں کو نگلنا شروع کردیتے ہیں۔قرآن کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے۔کہ گرہن کے موقع پر ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیوں جلدی سے نماز شروع کردیتے،یہ موقع قیامت کے قیام کے موقع سے بے حد مشابہت رکھتاہے۔یہ صرف اس حوالے سے خوف کا موقع نہیں کہ سائے کی پٹیاں رینگتی ہوئی لگتی ہیں بلکہ اس وجہ سے خوف کا سبب ہے کہ یہی کیفیت قیامت برپا ہونے کے وقت ہوگی۔رسول اللہ ﷺ گرہن شروع ہوتے ہی نماز کسوف شروع کرتے۔اس کی ادائیگی کا طریقہ بھی دوسری تمام نمازوں سے مختلف ہے۔امام مسلم ؒ نے اس کتاب میں جو احادیث بیان کیں ان میں نماز کسوف کا خاص طریقہ بھی ہے کہ اس میں سجود سے پہلے بار بار قیام اور رکوع ہوتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے کسوف کی نمازوں کے ساتھ دعاؤں اور ذکر ونصیحت کو بھی شامل کیا،نماز کسوف کے دوران میں آپ کو ان امور غیبیہ کا مشاہدہ کرایاگیا جو ہمارے ایمان کا حصہ ہیں۔آپ نے اپنے اس مشاہدے سے بھی اُمت کو آگاہ کیا،گرہن کا مشہور ترین موقع اس دن تھا۔جب آپ ﷺ کے فرزند حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہوا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر یہ بات اچھی طرح سے واضح فرمائی کہ سورج اور چاند کو کسی کی موت کی بناء پر گرہن نہیں لگتا۔یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔قرآن مجید نے بھی وضاحت سے یہی بتایا ہے کہ رات دن اور سورج چاند اللہ کی نشانیاں ہیں۔"اور اسی (اللہ) کی نشانیوں میں سے رات اور دن اور سورج اور چاند بھی ہیں۔"(حٰم السجدۃ۔41:37)إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ "بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے اختلاف میں عقل مندوں کے لئے نشانیاں ہیں۔"(آل عمران۔190۔3)وَخَسَفَ الْقَمَرُ ﴿٨﴾ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ "اور چاند بے نور ہوجائے گا۔اور جمع کردیئے جائیں گے سورج اور چاند۔"(القیامۃ۔75: 9،8) انسانی زندگی کےساتھ ان کے تعلق پر غور کرنے والا اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہتا کہ خالق کائنات علیم حکیم بھی ہے۔اور قادر مطلق بھی۔اللہ تعالیٰ اپنی نشانیوں کے زریعے سے اپنے بندوں کے دلوں میں خوف پیدا فرماتا ہے۔جو انسان کے سیدھے راستے پر رہنے،اللہ کی اطاعت اور اس کی نافرمانی سے بچنے میں ممدومعاون ثابت ہوتا ہے۔
غیر معمولی واقعہ ہونے کی وجہ سے قدیم زمانے میں انسان،گرہن کے معاملے میں بہت سے توہمات کا شکار رہا ہے۔یہ توہم بہت اہم رہا کہ کسی عظیم ہستی کی موت پر سورج یا چاند کو گرہن لگ جاتاہے۔
(1) لغوی طور پر کسف، انکسف اور خسف احادیث کی رو سے ہم معنی ہیں اور شمس و قمر دونوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں اگرچہ بعض نے (فقہاء نے) شمس کے لیے کسوف اور قمر کے لیے خسوف کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ کسوف کا معنی سیاہی مائل ہونا ہے اور خسوف کا کم ہونا گھٹنا، ان کی روشنی مکمل طور پر بھی ختم ہو سکتی ہے جزوی طور پر بھی۔ (2) اہل ہئیت کے نزدیک عام طور پر سورج کو گہن 28،29 قمری تاریخ کو لگتا ہے اور چاند کو 13،14 قمری تاریخ کو اور اصولی طورپر ہر چھ ماہ بعد سورج کو گرہن لگنا ممکن ہے اور قاضی محمد سلیمان منصور پوری نے اپنے چھوٹے بھائی وکیل صاحب یعنی قاضی عبدالرحمٰن کے حوالہ سے جو علم ہئیت کے بہت بڑے ماہر تھے۔ یہ لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیس سالہ دور نبوت میں 19 دفعہ کسوف شمس ہوا ہے اور بقول بعض خسوف قمر صرف دو دفعہ اور بقول امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ آپ نے 5 ہجری میں نماز خسوف قمر پڑھی ہے اور سورج گرہن پہلی دفعہ 9 اپریل 609ء بمطابق 28 ربیع الآخر 40 میلادنبوی میں اور آخری 27 جنوری 632ء بمطابق 29 شوال 10 ہجری بروزسوموار اور ہندوستان میں اس وقت 28 شوال تھا۔ اور یہ وہ دن ہے جس میں آپﷺ کے لخت جگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وفات ہوئی ہے اور بقول بعض اس وقت دن کے ساڑھے آٹھ بجے تھے۔ اس طرح ہجرت کے بعد سورج کو گرہن دس دفعہ لگا لیکن گرہن لگنے سے اس کا ہر جگہ نظر آنا ضروری نہیں ہے، اس لیے نماز خسوف میں اختلاف ہے، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک صلاۃ الکسوف دو رکعتیں طویل قیام طویل رکوع اور طویل سجود کے ساتھ ہیں اور ہر رکعت میں دو رکوع اور سجدے ہیں۔ (3) اور پہلے رکوع سے اٹھ کر فاتحہ پڑھ کر قرآءت شروع کی جائے گی اور احناف کے نزدیک صلاۃ الکسوف بھی عام نوافل کی طرح ہیں یعنی ایک رکعت میں ایک ہی رکوع ہے لیکن صحیح مسلم کی روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ آپﷺ نے ایک رکعت میں بعض دفعہ دو بعض دفعہ تین اور بعض دفعہ چار رکوع کیے اور سنن ابی داؤد رحمۃ اللہ علیہ میں پانچ رکوع بھی آئے ہیں اس لیے امام اسحق رحمۃ اللہ علیہ، ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ اور ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم کے نزدیک تمام صورتیں جائز ہیں اور بقول امام نووی رحمۃ اللہ علیہ دلیل کی رو سے یہی مذہب قوی ہے اگر صلاۃ کسوف میں تکرار ثابت ہو جائے، جیسا کہ کسوف کی کثرت کا اور حدیثوں کے اختلاف کا تقاضا ہے تو اس صورت میں تمام صورتوں کے جواز میں کوئی کلام نہیں ہے۔ لیکن اگر نماز میں تکرار ثابت نہ ہو جیسا کہ آئمہ اربعہ کا موقف تو پھر احادیث کو ایک دوسرے پر ترجیح دئیے بغیر چارہ نہیں ہے، جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ایک رکعت میں صرف دو رکوع والی روایات ہی مختلف صحابہ سے لائے ہیں لیکن اس صورت میں بلا وجہ صحیح احادیث کو راجح اور مرجوح قرار دینا پڑے گا۔ (4) امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک صلاۃ الکسوف سنت مؤکدہ ہے اور احناف کے مختلف اقوال ہیں۔ واجب، سنت مؤکدہ، سنت غیرہ مؤکدہ اورامام ابو عوانہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک واجب ہے اور یہی دلیل کا تقاضا ہے۔ (5) شوافع کے نزدیک صلاۃ الکسوف کے لیے کوئی وقت متعین نہیں ہے۔ کیونکہ سورج کے گرہن لگنے کا کوئی متعین وقت نہیں ہے اس لیے جب سورج گہنائےگا اس وقت نماز پڑھی جائے گی اور یہی صحیح موقف ہے احناف اور حنابلہ کے نزدیک اوقات کراہت میں نماز نہیں پڑھی جائے گی۔ اور مالکیہ کے نزدیک اس کا وقت چاشت سے لے کر سورج ڈھلنے تک ہے۔ (6) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں سورج کو آخری گہن اس وقت لگا جس دن آپﷺ کے شیر خوار صاحبزادے ابراہیم علیہ السلام تقریباً ڈیڑھ سال کی عمر کے تھے اور عربوں میں زمانہ جاہلیت کے توہمات میں سے ایک وہم و خیال یہ بھی تھا کہ بڑے لوگوں کی موت و حیات پر سورج کو گہن لگتا ہے اور آپﷺ کے صاحبزادے کی وفات کے دن سورج کے گہن میں آ جانے سے اس توہم پرستی اور غلط عقیدہ کو تقویت پہنچ سکتی تھی اور بعض لوگوں نے اس کا اظہار بھی کیا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقعہ پر غیر معمولی خشیت اور انتہائی فکر مندی کا اظہار کیا۔ لوگوں کو خصوصی طورپر صلاۃ کسوف کے لیے مسجد میں الصلاۃ جامعۃ کے الفاظ کے ذریعہ جمع کیا اور نماز میں آپ نے قیام رکوع اور سجدے بھی بہت طویل کیے۔ اثنائے نماز میں دعا بھی بہت اہتمام اور ابہتال کے ساتھ کی نماز کے بعد خطبہ دیا اور اس میں خصوصی طور پر اس خیال کی پرزور تردید کی کہ سورج یا چاند کو گہن کسی بڑے آدمی کی حیات یا موت کی وجہ لگتا ہے یہ تو دراصل اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، قدرت اور صنعت اس کی سطوت وہیبت اور اس کے جلال و جبروت کی نشانی ہے جس کا مقصد لوگوں کو ان کے گناہوں اور جرائم سے باز رکھنا ہے کہ اس ذات کی پکڑ سے بچو جو سورج اور چاند کو بھی بے نور کر سکتا ہے۔ جن کی روشنی سے دنیوی زندگی کا کاروبار چل رہا ہے۔ اس لیے آپﷺ خطبہ میں توبہ و استغفار اور صدقہ و خیرات کرنے کی تلقین فرماتے اور آپﷺ نے فرمایا: (يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهَا عِبَادَهُ) ’’اس کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈرتا ہے‘‘