Muslim:
The Book of Prayer - Funerals
(Chapter: Crying for the deceased)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
922.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: جب ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہوئے، میں نے (دل میں) کہا: پردیسی، پردیس میں (فوت ہو گیا) میں اس پر ایسا روؤں گی کہ اس کا خوب چرچا ہو گا، چنانچہ میں نے اس پر رونے کی تیاری کر لی کہ اچانک بالائی علاقے سے ایک عورت آئی، وہ (رونے میں) میرا ساتھ دینا چاہتی تھی کہ اسے سامنے سے رسول اللہ ﷺ مل گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم شیطان کو اس گھر میں (دوبارہ) داخل کرنا چاہتی ہو۔ جہاں سے اللہ نے اس کو نکال دیا ہے؟‘‘ دوبار (آپ ﷺ نے یہ کلمات کہے) تو میں ر ونے سے رک گئی اور نہ روئی۔
دنیا میں انسانی زندگی کے ہر مرحلے کی طرح آخری مرحلے کے لئے بھی اسلام انتہائی عمدہ رہنمائی عطا کرتاہے مقصود یہ ہے کہ مراحل باوقار،عمدہ اور حرمت انسانی کے لئے شایان شان طریقے سے ادا ہوں۔جو مومن رخصت ہورہا ہے،اسے محبت اور احترام سے اللہ کی رحمت کےسائے میں روانہ کیا جائے۔وہ اس کائنات کی سب سےبڑی سچائی"لاالٰہ الا اللہ" کی گواہی دیتا ہوا جائے۔پھر جب روح چلی جائے تو جسم کو بھی پاکیزگی کے عالم میں خوشبوؤں میں بسا کر،دعاؤں کےسائے میں اسی زمین کی گود کے سپرد کیا جائےجس سے اس جسم کی تخلیق ہوئی تھی۔ساتھ چلنے والے ایسا کوئی کام نہ کریں جو جانے والے یا خود ان کے اپنے شایان شان نہ ہو۔اس کی اچھی یادوں کو دہرائیں،اس کی خوبیاں بیان کریں،مرنے کے بعد دوسرے انسانوں کے سامنے جھوٹےتکبر،غرور، برتری اور ریاکاری کا کوئی مظاہرہ سامنےنہ آئے اور غم واندوہ کے مناسب وقفے کے بعد پسماندگان باوقار طریقے سے اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں مصروف ہوجائیں۔جہاں جانے والا گیا ہے،وہیں کے سفر کی تیاری کریں۔زندگی میں ان کےٹھکانوں کی زیارت کرکےان کے لئے دعائیں کی جائیں اور اپنی منزل کی یاد تازہ رکھی جائے۔دنیا کے کسی مذہب نے موت کے سفر کے لئے ایسے بامقصد،خوبصورت اور سادگی سے معمور طریقوں کی تعلیم نہیں دی۔اسلام کے سکھائے ہوئے طریقے ہر اعتبار سے متوازن،آسان اور باوقار ہیں۔انسانی جثے کو نہ تو درندوں اور پرندوں کے لئے کھلا چھوڑنے کی اجازت ہے۔نہ دوبارہ عناصر فطرت کا حصہ بنانے کے لئے ظالمانہ طریقے سے آگ میں بھسم کرنے کی ضرور ت ہے،نہ فراعنہ کی طرح مرے ہوئے کی لاش کے ساتھ ہزاروں معصوم انسانوں کو قتل کرکے بطور خدم وچشم ہمراہ بھیجنے کی گنجائش ہے،نہ لاکھوں انسانوں کو مجبور کرکے قبروں کے لئے اہرام یا زمین دوز محلات تعمیر کرنے کا کوئی تصور ہے۔اور نہ دنیا بھر کے خزانوں کو لاشوں کے ساتھ زمین دوز کرنے کا۔اسلام نے اس حوالے سے بہت بڑی حقیقت کو بہت سادہ انداز میں سمجھا دیا ہے۔مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ "اسی(مٹی) سے ہم نے تمھیں پیدا کیا اور اسی میں تمھیں لوٹائیں گے اور اسی سے تمھیں ایک بار اور نکالیں گے۔"(طہٰ۔20:55)امام مسلم ؒ نے کتاب الجنائز میں،جانے والے(قریب المرگ) کو کلمے کی تلقین،اس کی عیادت اور اس کےلئے آسانیوں سے آغاز کیا ہے۔پھر صدمے کو برداشت کرنے کے طریقے،صبروبرداشت،نالہ وشیون اور شور غوغا سے پرہیز کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات تفصیل سے بیان کی ہیں۔پھر میت کے غسل،خوشبو لگانے،اور تکفین کا ذکرہے،پھر نماز جنازہ کے حوالے سے مفصل رہنمائی ہے۔جو جنازہ نہ پڑھ سکے اس کے لئے قبر پر جنازہ پڑھنے کا موقع موجود ہے۔میت اور قبر کے احترام کو ملحوظ رکھنے کے لئے مفصل ہدایات ہیں،پھر قبر بنانے اور بعد از تدفین قبروں پر جا کر فوت ہونے والوں کے لئے دعائیں کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے ۔الغرض دنیوی زندگی کے آخری مرحلے کا کوئی پہلو تشنہ باقی نہیں چھوڑا۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: جب ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہوئے، میں نے (دل میں) کہا: پردیسی، پردیس میں (فوت ہو گیا) میں اس پر ایسا روؤں گی کہ اس کا خوب چرچا ہو گا، چنانچہ میں نے اس پر رونے کی تیاری کر لی کہ اچانک بالائی علاقے سے ایک عورت آئی، وہ (رونے میں) میرا ساتھ دینا چاہتی تھی کہ اسے سامنے سے رسول اللہ ﷺ مل گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم شیطان کو اس گھر میں (دوبارہ) داخل کرنا چاہتی ہو۔ جہاں سے اللہ نے اس کو نکال دیا ہے؟‘‘ دوبار (آپ ﷺ نے یہ کلمات کہے) تو میں ر ونے سے رک گئی اور نہ روئی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، جب ابوسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وفات پا گئے، تو میں نے دل میں سوچا: پردیسی،پردیس میں فوت ہوگیا، میں اس پر اتنا روؤں گی کہ اس کا چرچا ہو گا، اس لیے میں نے اس پر رونے اور گریہ کرنے کی تیاری کرلی کہ اچانک مدینہ کے بالائی علاقے سے میرا ساتھ دینے اور مجھے مدد دینے کے لیے ایک عورت آئی، اور اسے سامنے رسول اللہ ﷺ مل گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تم یہ چاہتی ہو کہ جس گھر سے اللہ تعالی نے شیطان کو نکال دیا ہے اس میں شیطان کو پھر سے داخل کر دو؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو بار فرمایا، تو میں ر ونے سے رک گئی اور نہ روئی۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس رونے سے مراد بین کرنا نوحہ کرنا ہے جس میں چیخنا چلایا جاتا ہے اور سینہ کوبی ہوتی ہے اور سراور رخسار پیٹے جاتے ہیں۔ سر خاک ڈالی جاتی ہے اور گریبان چاک کیا جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Umm Salamah reported: When Abu Salama died I said: I am a stranger in a strange land; I shall weep for him in a manner that would be talked of. I made preparation for weeping for him when a woman from the upper side of the city came there who intended to help me (in weeping). She happened to come across the Messenger of Allah (ﷺ) and he said: Do you intend to bring the devil into a house from which Allah has twice driven him out? I (Umm Salamah), therefore, refrained from weeping and I did not weep.