باب: آرام پانےوالا اور جس سے دوسرے آرام پائیں ‘ان کےبارے میں کیا کہا گیا؟
)
Muslim:
The Book of Prayer - Funerals
(Chapter: What was narrated concerning one who finds relief and one from whom relief is found)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
950.
امام مالک بن انس نے محمد بن عمرو بن حلحلہ سے، انھوں نے معبد بن کعب بن مالک سے اور انھوں نے حضرت قتادہ بن ربعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، وہ حدیث بیان کر رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’آرام پانے والا ہے یا اس سے آرام ملنے والا ہے۔‘‘ انھوں (صحابہ) نے پو چھا: اے اللہ کے رسول ﷺ! آرام پانے والا یا جس سے آرام ملنے والا ہے سے کیا مراد ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا: ’’بندہ مومن دنیا کی تکالیف سے آرام پاتا ہے اور فاجر بندے (کے مرنے ) سے لو گ، شہر، درخت اور حیوانات آرام پاتے ہیں۔‘‘
دنیا میں انسانی زندگی کے ہر مرحلے کی طرح آخری مرحلے کے لئے بھی اسلام انتہائی عمدہ رہنمائی عطا کرتاہے مقصود یہ ہے کہ مراحل باوقار،عمدہ اور حرمت انسانی کے لئے شایان شان طریقے سے ادا ہوں۔جو مومن رخصت ہورہا ہے،اسے محبت اور احترام سے اللہ کی رحمت کےسائے میں روانہ کیا جائے۔وہ اس کائنات کی سب سےبڑی سچائی"لاالٰہ الا اللہ" کی گواہی دیتا ہوا جائے۔پھر جب روح چلی جائے تو جسم کو بھی پاکیزگی کے عالم میں خوشبوؤں میں بسا کر،دعاؤں کےسائے میں اسی زمین کی گود کے سپرد کیا جائےجس سے اس جسم کی تخلیق ہوئی تھی۔ساتھ چلنے والے ایسا کوئی کام نہ کریں جو جانے والے یا خود ان کے اپنے شایان شان نہ ہو۔اس کی اچھی یادوں کو دہرائیں،اس کی خوبیاں بیان کریں،مرنے کے بعد دوسرے انسانوں کے سامنے جھوٹےتکبر،غرور، برتری اور ریاکاری کا کوئی مظاہرہ سامنےنہ آئے اور غم واندوہ کے مناسب وقفے کے بعد پسماندگان باوقار طریقے سے اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں مصروف ہوجائیں۔جہاں جانے والا گیا ہے،وہیں کے سفر کی تیاری کریں۔زندگی میں ان کےٹھکانوں کی زیارت کرکےان کے لئے دعائیں کی جائیں اور اپنی منزل کی یاد تازہ رکھی جائے۔دنیا کے کسی مذہب نے موت کے سفر کے لئے ایسے بامقصد،خوبصورت اور سادگی سے معمور طریقوں کی تعلیم نہیں دی۔اسلام کے سکھائے ہوئے طریقے ہر اعتبار سے متوازن،آسان اور باوقار ہیں۔انسانی جثے کو نہ تو درندوں اور پرندوں کے لئے کھلا چھوڑنے کی اجازت ہے۔نہ دوبارہ عناصر فطرت کا حصہ بنانے کے لئے ظالمانہ طریقے سے آگ میں بھسم کرنے کی ضرور ت ہے،نہ فراعنہ کی طرح مرے ہوئے کی لاش کے ساتھ ہزاروں معصوم انسانوں کو قتل کرکے بطور خدم وچشم ہمراہ بھیجنے کی گنجائش ہے،نہ لاکھوں انسانوں کو مجبور کرکے قبروں کے لئے اہرام یا زمین دوز محلات تعمیر کرنے کا کوئی تصور ہے۔اور نہ دنیا بھر کے خزانوں کو لاشوں کے ساتھ زمین دوز کرنے کا۔اسلام نے اس حوالے سے بہت بڑی حقیقت کو بہت سادہ انداز میں سمجھا دیا ہے۔مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ "اسی(مٹی) سے ہم نے تمھیں پیدا کیا اور اسی میں تمھیں لوٹائیں گے اور اسی سے تمھیں ایک بار اور نکالیں گے۔"(طہٰ۔20:55)امام مسلم ؒ نے کتاب الجنائز میں،جانے والے(قریب المرگ) کو کلمے کی تلقین،اس کی عیادت اور اس کےلئے آسانیوں سے آغاز کیا ہے۔پھر صدمے کو برداشت کرنے کے طریقے،صبروبرداشت،نالہ وشیون اور شور غوغا سے پرہیز کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات تفصیل سے بیان کی ہیں۔پھر میت کے غسل،خوشبو لگانے،اور تکفین کا ذکرہے،پھر نماز جنازہ کے حوالے سے مفصل رہنمائی ہے۔جو جنازہ نہ پڑھ سکے اس کے لئے قبر پر جنازہ پڑھنے کا موقع موجود ہے۔میت اور قبر کے احترام کو ملحوظ رکھنے کے لئے مفصل ہدایات ہیں،پھر قبر بنانے اور بعد از تدفین قبروں پر جا کر فوت ہونے والوں کے لئے دعائیں کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے ۔الغرض دنیوی زندگی کے آخری مرحلے کا کوئی پہلو تشنہ باقی نہیں چھوڑا۔
امام مالک بن انس نے محمد بن عمرو بن حلحلہ سے، انھوں نے معبد بن کعب بن مالک سے اور انھوں نے حضرت قتادہ بن ربعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، وہ حدیث بیان کر رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’آرام پانے والا ہے یا اس سے آرام ملنے والا ہے۔‘‘ انھوں (صحابہ) نے پو چھا: اے اللہ کے رسول ﷺ! آرام پانے والا یا جس سے آرام ملنے والا ہے سے کیا مراد ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا: ’’بندہ مومن دنیا کی تکالیف سے آرام پاتا ہے اور فاجر بندے (کے مرنے ) سے لو گ، شہر، درخت اور حیوانات آرام پاتے ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوقتادہ بن ربعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آرام پانے والا ہے یا لوگوں کو اس سے آرام (چھٹکارہ) حاصل ہو گیا ہے۔‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے پوچھا، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مُسْتَرِیحٌ اور مُسْتَرَاحٌ مِّنْه سے کیا مراد ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا: ’’مومن بندہ دنیا کی تکلیفوں اور مشقتوں سےآرام پاتا ہے اور برے بندہ سے، بندوں، علاقوں اوردرختوں اور حیوانات کو آرام مل جاتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
برے اور بدکار انسان کے ہاتھ اور زبان سے تمام مخلوق تنگ ہوتی ہے۔ اور اس کی بدعملیوں اور کرتوتوں کی نحوست سے بھی مخلوق کے لیے اذیت اورتکلیف کا باعث بنتی ہے وہ ہر چیز کے خلاف ہاتھ اور زبان استعمال کرتا ہے اس کے گناہوں کے سبب بارش بند ہوتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Qatada bin Rib'i reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: Whenever a bier passed before him, he said: He is the one to find relief and the one with (the departure of him) other will find relief. They said: Apostle of Allah (ﷺ) , who is al-Mustarih and al-Mustarah? Upon this he said: The believing servant finds relief from the troubles of the world, and in the death of a wicked person, the people, towns, trees and animals find relief.