Muslim:
The Book of Zakat
(Chapter: Stern warning concerning those who hoard wealth)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
992.
ابو علاء نے حضرت احنف بن قیس رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کی انھوں نے کہا: میں مدینہ آیا تو میں قریشی سرداروں کے ایک حلقے میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک کھردرے کپڑوں گٹھے ہوئے جسم اور سخت چہرے والا ایک آدمی آیا اور ان کے سر پر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا۔ مال و دولت جمع کرنے والوں کو اس تپتے ہوئے پتھر کی بشارت سنا دو جس کو جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا اور اسے ان کے ایک فرد کی نوک پستان پر رکھا جائے گا حتیٰ کہ وہ اس کے دونوں کندھوں کی باریک ہڈیوں سے لہراتا ہوا نکل جا ئے گا اور اسے اس کے شانوں کی باریک ہڈیوں پر رکھا جائے گا حتیٰ کہ وہ اس کے پستانوں کے سروں سے حرکت کرتا ہوا نکل جا ئے گا ۔(احنف نے) کہا: اس پر لوگوں نے اپنے سر جھکا لیے اور میں نے ان میں سے کسی کو نہ دیکھا کہ اسے کوئی جواب دیا ہو، کہا پھر وہ لوٹا اور میں نے اس کا پیچھا کیا حتیٰ کہ وہ ایک ستون کے ساتھ (ٹیک لگا کر) بیٹھ گیا میں نے کہا: آپ نے انھیں جو کچھ کہا ہے میں نے انھیں اس کو ناپسند کرتے ہوئے ہی دیکھا ہے انھوں نے کہا: یہ لو گ کچھ سمجھتے نہیں میرے خلیل ابو القاسم ﷺ نے مجھے بلایا میں نے لبیک کہا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم احد (پہاڑ) کو دیکھتے ہو؟‘‘ میں نے دیکھا کہ مجھ پر کتنا سورج باقی ہے میں سمجھ رہا تھا کہ آپﷺ مجھے اپنی کسی ضرورت کے لیے بھیجنا چاہتے ہیں چنانچہ میں نے عرض کی میں اسے دیکھ رہا ہوں تو آپﷺ نے فر مایا: ’’میرے لیے یہ بات باعث مسرت نہ ہو گی کہ میرے پا س اس کے برابر سونا ہو اور میں تین دیناروں کے سوا اس سارے (سونے) کو خرچ (بھی ) کر ڈالوں۔‘‘ پھر یہ لو گ ہیں دنیا جمع کرتے ہیں کچھ عقل نہیں کرتے۔ میں نے ان سے پو چھا آپ کا اپنے (حکمران) قریشی بھائیوں کے ساتھ کیا معاملہ ہے آپ اپنی ضرورت کے لیے نہ ان کے پاس جاتے ہیں اور نہ ان سے کچھ لیتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا نہیں تمھا رے پرودیگار کا قسم! نہ میں ان سے دنیا کی کوئی چیز مانگوں گا نہ ہی ان سے کسی دینی مسئلے کے بارے میں پو چھوں گا یہاں تک کہ میں اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ سے جا ملوں۔
"زکاۃ"زكا.يزكو.زكاةسے ہے۔اس کا لغوی معنی اگنا اور بڑھنا ہے۔بڑھوتری تبھی ممکن ہے جب اگنے والی چیز آفات و امراض سے پاک ہو، زكا کا ایک معنی اچھا یا پاک ہونا بھی ہے۔عرب کہتے ہیں۔زكت الارض اس کا معنی ہے۔طابتیعنی زمین اچھی صاف ستھری ہوگئی۔تزکیہ اسی سے ہے۔نفوس کا تزکیہ یہ ہے کہ ان کو آفات،بہت سے امراض اور آلائشوں سے پاک کیا جائے۔انسان کو اللہ تعالیٰ فطرت سلیمہ عطا کرکے دنیا میں بھیجتا ہے۔ماں باپ اور دوسرے قریبی لوگ اس کی فطرت کو آلودہ کردیتے ہیں۔سب سے زیادہ آلودگی یہ ہوتی ہے کہ انسان وجود عطاکرنے والے اور پالنے والے اللہ کی محبت کے بجائے مادی اشیاء کی محبت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔یہ مرض باقی دنیا کے تمام امراض کا سبب بنتا ہے۔اسی سے حرص وہوس،لالچ،خودغرضی،ظلم ،سرکشی،طغیان،غرض سب بیماریاں پیدا ہوتی اور بڑھتی ہیں۔انبیائے کرام خصوصاً محمد رسول اللہﷺ کی بعثت کے بنیادی مقاصد میں سے ایک مقصد نفوس انسانی کا تزکیہ کرنا،یعنی انھیں ان تمام مہلک بیماریوں سے نجات دلاناہے،اللہ کا ارشاد ہے"هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ"وہ جس نے امیوں(ان پڑھوں) میں انھی میں سے ایک رسول مبعوث کیا جو ان کے سامنے اس کی آیات پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے،یقیناً وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔"(الجمعۃ۔2:62)ویسے تو تمام ارکان اسلام تزکیہ نفوس کا زریعہ ہیں،ان میں سے زکاۃ بطور خاص اس مقصد کے لئے مقرر کی گئی ہے۔قرآن مجید میں صدقات اور اللہ کی راہ میں مال دینے کو تزکیے کا زریعہ بتایا گیا ہے۔رسول اللہﷺسے کہا گیا: خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ"ان کے مالوں میں سے صدقہ(زکاۃ) لیں،اس کے زریعے سے انھیں پاک کریں،انھیں صاف ستھرا کریں اور ان کو دعا دیں۔"(التوبہ۔9:103)اپنا تزکیہ اللہ کی راہ میں مال دے کر کیا جاسکتا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہےالَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّىٰ "جو اپنا مال دیتا ہے پاک ہونے کے لئے۔"(اللیل۔18:92)امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیںنفس المتصدق تزكو وماله يزكو(اي)يطهر ويزيد في المعني"صدقہ دینے والا خود بھی پاک ہوتا ہے اور اس کا مال بھی پاک ہوتا ہے۔۔۔"(مجموع فتاویٰ لابن تیمیہؒ8/25)
اس کے مقاصد میں سے ایک مواسات بھی ہے۔بنیادی اصول یہ ہے۔(توخذ من اغنيائهم وترد الي فقرائهم)"ان کے مال داروں سے لیا جائے اور ان کے فقیروں پر لوٹایا جائے۔"اس لحاظ سے زکاۃ کی صحیح ادائیگی امت کی اجتماعیت اور یکجہتی کی ضامن ہے۔اسلام نے زکاۃ بنیادی طور پر انھی اموال میں مقرر کی ہے۔جن میں بڑھوتری(نمو) ہوتی ہے،یعنی مویشی،کھیتی باڑی ،مال تجارت اورنقدی جن میں باقی تمام اموال کی قدر محفوظ رکھی جاسکتی ہے۔
یہ بھی اسلام کی رحمت کا مظہر ہے۔کہ زکاۃ کا ایک نصاب مقرر کیا گیا ہے۔مقصود یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے بعد کچھ زائد ہو۔ان سے زکاۃ وصول کی جائے،جن کے پاس بنیادی ضرورتوں کے لئے بھی مال نہ ہو یا کم ہو ان کو چھوٹ دی جائے بلکہ ان کی مدد کی جائے۔جدید معاشیات نے ٹیکس کے حوالے سے بنیادی چھوٹ کا تصور نصاب زکاۃ ہی سے لیاہے۔
رسول اللہ ﷺ نے بہت آسان اور جامع لفظوں میں بہت خوبصورتی کے ساتھ اس نصاب کو یوں بیان فرمایا:()"پا نچ وسق سے کم میں صدقہ نہیں اور نہ پانچ اونٹوں سے کم میں صدقہ ہے۔اور نہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں صدقہ ہے۔"اور آپ ﷺنے اپنی پانچوں انگلیوں سے اشارہ کیا۔
یہی کتاب الزکاۃ میں امام مسلم ؒ کی لائی ہوئی پہلی حدیث ہے۔
وسق ماپنے کا پیمانہ ہے۔غلہ،خشک کھجوریں،کشمش وغیرہ کا لین دین وسق سے ماپ کرہوتا تھا۔پانی اور دوسری مائع اشیاء کو بھی اسی پیمانے سے ماپا جاتا تھا۔ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔اس بارے میں اگرچہ ابن ماجہ،ابو داود،اور نسائی میں مرفوع حدیثیں بھی موجود ہیں لیکن وہ سب کی سب ضعیف ہیں۔(التلخیص الجیر لابن حجر 169/2،رقم:841۔842)
اس حوالے سے اعتماد اس بات پر ہے کہ اس مقدار پر اجماع ہے۔(مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہؒ447/5) صاع کی مقدار پر البتہ اہل کوفہ اور اہل حجاز یا یوں کہہ لیجئے تمام ائمہ(مالک،شافعی،احمدؒ) کے درمیان اختلاف ہے۔حجاز میں زرعی اجناس کے لین دین کا نمایاں مرکز مدینہ تھا۔ان کا صاع ہی حجازی صاع کہلاتا تھا۔کوفہ میں حجاج بن یوسف نے جوصاع متعارف کروایا تھا وہ حجازی صاع سے نسبتاًبڑاتھا،اسے صاع عراقی یا صاع حجاجی کہا جاتا تھا۔
اہل کوفہ ایک صاع کووزن میں 8 رطل کے برابر قرار دیتے ہیں جبکہ اہل حجاز 5.3 رطل کے برابر۔
امام ابو یوسف اورکئی دوسرے اہل کوفہ نے حج کے موقع پر زیارت مدینہ کے دوران میں جب پتہ لگانا چاہا کہ رسول اللہ ﷺ کاصاع کتنا تھا تو کثیر تعداد میں مہاجرین اور انصار کے بیٹوں نے اپنے اپنے گھروں سے اپنے خاندانی صاع،جوصحابہؓ استعمال کرتے رہے تھے ،لا کردکھائے،امام ابو یوسف ؒ نے کہا:میں نے ان کی مقدار جانچی تو وہ سب آپس میں مساوی اور 5.3 رطل کے برابر تھے۔(فرايت امرا قويا فقد تركت قول ابي حنيفة في الصاع واخذت بقول اهل المدينة)"میں نے بہت پختہ بات دیکھی تو میں نے صاع کے بارے میں ابو حنیفہ کا قول چھوڑ دیا اور اہل مدینہ کاقول لے لیا۔"(سنن الکبریٰ للبیہقی:171:4 وسنن الدارقطنی:150:2 حدیث 2105 ط:دارالکتب العلمیۃ۔۔۔امام شوکانیؒ اس کی سند کو جید قرار دیتے ہیں)
جدید محققین نے آج کل کے حساب سے صاع کا وزن معلوم کیا تو وہ ان کے خیال کے مطابق2176۔گرام بنتاہے۔(فقہ الزکاۃ للدکتور یوسف القرضاوی372/1)
گندم کے پانچ وسق 653 کلوگرام بنتے ہیں۔(فقہ الزکاۃ للدکتور یوسف القرضاوی:373/1)
ایک اوقیہ میں چالیس درہم ہوتے ہیں،ایک درہم کاوزن جدید تحقیق کے مطابق 2.975 گرام بنتاہے،اس طرح ایک اوقیہ کا وزن ایک سو انیس گرام اور پانچ اوقیہ چاندی کاوزن پانچ سو پچانوے گرام بنتا ہے۔اس کے تولے بنائے جائیں تو تقریباً اکاون تولے بنتے ہیں۔سابقہ اندازہ ساڑھے باون تولے چاندی کا تھا جو اس مقدار کے قریب ہی تھا۔
سونے کے نصاب زکاۃ کا تذکرہ صحیحین کی احادیث میں نہیں۔امام ابو داودؒ نے حضرت علیؓ کے حوالے سے حدیث بیان کی ہے،اس کے الفاظ ہیں:()"تم پر کوئی چیز(بطور زکاۃ ادا کرنا)فرض نہیں،یعنی سونے میں جب تک تمھارے پاس(کم از کم) بیس دینار نہ ہوں۔جب تمھارے پاس بیس دینار ہوں اور ان پر سال گزرجائے توان میں آدھا دینار(زکاۃ) ہے،جو اس سے زیادہ ہوگا وہی اس حساب کے مطابق(محسوب) ہوگا۔"(سنن ابی داود،الزکاۃ باب فی الذکاۃ السائمۃ حدیث 1573۔قاضی عیاض ؒ کہتے ہیں:سونے کے نصاب پر اجماع ہے۔
سونے کے دینار میں چوبیس قراط ہوتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ کے دور میں رومی اور ایرانی دینار استعمال ہوتے تھے۔عبدالملک بن مروان نے زکاۃ کے نصاب کو پیش نظر رکھتے ہوئے،اہل علم کے اتفاق سےجو دینار ڈھالے اور جن کے مطابق صدیوں تک دینار ڈھالے جاتے رہے وہ دینار مل بھی چکے ہیں۔ان دیناروں کے وزن کے مطابق سونے کی زکاۃ کا نصاب85گرام بنتا ہے۔یہ برصغیر پاک وہند میں سونے کے نصاب کا جو حساب لگایا گیاتھا وہ ساڑھے سات تولے تھا،اس کے ستاسی گرام بنتے ہیں،یعنی محض دو گرام زیادہ۔اب تقریباً پورے عالم اسلام کا 85 گرام پر اتفاق ہے۔
نقدی:رسول اللہ ﷺکے عہد مبارک میں سونے چاندی یا ان کے ڈھلے ہوئے سکے بطور نقدی استعمال ہوتے تھے۔علمائے امت کا اجماع ہے کہ کرنسی کو انھی پر قیاس کیاجائے گا۔مغربی استعمار کے غلبے کے بعد دنیا میں کاغذ کی کرنسی رائج ہوئی۔ہر ملک ایسی کرنسی سونے یا چاندی کی بنیاد پر جاری کرتاتھا۔(خزانے میں کرنسی کے مساوی یا ایک خاص تناسب سے سونا یا چاندی کا موجود ہوناضروری تھا)کچھ عرصے بعد یہ بنیاد بھی ختم ہوگئی،اب کرنسی کی بنیاد نہ سونے پر ہے نہ چاندی پر۔اب لوگوں کے پاس موجودہ کرنسی پر زکاۃ کانصاب کیاہوگا؟بعض لوگ کہتے ہیں اسے چاندی کے نصاب پر قیاس کیا جائے۔بعض سونے کے نصاب پر قیاس کرنے کے قائل ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چاندی اورسونے دونوں کا نصاب قیمت یا مالیت کے اعتبار سے مساوی تھا لیکن بعد میں چاندی اپنی قیمت برقرار نہ رکھ سکی،باقی اشیاء جن پر زکاۃ فرض ہے۔مثلاً بھیڑ ،بکریاں،یا اونٹ وغیرہ ان کی مالیت کے ساتھ چاندی کے نصاب کی مالیت کوئی مطابقت نہیں رکھتی،ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت میں پانچ چھ سے زیادہ بکریاں نہیں خریدی جاسکتیں۔دوسری طرف سونے کی قیمت بھی غیر متناسب طریقے پر زیادہ ہورہی ہے۔اب کرنسی کی زکاۃ کامسئلہ انتہائی سنجیدہ غور وفکر کا متقاضی ہے۔
امام قرطبیؒ نے ابو عبید قاسم بن سلامؒ کے حوالے سے لکھا ہے۔کے اسلام کے ابتدائی دور میں ایرانی اور رومی د ونوں قسموں کے درہم متد اول تھے۔ایک دوسرے کا آدھا تھا۔ایک کا وزن آٹھ دانق تھا اور دوسر ے کا چاردانق،لوگ دونوں کو مساوی طور پر ملا کر یعنی آدھے بڑے اورآدھے چھوٹے دراہم سے اپنے معاملات طے کیا کرتے تھے۔اسلام آیا تو لوگوں نے زکاۃ کی ادائیگی کے لئے یہی طریقہ اختیار کیا۔وہ سو ایرانی اور سو رومی درہموں کو ملا کر ان سے زکاۃ کے نصاب کا تعین کرتے۔دونوں کو مساوی تعداد میں ملانے سے پانچ اوقیہ چاندی کا نصاب پورا ہوجاتا،اسی طرح زکاۃ ادا کی جاتی۔عبدالملک نے جب اپنے درہم ڈھلوانے کا ارادہ کیا تو تمام اہل علم کو جمع کیا۔انھوں نے درہم کا وزن،دونوں درہموں کی اوسط،یعنی 4+8 دانق کا نصف6 دانق مقرر کیا۔اس طرح سے دو سو درہموں میں پانچ اوقیہ چاندی پوری ہوجاتی تھی۔
اگر سونے کی قیمتیں اسی طرح غیر متناسب انداز میں بڑھتی رہیں تو ایسا کیا جاسکتاہے کہ کرنسی کے لئے چاندی کے نصاب کی مالیت کا نصف سونے کی نصاب کی مالیت کا نصف ملا کر مقدار نصاب متعین کرلیا جائے۔اس کے لئے پورے عالم اسلام کے حوالے سے اہل علم کا اجماع حاصل کرنا ناگزیر ہوگا۔فی الحال یہی مناسب ہے کہ جب تک سونے کے نصاب اور چاندی کو چھوڑ کرباقی اشیاء کے نصاب کی قیمتیں قریب قریب رہتی ہیں سونے کے نصاب کو کرنسی کے نصاب کی بنیاد بنایا جائے۔
کتاب الذکاۃ میں امام مسلم ؒ نے جس ترتیب سے احادیث بیان کی ہیں،۔اس کے بارے میں امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:امام مسلمؒ نےامام مالک ؒ کی موطا کی طرح اپنی صحیح میں صحت کے اعلیٰ ترین معیار پر احادیث ترتیب دی ہیں۔انھوں نے پہلے چاندی کا نصاب ذکر کیا ہے۔پھر اونٹوں کا ،پر اجناس خوردنی اور خشک پھلوں کا،پھر مویشی اور دیگر اشیاء کا، پھر یہ کہ ایک سال گزرنا ضروری ہے۔اس غرض سے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عمر ؓ ،اور ابن عمر ؓ ،کے حوالے سے روایتیں بیان کیں،اس میں اگرچہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن عباسؓ اختلاف کرتے ہیں،لیکن دو خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین نے جو کیا ہے وہ اس لئے راحج ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهدين من بعدي"تم میری سنت اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔"(شرح مشکل الآثار 3/223 حدیث 1186،نیز دیکھئے،سنن ابن ماجہ حدیث 42،43،وسنن ابی داود حدیث ،4607۔4608) اور یہ بھی فرمایا:((فان يطيعواابابكر وعمر يرشدوا))"اگر وہ ابو بکر اور عمر رضوان اللہ عنھم اجمعین کی اطاعت کریں تو راہنمائی پائیں گے"(صیح مسلم حدیث 681) اس کے بعد امام مسلمؒ نے سونے کی زکاۃ کا ذکر کیا ہے۔کیونکہ اسکی دلیل کی قوت نسبتاً کم ہے۔پھر ان چیزوں کاذکر کیاگیاہے جن میں زکاۃ فرض کی گئی ہے۔اس حوالے سے قرآن کی آیات اور احادیث بیان کی ہیں۔ان میں بہترین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت اور زکاۃ کےی بارے میں آپ کا مکتوب ہے۔ان کے بعد وہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ سے روایت لائے ہیں۔(مجموع فتاویٰ لابن تیمیہؒ25:9)
ابو علاء نے حضرت احنف بن قیس رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کی انھوں نے کہا: میں مدینہ آیا تو میں قریشی سرداروں کے ایک حلقے میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک کھردرے کپڑوں گٹھے ہوئے جسم اور سخت چہرے والا ایک آدمی آیا اور ان کے سر پر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا۔ مال و دولت جمع کرنے والوں کو اس تپتے ہوئے پتھر کی بشارت سنا دو جس کو جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا اور اسے ان کے ایک فرد کی نوک پستان پر رکھا جائے گا حتیٰ کہ وہ اس کے دونوں کندھوں کی باریک ہڈیوں سے لہراتا ہوا نکل جا ئے گا اور اسے اس کے شانوں کی باریک ہڈیوں پر رکھا جائے گا حتیٰ کہ وہ اس کے پستانوں کے سروں سے حرکت کرتا ہوا نکل جا ئے گا ۔(احنف نے) کہا: اس پر لوگوں نے اپنے سر جھکا لیے اور میں نے ان میں سے کسی کو نہ دیکھا کہ اسے کوئی جواب دیا ہو، کہا پھر وہ لوٹا اور میں نے اس کا پیچھا کیا حتیٰ کہ وہ ایک ستون کے ساتھ (ٹیک لگا کر) بیٹھ گیا میں نے کہا: آپ نے انھیں جو کچھ کہا ہے میں نے انھیں اس کو ناپسند کرتے ہوئے ہی دیکھا ہے انھوں نے کہا: یہ لو گ کچھ سمجھتے نہیں میرے خلیل ابو القاسم ﷺ نے مجھے بلایا میں نے لبیک کہا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم احد (پہاڑ) کو دیکھتے ہو؟‘‘ میں نے دیکھا کہ مجھ پر کتنا سورج باقی ہے میں سمجھ رہا تھا کہ آپﷺ مجھے اپنی کسی ضرورت کے لیے بھیجنا چاہتے ہیں چنانچہ میں نے عرض کی میں اسے دیکھ رہا ہوں تو آپﷺ نے فر مایا: ’’میرے لیے یہ بات باعث مسرت نہ ہو گی کہ میرے پا س اس کے برابر سونا ہو اور میں تین دیناروں کے سوا اس سارے (سونے) کو خرچ (بھی ) کر ڈالوں۔‘‘ پھر یہ لو گ ہیں دنیا جمع کرتے ہیں کچھ عقل نہیں کرتے۔ میں نے ان سے پو چھا آپ کا اپنے (حکمران) قریشی بھائیوں کے ساتھ کیا معاملہ ہے آپ اپنی ضرورت کے لیے نہ ان کے پاس جاتے ہیں اور نہ ان سے کچھ لیتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا نہیں تمھا رے پرودیگار کا قسم! نہ میں ان سے دنیا کی کوئی چیز مانگوں گا نہ ہی ان سے کسی دینی مسئلے کے بارے میں پو چھوں گا یہاں تک کہ میں اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ سے جا ملوں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
احنف بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں میں مدینہ آیا اس اثناء میں کہ میں قریشی سرداروں کے ایک حلقہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک ایک آدمی آیا جس کے کپڑے موٹے تھے جسم میں خشونت تھی اور چہرہ پر بھی سختی تھی وہ آ کر ان کے پاس رک گیا اور کہنے لگا مال و دولت سمیٹنے والوں کو اس گرم پتھر سے آگاہ کرو (اطلاع و خبر دو) جس کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا اور اسے ان کے ایک فرد کے پستان کی نوک پر رکھا جائے۔ گا حتی کہ وہ اس کے کندھےکی باریک ہڈی سے نکلے گا۔ اور اسے اس کے شانوں کی باریک ہڈیوں پر رکھا جائے گا حتی کہ وہ اس کے پستانوں کے سروں سے حرکت کرتا ہوا نکلے گا۔ احنف کہتے ہیں لوگوں نے اپنے سر جھکا لیے اور میں نے ان میں سے کسی کو اس کو کچھ جواب دیتے ہوئے نہیں دیکھا اور وہ واپس پلٹ گیا میں نے اس کا پیچھا کیا حتی کہ وہ ایک ستون کے ساتھ بیٹھا گیا تو میں نے کہا میں نے ان لوگوں کو دیکھا ہے کہ آپ نے انہیں جو کچھ کہا ہے انھوں نے اسے ناپسند سمجھا ہے اس نے کہا ان لوگوں کو کچھ عقل و شعور نہیں ہے میرے گہرے دوست ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم! نے مجھے بلایا، میں نے لبیک کہا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا تمھیں احد نظر آ رہا ہے؟‘‘ میں نے دیکھا کہ کس قدر سورج کھڑا ہے (دن باقی ہے) کیونکہ میں سمجھ رہا تھا۔ آپﷺ مجھے اپنی کسی ضرورت کے لیے بھیجنا چاہتے ہیں میں اسے دیکھ ہوں تو آپﷺ نے فرمایا: (یہ بات میرے لیے مسرت کا باعث نہیں ہے کہ میرے پاس اس کے برابر سونا اور میں اس تمام کو خرچ کر ڈالوں مگر تین دینار جنھیں قرض چکانے کے لیے رکھ چھوڑوں) اس کے باوجود یہ لوگ دنیا جمع کرتے ہیں انھیں کچھ عقل نہیں ہے میں نے اس سے پوچھا: آپﷺ کا اپنے قریشی بھائیوں سے کیا معاملہ ہے؟ اپنی ضرورت کے لیے ان کے پاس نہیں جاتے اور نہ ان سے کچھ لیتے ہیں اس نے جواب دیا نہیں تیرے رب کی قسم! نہ میں ان سے دنیا کی کوئی چیز مانگوں گا اور نہ ہی ان سے کسی دینی مسئلہ کے بارے میں پوچھوں گا حتی کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے جا ملوں۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) مَلَأٌ: اشراف و سردار۔ (2) أَخْشَنُ: سخت اور کھردرا، جس میں ملائمت اور نرمی نہ ہو۔ (3) رَضْفٍ: گرم پتھر۔ (4) يُحْمَى عَلَيْهِ: اسے تپایا اور گرم کیا جائے گا۔ (5) حَلَمَةِ ثَدْيَيْهِ: سر پستان۔ (6) نُغْضِ: شانے (کندھے) کے کنارے کی پتلی اور باریک ہڈی۔ (7) لَا تَعْتَرِيهِمْ: اپنی ضرورت پوری کرنے کا ان سے مطالبہ نہیں کرتے۔
فوائد ومسائل
(1) جمہور صحابہ و تابعین اور جمہور امت کے نزدیک کنز اس خزانہ اور مال و دولت کو کہتے ہیں جو زکاۃ کے نصاب کو پہنچ جاتا ہے لیکن مال کا مالک اس کی زکاۃ ادا کرنے کی بجائے اس پر سانپ بن کر بیٹھ جاتا ہے اور اس کو محتاجوں ضرورتمندوں کی ضروریات کے لیے صرف کر کے اللہ کا شکر گزار نہیں بنتا ہے لیکن جو مال حد نصاب کو نہیں پہنچتا کنز نہیں ہے کیونکہ شریعت نے اس پر زکاۃ فرض نہیں کی۔ لہٰذا وہ نصاب جس سے زکاۃ ادا کر دی جائے وہ بھی کنز نہیں رہے گا۔ کیونکہ مالک نے اسے محتاجوں اور ضرورتمندوں پر خرچ کیا ہے اس لیے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَا بَلَغَ أَنْ تُؤَدَّى زَكَاتُهُ فَزُكِّيَ فَلَيْسَ بِكَنْزٍ جو مال زکاۃ کی ادائیگی کے نصاب کو پہنچا اور اس کی زکاۃ ادا کردی گئی تو وہ کنز نہیں ہے (سنن ابو داؤد) علامہ عراقی کہتے ہیں سندہ جید، اس کی سند عمدہ اور قابل اعتماد ہے ہاں جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے۔ انسان کے لیے بلند ترین مقام جس پر ہمیشہ کم لوگ ہی فائز ہوتے ہیں وہ یہی ہے کہ وہ ضروریات سے زائد اپنا تمام مال و دولت دین اور اہل دین کی ضروریات میں صرف کر دے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جنگ تبوک کے موقع پر اپنا تمام مال و متاع آپ کے سامنے لا رکھا تھا۔ اور یہ شرف صرف ابو بکر کو ہی حاصل ہوا تھا۔ (2) حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نظریہ، یہ تھا (غلہ وخوراک مویشیوں کے سوا) مسلمان اپنا تمام مال و دولت یعنی سونا چاندی اور کیش کی صورت میں جو کچھ ہے وہ اپنی ضرورت سے زائد سب کا سب خرچ کردیں اور یہ اس کے لیے لازم اور ضروری ہے۔ اس طرح وہ وجوبی ولازمی اور استحبابی و مندوب حکم میں امتیاز نہیں کرتے تھے حالانکہ یہ بات مقاصد شریعت اور اس کی روح کے منافی ہے۔ کیونکہ تمام انسان اعلیٰ معیار اور بلند مقام پر یکساں طور پر فائز نہیں ہو سکتے تمام افراد کو تو فرائض ہی کا پابند کیا جا سکتا ہے۔ اگر حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نظریہ ہی لازم ہوتا تو پھر زکاۃ صدقات اور وراثت مال کی تقسیم کی ضرورت ہی نہ رہتی اور کم ازکم خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اس کی لازمی طور پر پابندی کرتے حالانکہ یہ ابھی بتا چکے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا کسی صحابی نے بھی اپنا تمام اندوختہ پیش نہیں کیا تھا اور امت میں سے کسی امام نے اس نظریہ کو قبول نہیں کیا۔ لیکن حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زندگی بھر اپنے نظریہ پر عمل کیا اور کھانے پینے لباس کے سوا کوئی مال و متاع یا ساز وسامان نہیں جوڑا اور اشتراکیوں کی طرح محض پر فریب نعرہ لگانے پر اکتفا نہیں کیا کہ اپنے گھر میں عیش و عشرت کا ہر سامان جمع ہے وافر بینک بیلنس ہے اور زبان پر نعرہ ابو ذری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ahnaf bin Qais reported: I came to Madinah and when I was in the company of the grandees of Quraish a man with a crude body and an uncouth face wearing coarse clothes came there. He stood up before them and said: Give tidings to those who amass riches of the stones which would be heated in the Fire of Hell, and would be placed at the tick of the chest till it would project from the shoulder bone and would he put on the shoulder bone till it would project from the tick of his chest, and it (this stone) would continue passing and repassing (from one side to the other). He (the narrator) said: Then people hung their heads and I saw none among them giving any answer. He then returned and I followed him till he sat near a pillar. I said: I find that these (people) disliked what you said to them and they do not understand anything. My friend Abu'l-Qasim (Muhammad) (may peace he upon him) called me and I responded to him, and he said: Do you see Uhud? I saw the sun (shining) on me and I thought that he would send me on an errand for him. So I said: I see it. Upon this he said: Nothing would delight me more than this, that I should have gold like it (equal to the bulk of Uhud), and I should spend it all except three dinars. (How sad it is) that they hoard worldly riches, and they know nothing. I said: What about you and your brothers Quraish? You do not go to them for any need and do not accept anything from them. He said: By Allah, I neither beg anything from them (from worldly goods), nor do I ask them anything about religion till I meet my Allah and His Messenger.