Muslim:
The Book of Greetings
(Chapter: Witchcraft)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2189.01.
ابو کریب نے کہا: ہمیں ابو اسامہ نے حدیث بیان کی، کہا، ہمیں ہشام نے اپنے والد سے حدیث بیا ن کی، انھوں نےحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، کہا: رسول اللہ ﷺ پر جادو کیا گیا۔ اسکے بعد ابو کریب نے واقعے کی تفصیلات سمیت ابن نمیر کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی اور اس میں کہا: پھر رسول اللہ ﷺ کنویں کی طرف تشریف لئے گئے، اسے دیکھا، اس کنویں پر کھجور کے درخت تھے (جنھیں کسی زمانے میں کنویں کے پانی سےسیراب کیا جاتا ہو گا) انھوں (حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! اسے نکالیں(اور جلادیں) ابو کریب نے: ’’آپ نے اسے جلا کیوں نہ دیا؟‘‘ کے الفاظ نہیں کہے اور یہ الفاظ (بھی) بیان نہیں کیے: ’’میں نے اس کے بار ے میں حکم دیا تو اس کو پاٹ دیا گیا۔‘‘
تشریح:
فائدہ:
رسول اللہ ﷺ تحمل کا کوہِ گراں تھے جس طرح کہ اگلے باب میں بیان کیے گئے واقعے سے بھی ثابت ہوتا ہے آپ ﷺ اپنی ذات کے حوالے سے بدلہ لینا یا لوگوں کو تکلیف پہنچانا پسند نہیں فرماتے تھے۔
اسلامی سلامتی کادین ہے۔ صرف انسان کےلیے نہیں بلکہ تمام مخلوقات کی سلامتی سکھاتاہے۔ ہرمسلمان کوسکھایاگیاہےکہ دنیاکاہروہ انسان جواللہ کاباغی نہیں اوردوسرےانسان کی سلامتی کاقائل ہےوہ صرف اسےسلامتی کایقین ہی نہ دلائےبلکہ سلامتی کی دعابھی دے۔ پہلافقرہ جوکوئی مسلمان کوکہتاہےوہ السلام علیکم ہے۔ وہ صرف اپنےمخاطب کوسلامتی کاپیغام اورسلامتی کی دعانہیں دیتابلکہ اس کےتمام ساتھیوں کوبھی اس میں شامل کرتاہے۔ قرآن مجیدنےمسلمانوں کےدرمیان سلامتی کی خواہش کےاظہاراوردعاکولازمی قراردیاہے۔ اسلام کونہ ماننےوالوں کوبھی سلام کہاجاتاتھالیکن جب انہوں نےثابت کردیاکہ وہ مسلمان بلکہ خوداللہ کےرسول اللہﷺکےلیے بھی سلامتی کےبجائےچالاکی سےہلاکت کی بددعادیتےہیں تویہ طریقہ اپنانےکاحکم دیاگیاکہ غیرمسلم اگرسلام کہیں توجواب میں سلام کہاجائےاوروہ اگروہ سام علیکم (آپ پرموت ہو،یااس جیسےاورجملے)کہیں توبھی ترکی بہ ترکی جواب دینےکےبجائےصرف علیکم کہنےپراکتفاکیاجائے۔ غیرمسلموں کےساتھ پرامن بقائےباہمی مسلمانوں کاوتیرہ ہے۔ جوسلامتی کےباہمی عہدکوتوڑدےاوردرپےآزادہوجائے تواس کی چیرہ دستیوں سےدفاع ضروری ہے۔
زمین پربسنےوالی اللہ کی دوسری مخلوقات کی سلامتی کوبھی یقینی بنانےکاحکم دیاگیاہے،البتہ جوموذی جانورانسانی آبادیوں میں گھس کرانسانوں اورانسان کےزیرحفاظت دوسرےچوپایوں کےلیے ضررسانی یاہلاکت کاباعث بنیں ان سےنجات حاصل کرنےکی اجازت دی گئی۔ ایسےموذی جانوروں میں بڑےاورچھوٹےسب طرح کےجانورشامل ہیں۔ اگرکوئی جانورموذی سمجھاجاتاہےلیکن وہ بھی عرصہ درازسےانسانی آبادی میں بس رہاہےتواپنےعمل سےاسےبھی سلامتی کےساتھ وہاں سےجانےکاپیغام دیناچاہیے،اگرپھربھی نہ جائےتواس سےچھٹکاراپانےکی اجازت ہے،ورنہ انسانی آبادی میں اپنی موجودگی سےغلط فائدہ اٹھاکروہ کل کلاں ہلاکت کاموجب بنےگا۔
سلامتی کےحوالےسےمسلمانوں کونہایت عمدہ آداب سکھائےگئےہیں۔ اجازت کےبغیرکسی کےگھرمیں داخل نہ ہونا،عورتیں ضروری کاموں سےباہرجائیں توان کےلیے راستوں کومحفوظ بنانااوربوقت ضرورت ان کی مددکرنا،معاشرےخاندانوں،خصوصاخواتین کی سلامتی کےتحفظ کےلیے کسی اجنبی خاتون کےساتھ خلوت میں نہ رہنااوراگرمحرم خاتون ساتھ ہےتوضرورت محسوس ہونےپراس کےساتھ اپنےرشتےکی وضاحت کردینا ضروری ہے۔ سلامتی کےلیے گھروں اورمجلسوں کی سلامتی ضروری ہے۔ مجلسوں میں مساوات،ایک دوسرےکےحقوق کےتحفظ اوراہل مجلس میں سےہرایک کےآرام کاخیال رکھنےسےمجلسوں کی سلامتی کویقینی بنایاجاسکتاہے،گھروں میں وہ لوگ داخل نہ ہوں جوفتنہ انگیزی کرسکتےہیں۔ دوآمیوں کی سرگوشی تک سےپرہیز اورضرورت کےوقت دوسروں کی مدداوران کےمسائل حل کرنےسےسب لوگوں کےدل میں سلامتی کااحساس مضبوط ہوتاہے۔
سلامتی کےمتعلق ان تمام امورکےبارےمیں رسول اللہﷺکےفرامین بیان کرنےکےبعدامام مسلم نےصحت سےمتعلق امورکوبیان کیاہے۔ سب سےپہلےان بیماریوں کےحوالےسےاحادیث لائی گئی ہیں جن کےاسباب کاکھوج لگاناعام طبیب کےلیےناممکن یاکم ازکم مشکل ہوتاہے۔ ان میں جادو،نظربداورزہرخورانی وغیرہ شامل ہیں۔ ان کےعلاج کےلیے مختلف تدابیربتائی گئی ہیں جن میں دم کرنااوردعاکرناشامل ہیں، پھرمختلف بیماریوں کےعلاج کےلیے ان مناسب طریقوں کاذکرہےجورسول اللہﷺکےزمانےمیں رائج تھے۔ ان میں سےکچھ طریقوں کورسول اللہﷺنےپسندفرمایا،کچھ کوناپسندکیا۔ یہ بھی بتایاگیاکہ آپ پسندفرماتےہیں کہ بیمارکودی جانےوالی دوائیں اورطریقہ علاج تکلیف دہ نہ ہواورغذاپسندیدہ اورعمدہ ہونی چاہیے۔ اس کےبعدمختلف وباؤں کےحوالےسےرسول اللہﷺکی ہدایات بیان کی گئی ہیں جن کےذریعےسےزیادہ سےزیادہ جانوں کاتحفظ کیاجاسکتاہے،بیمارہونےوالوں کی تیمارداری کویقینی بنانےکی ہدایات ہیں، اس کےبعدسلامتی کےحوالے سےمختلف اوہام کاذکرہےاورآخرمیں موذی جانوروں کےبارےمیں ہدایات ہیں اورعمومی طورپرہرجاندارکے ساتھ رحم دلی کاسلوک کرنےکی تلقین ہے۔
ابو کریب نے کہا: ہمیں ابو اسامہ نے حدیث بیان کی، کہا، ہمیں ہشام نے اپنے والد سے حدیث بیا ن کی، انھوں نےحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، کہا: رسول اللہ ﷺ پر جادو کیا گیا۔ اسکے بعد ابو کریب نے واقعے کی تفصیلات سمیت ابن نمیر کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی اور اس میں کہا: پھر رسول اللہ ﷺ کنویں کی طرف تشریف لئے گئے، اسے دیکھا، اس کنویں پر کھجور کے درخت تھے (جنھیں کسی زمانے میں کنویں کے پانی سےسیراب کیا جاتا ہو گا) انھوں (حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! اسے نکالیں(اور جلادیں) ابو کریب نے: ’’آپ نے اسے جلا کیوں نہ دیا؟‘‘ کے الفاظ نہیں کہے اور یہ الفاظ (بھی) بیان نہیں کیے: ’’میں نے اس کے بار ے میں حکم دیا تو اس کو پاٹ دیا گیا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
رسول اللہ ﷺ تحمل کا کوہِ گراں تھے جس طرح کہ اگلے باب میں بیان کیے گئے واقعے سے بھی ثابت ہوتا ہے آپ ﷺ اپنی ذات کے حوالے سے بدلہ لینا یا لوگوں کو تکلیف پہنچانا پسند نہیں فرماتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
امام صاحب کے استاد ابو کریب مذکورہ بالا روایت سناتے ہیں اور اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کنویں کی طرف نکلے، اسے دیکھا، اس پر کھجوروں کے درخت تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے کہا، اے اللہ کے رسولﷺ! اسے نکلوائیے، اس میں یہ نہیں ہے کہ ’’آپ نے اسے جلایا کیوں نہیں؟‘‘ اور نہ یہ ہے، ’’میرے حکم سے اس کو دفن کر دیا گیا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'A'isha reported that Allah's Messenger (ﷺ) was affected with a spell, the rest of the hadith is the same but with this variation of wording: "Allah's Messenger (ﷺ) went to the well and looked towards it and there were trees of date-palm near it. I ('A'isha) said: I asked Allah's Messenger (ﷺ) to bring it out, and I did not say: Why did not you burn it?" And there is no mention of these words: "I commanded to bury them and they buried."