باب: عورت کی منی نکلے ( احتلام ہو ) تو اس پر نہانا لازم ہے
)
Muslim:
The Book of Menstruation
(Chapter: Women are obliged to perform ghusl if they emit fluid)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
310.
اسحاق بن ابی طلحہ نےکہا کہ مجھے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ حدیث سنائی کہ ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا جو (حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ اور) اسحاق کی دادی تھیں، رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپﷺ سے کہنے لگیں جبکہ حضرت عائشہ ؓ بھی آپﷺ کے پاس موجود تھیں، اے اللہ کے رسولﷺ! عورت بھی نیند کے عالم میں اسی طرح خواب دیکھتی ہے جس طرح مرد دیکھتا ہے، وہ اپنے آپ سے وہی چیز ( نکلتی ہوئی ) دیکھتی ہے جو مرد اپنے حوالے سے دیکھتا ہے (تو وہ کیا کرے؟) حضرت عائشہ ؓ کہنے لگیں: ام سلیم! تو نے عورتوں کو رسوا کر دیا، تیرا دایاں ہاتھ خاک آلود ہو (ان کا یہ کہا کہ تیرا دایاں ہاتھ خاک آلود ہو، بری نہیں بلکہ اچھی بات تھی) تو آپﷺ نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سےفرمایا: ’’بلکہ تمہارا دایاں ہاتھ خاک آلود ہو۔ ہاں ام سلیم! جب وہ یہ دیکھے تو غسل کرے ۔‘‘
حیض : وہ خون ہے جو بلوغت سے لے کر سن یاس تک عورت کو تقریبا چار ہفتے کے وقفے سے ہر ماہ آتا ہے اور دوران حمل اور عموما رضاعت کے زمانے میں بند ہو جاتا ہے۔ ایک حیض سے لے کر دوسرے حیض تک کے عرصے کو شریعت میں ’’طُهْر‘‘ کہتے ہیں۔
اسلام سے پہلے زیادہ تر انسانی معاشرے اس حوالے سے جہالت اور توہمات کا شکار تھے۔ یہودان ایام میں عورت کو انتہائی نجس اور غلیظ سمجھتے۔ جس چیز کو اس کا ہاتھ لگتا اسے بھی پلید سمجھتے ۔ اسے سونے کے کمروں اور باورچی خانے وغیرہ سے دور رہنا پڑتا۔ نصاریٰ بھی مذہبی طور پر یہودیوں سے متفق تھے۔ ان کے ہاں بھی حیض کے دوران میں عورت انتہائی نجس تھی اور جو کوئی اس کو چھو لیتا وہ بھی نجس سمجھا جاتا تھا۔ لیکن ان کی اکثریت عملا عہد نامہ قدیم کے احکامات پرعمل نہ کرتی تھی بلکہ وہ دوسری انتہا پر تھی۔ عام عیسائی اس دوران میں بھی عورتوں سے مقاربت کر لیتے تھے۔
صحابہ کرام نے اس حوالے سے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا۔ اس کے جواب میں قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی:﴿ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّـهُ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ﴾ ’’اور (لوگ) آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ بتا دیجیے یہ اذیت ( کا زمانہ ہے)، اس لیے محیض (زمانہ حیض یا جہاں سے حیض کے خون کا اخراج ہوتا ہے اس مقام میں) عورتوں سے( جماع کرنے سے) دور رہو اور ان سے مقاربت نہ کرو یہاں تک کہ وہ حالت طہر میں آجائیں (حیض کے ایام ختم ہو جائیں)، پھر جب وہ پاک صاف ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ، جہاں سے اللہ نے تمھیں حکم دیا ہے، اللہ (اپنی طرف) رجوع کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔“ ((البقرۃ 222:2) اس آیت میں اللہ تعالی نے محیض کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ یہ مصدر بھی ہے اور اسم ظرف بھی۔ مصدر ہو تو وہی معنی ہیں جو حیض کے ہیں، لیکن مخصوص ایام میں عورتوں کو خون آنا، یعنی اس کے دوران احتراز کرو۔ اسم ظرف ہو تو ظرف زمانی کی حیثیت سے معنی ہوں گے: حیض کا زمانہ مفہوم یہ ہو گا کہ حیض کے دنوں میں بیویوں کے ساتھ جنسی مقاربت ممنوع ہے۔ ظرف مکان کی حیثیت سےمحیض سے مراد وہ جگہ ہوگی جہاں سے حیض کے خون کا اخراج ہوتا ہے۔ ظرف مکان مراد لیتے ہوئے لسان العرب میں اس آیت کا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے:ان المحيض فى هذاالاية الماتى من المراة لانه موضع الحيض فكانه قال:اعتزلوا النساءفى موضع الحيض ،لاتجامعوهن فى ذلك المكان.
اس آیت میں محیض سے عورت کے جسم )کا وہ حصہ مراد ہے جہاں مجامعت کی جاتی ہے کیونکہ یہی حیض ( کے اخراج کی (بھی) جگہ ہے۔ گویا یہ فرمایا: حیض ( کے اخراج) کی جگہ میں عورتوں( کے ساتھ مباشرت) سے دور رہو، اس جگہ ان کے ساتھ جماع نہ کرو۔‘‘
حیض کا جو بھی معنی میں مفہوم یہی ہے کہ ان دنوں میں بیویوں سے صنفی تعلقات سے پرہیز کیا جائے لیکن، اس باب کی احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو ساتھ رکھا جائے، ان کی طرف التفات اور توجہ کو برقرار رکھا جائے۔
قرآن نے عورتوں کی اس فطری حالت کے بارے میں تمام جاہلانہ افکار کی تردید کر دی ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے فطری
معاملہ ہونے کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا: «هذا شيء كتبه الله على بنات آدم) (صحيح البخارى ،الحيض ،باب كيف كان بدءالحيض ،قبل الحديث:294)یہ ایسی چیز ہے کہ آدم کی بیٹیوں کے بارے میں اللہ نے اس کا فیصلہ فرمایا ہے۔‘‘ قرآن کے الفاظ( و هو اذی )کے معنی ہیں: یہ ادنی اذیت (کم درجے کی تکلیف کا زمانہ)ہے۔ عورت کو یہ اذیت جسمانی تبدیلیوں ، نفسیاتی کیفیت، ناپاک خون اور اس کی بدبو کی وجہ سے پہنچتی ہے۔ اسلام نے اس فطری تکلیف کے زمانے میں عورتوں کو سہولت دیتے ہوئے نماز معاف کر دی اور رمضان کے روزے کے لیے وہی سہولت دی جو مریض کو دی جاتی ہے۔ یعنی ان دنوں میں وہ روزہ نہ رکھے اور بعد میں اپنے روزے پورے کر لے۔
موجودہ میڈیکل سائنس نے بھی اب اسی بات کی شہادت مہیا کر دی ہے کہ ان دنوں میں خواتین بے آرامی، اضطراب اور ہلکی تکلیف کا شکار رہتی ہیں ۔ سنجیدہ قسم کے فرائض ادا کرنے میں انھیں دقت پیش آتی ہے، اس لیے جہاں وہ ملازمت کرتی ہیں ان اداروں کا فرض ہے کہ ان ایام میں عورتوں کے فرائض کی ادائیگی میں سہولت مہیا کریں۔ وہ سہولت کیا ہو؟ روشن خیالی اور حقوق نسواں کا لحاظ کرنے کے دعووں کے باوجود مغربی تہذیب ابھی تک ایسی کسی سہولت کے بارے میں سوچنے سے معذور ہے جبکہ اسلام نے ، جودین فطرت ہے، پہلے ہی ان کے فرائض میں تخفیف کر دی۔
تکلیف اور اضطراب کی اس حالت میں گھر کے دوسرے افراد بالخصوص خاوند کی طرف سے کراہت اور نفرت کا اظہار نفسیاتی طور پر عورت کے لیے شدید تکلیف اور پریشانی کا باعث بن جاتا ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کے خلاف یہودیوں اور دیگر جاہل معاشروں کے ظالمانہ رویے کا ازالہ کیا اور یہ اہتمام فرمایا کہ خاوند کے ساتھ اس کے جنسی تعلقات تو منقطع ہو جائیں، کیونکہ وہ عورت کے لیے مزید تکلیف کا سبب بن سکتے ہیں، لیکن عورت اس دوران میں باقی معاملات میں گھر والوں بالخصوص خاوند کی بھر پور توجہ اور محبت کا مرکز رہے۔ صحیح مسلم کی کتاب الحیض کے آغاز کے ابواب میں اس اہتمام کی تفصیلات مذکور ہیں۔
آگے کے ابواب میں مردوں اور عورتوں کے نجی زندگی کے مختلف احوال کے دوران میں عبادت کے مسائل بیان ہوئے ہیں۔ عورتوں کے خصوصی ایام کے ساتھ متصل یا ملتی جلتی بعض بیماریوں اور ولادت کے عرصے کے دوران میں طہارت کے مسائل بھی کتاب الحیض کا حصہ ہیں۔
اسحاق بن ابی طلحہ نےکہا کہ مجھے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ حدیث سنائی کہ ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا جو (حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ اور) اسحاق کی دادی تھیں، رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپﷺ سے کہنے لگیں جبکہ حضرت عائشہ ؓ بھی آپﷺ کے پاس موجود تھیں، اے اللہ کے رسولﷺ! عورت بھی نیند کے عالم میں اسی طرح خواب دیکھتی ہے جس طرح مرد دیکھتا ہے، وہ اپنے آپ سے وہی چیز ( نکلتی ہوئی ) دیکھتی ہے جو مرد اپنے حوالے سے دیکھتا ہے (تو وہ کیا کرے؟) حضرت عائشہ ؓ کہنے لگیں: ام سلیم! تو نے عورتوں کو رسوا کر دیا، تیرا دایاں ہاتھ خاک آلود ہو (ان کا یہ کہا کہ تیرا دایاں ہاتھ خاک آلود ہو، بری نہیں بلکہ اچھی بات تھی) تو آپﷺ نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سےفرمایا: ’’بلکہ تمہارا دایاں ہاتھ خاک آلود ہو۔ ہاں ام سلیم! جب وہ یہ دیکھے تو غسل کرے ۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا (جو اسحاق کی دادی ہیں) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی موجودگی میں آپﷺ سے پوچھا: اے اللہ کے رسول ﷺ! عورت نیند میں وہی چیز دیکھتی ہے جو مرد اپنے بارے میں دیکھتا ہے (تو وہ کیا کرے) تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا: اے ام سلیم! تو نے عورتوں کو رسوا کر دیا، تیرا دایاں ہاتھ خاک آلود ہو تو آپﷺ نے فرمایا: ’’بلکہ تیرا ہاتھ خاک آلود ہو، ہاں اے ام سلیم ! جب وہ یہ منظر دیکھے تو غسل کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) فَضِحْتِ النِّسَاء: (تو نے ایسی بات کر کے جس کے اظہار میں شرم محسوس کی جاتی ہے) انہیں رسوا کر دیا ہے، کیونکہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے، ان کے اندر، مرد کے پاس جانے کی شدید خواہش ہے۔ (2) تَرِبَتْ يَمِيْنُكِ: عربی محاورہ کی رو سے یہ کلمہ ایسے وقت بولتے ہیں جب کسی کی بات پسند نہ ہو، یا اس پر ناراض اور ناگواری کا اظہار کرنا مقصود ہو یا اس بات کا انکار اور اس پر زجروتوبیخ کرنی ہو یا حیرت وتعجب کا اظہار مقصود ہو، لفظی معنی یا بددعا مقصود نہیں ہوتی، اس لیے آپﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے انہیں الفاظ کو استعمال فرمایا، کہ تیری بات قابل انکار ہے، اس نے تو ایک ایسا دینی مسئلہ پوچھا ہے، جو پوچھنا ہی چاہیے تھا۔
فوائد ومسائل
جس طرح احتلام کی صورت میں مرد کے لیے غسل لازم ہے اگر کبھی عورت کو احتلام ہو جائے تو اسے بھی نہانا پڑے گا محض مخصوص جگہ کے دھونے اور وضو کرنے پر کفایت نہیں کر سکے گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Anas bin Malik (RA) reported: Umm Sulaim who was the grandmother of Ishaq came to the Messenger of Allah (ﷺ) in the presence of 'A'isha and said to him: Messenger of Allah, in case or woman sees what a man sees in dream and she experiences in dream what a man experiences (i. e. experiences orgasm)? Upon this 'A'isha remarked: O Umm Sulaim, you brought humiliation to women; may your right hand be covered with dust. He (the Holy Prophet) said to 'A'isha: Let your hand be covered with dust, and (addressing Umm Sulaim) said: Well, O Umm Sulaim, she should take a bath if she sees that (i. e. she experiences orgasm in dream).