تشریح:
1۔ دنیوی زندگی میں مردوں کے مسائل بے شمار ہیں اور انھیں اپنے مردانہ فرائض سے سبکدوشی کے لیے علم کی زیادہ ضرورت ہے لیکن بہت سے امور عورتوں سے متعلق ہیں اور ان کے خاص مسائل بھی کم نہیں ہیں مثلاً: طہارت و نظافت، حقوق خاوند ، تربیت اولاد وغیرہ اگرچہ عورتوں کو مردوں کی مجالس میں پردے کے ساتھ شمولیت کی اجازت ہے لیکن اس قسم کی حاضری میں تکلف ہوتا ہے اور عورتیں اپنے مخصوص مسائل دریافت کرنے میں حجاب محسوس کرتی ہیں اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ زنانہ تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ امام کو عورتوں کی تعلیم کا مستقل طور پر انتظام کرنا چاہیے جس میں مردوں کا داخلہ ممنوع ہو جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو مردوں کی مجلس میں آنے کا حکم دے سکتے تھے اس میں وقت کی بھی بچت تھی لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا بلکہ ان کے شوق اور مطالبے پر انھیں مستقل طور پر خاص وقت عنایت فرمایا۔
2۔ انسان کے لیے دو وقت بڑی آزمائش کے ہوتے ہیں۔ 1۔ شدت سرور۔ 2۔شدت غم۔ جب انسان پر غیر معمولی خوشی کا غلبہ ہوتاہے تو آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو شریعت کی پابندی سے بےنیاز خیال کرتا ہے اسی طرح غمزدہ انسان بھی شدت غم میں شکوہ و شکایت اور آہ وبکا کو اپنا وظیفہ بنا لیتا ہے بعض دفعہ تو شان ربوبیت کے متعلق نازیبا الفاظ تک کہہ جاتا ہے خاص طور پر عورت کے لیے بچے کی وفات کا صدمہ تو بہت سنگین اور جانکاہ ثابت ہوتا ہے۔ بعض اوقات وہ اس غم سے نڈھال ہو کر کپڑے پھاڑتی اور رخسار پیٹتی ہے حتی کہ اول فول بکنا شروع کردیتی ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ اس کا ذکر فرمایا۔
3۔ والدہ جب چھوٹے بچے سے طبعی محبت کے باوجود اس کی وفات پر صرف اللہ کے فیصلے پر راضی ہو کر صبر کرتی ہے وہ بھی جب دل سے مصیبت کا تصادم ہو۔ یعنی صدمے کی پہلی چوٹ ہو تو گویا خود اس بچے کو اللہ کے حضور پیش کرتی ہے۔ اگرچہ بڑے بچے کی وفات کا صدمہ بھی ہوتا ہے لیکن اس پر حجاب نار کی فضیلت نہیں ہے کیونکہ بچہ جب بڑا ہو جاتا ہے تو اس سے طبعی محبت کے ساتھ عقلی محبت بھی ہو جاتی ہے نیز اس سے کچھ اغراض بھی وابستہ ہو جاتی ہیں مثلاً: یہ بڑھاپے کا سہارا یا کم ازکم بقائے نسل کا ذریعہ ثابت ہوگا، پھر ماں بچے کے لیے مشقتیں بہت اٹھاتی ہے حمل و ولادت کی مشقت کا ذکر قرآن کریم نے بھی کیا ہے۔ (الأحقاف 15:46)
4۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کا حوالہ دوفوائد کے پیش نظر دیا ہے۔ 1۔ پہلی روایت کی سند میں ایک راوی ابن اصبہانی تھا اس روایت میں اس کے نام عبدالرحمٰن کی صراحت کردی۔ 2۔ پہلی روایت میں مطلق بچوں کا ذکر تھا اس روایت میں ان کے نابالغ ہونے کا ذکر فرمایا جو مدار حکم ہے اگرچہ بڑے کی وفات پر صبر کرنا بھی باعث ثواب ہے لیکن حجاب نار صرف نابالغ بچے ہوں گے۔ اس کا حجاب نار ہونا اس لیے ہے کہ والدین کی محبت ان سے بےغرض ہوتی ہے اور ان کی وفات پر صبر کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس حدیث سے متعلقہ دیگر مباحث کتاب الجنائز میں ذکر کیےجائیں گئے۔