تشریح:
(1) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِّن نَّبِيٍّ إِلَّا أَخَذْنَا أَهْلَهَا بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ ﴿٩٤﴾ ﴿ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتَّىٰ عَفَوا وَّقَالُوا قَدْ مَسَّ آبَاءَنَا الضَّرَّاءُ وَالسَّرَّاءُ فَأَخَذْنَاهُم بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ﴿٩٥﴾ ’’ہم نے جب بھی کسی بستی میں کوئی نبی بھیجا تو وہاں کے باشندوں کو شدت اور تکلیف میں مبتلا کر دیا تاکہ وہ عاجزی کی روش اختیار کریں۔ پھر ہم نے ان کی بدحالی کو خوش حالی میں بدل دیا یہاں تک کہ وہ خوب پھلے پھولے اور کہنے لگے اچھے اور برے دن تو ہمارے آباء و اجداد پر بھی آتے رہے ہیں۔ پھر یکدم ہم نے انہیں پکڑ لیا اور انہیں خبر تک نہ ہوئی۔‘‘ (الأعراف95،94:7) ان دو آیات میں اللہ تعالیٰ کے عذاب کی وہی سنت جاریہ بیان کی گئی ہے جس کا ذکر مذکورہ حدیث میں ہے کہ جب کوئی قوم مجموعی طور پر اپنے نبی کی دعوت کو ٹھکرا دیتی ہے تو اللہ کی طرف سے ان پر ہلکا پھلکا عذاب بھیجا جاتا ہے، جیسے قحط سالی، وبائی امراض اور مہنگائی وغیرہ۔ یہ عذاب ان کے لیے ایک تنبیہ کا درجہ رکھتا ہے۔ جب قوم اس کا اثر قبول نہیں کرتی تو خوشحالی سے اس قوم کی آزمائش ہوتی ہے۔ ان کے رزق اور افرادی قوت میں خوب اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ جب وہ اس میں مگن ہو جاتے تو اچانک اللہ کا عذاب انہیں دبوچ لیتا ہے۔ اس حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے قریش کے متعلق اسی قانون الٰہی کو بیان کیا ہے۔
(2) ایک روایت میں ہے کہ جب ان سے عذاب ٹل گیا اور خوشحالی آ گئی تو انہوں نے دوبارہ اسی روش کو اپنا لیا جس پر وہ پہلے تھے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4821)
(3) بعض حضرات نے راوئ حدیث اسباط بن نصر کے بیان کردہ اضافے کو مدینہ منورہ سے متعلق قرار دیا ہے، لیکن ان کا یہ موقف صحیح نہیں۔ اگرچہ مدینہ منورہ میں بھی اس قسم کے حالات پیدا ہوئے تھے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ صحیح بخاری کی اس روایت کو وہم قرار دیا جائے۔ (فتح الباري:659/2)