تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان اور پیش کردہ حدیث سے ایک روایت کی طرف اشارہ کر کے اس کی تائید فرمائی ہے، جسے حضرت انس ؓ نے بیان کیا ہے، فرماتے ہیں: ہم ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بارش کی لپیٹ میں آ گئے۔ آپ نے اپنے بدن سے کپڑا ہٹا لیا حتی کہ آپ کے بدن پر بارش گرنے لگی۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ بارش اپنے رب کے حکم سے ابھی ابھی عالم قدس سے نازل شدہ ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، صلاة الاستسقاء، حدیث:2083 (898))
(2) روایت میں آپ ﷺ کی داڑھی مبارک پر بارش کا برسنا اتفاقی طور پر نہیں تھا بلکہ آپ نے قصداً ایسا کیا، وگرنہ جب مسجد کی چھت ٹپکی تھی تو آپ اسی وقت منبر سے اتر کر ایک طرف ہو سکتے تھے، لیکن آپ نے خطبہ جاری رکھا حتی کہ آپ کی داڑھی سے پانی ٹپکنے لگا۔ (فتح الباري:670/2)
(3) واضح رہے کہ قحط میں مبتلا ہونے اور بارش کی دعا کرنے کے متعلق چار واقعات ہیں جو مختلف ادوار میں پیش آئے ہیں: ٭ ہجرت سے پہلے جب مشرکین مکہ نے رسول اللہ ﷺ کی پشت پر کسی مردار کی اوجھڑی رکھ دی تھی تو آپ نے قحط سالی کی بددعا کی، پھر ابو سفیان کی درخواست پر بارش کی دعا فرمائی۔ ٭ ایک واقعہ 4 ہجری میں پیش آیا جب آپ نے قبیلۂ مضر کے متعلق قحط سالی میں مبتلا ہونے کی بددعا کی تھی۔ یہ وہی قبیلہ ہے جو وفد عبدالقیس سے چھیڑ چھاڑ کرتا تھا۔ ٭ 6 ہجری میں آپ نے باہر جا کر باقاعدہ نماز اور دعا کا اہتمام فرمایا، اس میں چادر بھی پلٹی اور آسمان کی طرف الٹے ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔ ٭ غزوۂ تبوک سے واپسی کے بعد 9 ہجری میں خارجہ بن حصن کی درخواست پر جمعہ کے دن دورانِ خطبہ بارش کی دعا فرمائی جس کے نتیجے میں پورا ہفتہ بارش برستی رہی۔ مذکورہ حدیث میں یہی واقعہ بیان ہوا ہے۔ بہرحال یہ چار واقعات ہیں جنہیں راویانِ حدیث نے باہم خلط ملط کر دیا ہے۔ واللہ أعلم۔