تشریح:
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ’’جو شخص یہاں حاضر ہے اسے چاہیے کہ غائب کو یہ خبر پہنچادے‘‘ ہمیں خبر دار کرتا ہے کہ اگر علمی مجلس میں کوئی دین کی بات کسی کے کان میں پڑے اور وہ اسے محفوظ کرنے میں بھی کامیاب ہو گیا ہو تو اسے چاہیے کہ مجلس سے غیر حاضر کو وہ بات پہنچا دے تاکہ اس ذریعے سے عمل و کردار کی اصلاح ہوتی رہے۔
2۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حالات کی نزاکت کے پیش نظر نمائندگان بلاد کی مشاورت سے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد مقرر کر لیا تھا، ان میں انتظامی صلاحیت اور امور خلافت کی قابلیت موجود تھی، پھر بلاد اسلامیہ کے گورنروں کے ذریعے سے باشندگان سے بیعت لی گئی لیکن حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیعت نہ کی، حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اہل کوفہ کی دعوت پر مدینہ منورہ چھوڑ گئے اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکہ مکرمہ پہنچ کر وہاں کے انتظامات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ یزید نے مدینے کے گورنر عمرو بن سعید کو لکھا کہ مکے میں عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قتال کے لیے لشکر کشی کی جائے۔ جب انھوں نے مدینے سے مکہ مکرمہ لشکر بھیجنے کا ارادہ کیا تو حضرت ابو شریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فریضہ تبلیغ ادا کیا جس کا حدیث میں ذکر ہے۔
3۔ حضرت ابو شریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حق و صداقت پر مبنی باتیں سن کر عمرو بن سعید نے جو جواب دیا وہ (كلمة حق أريد بها الباطل)’’بات صحیح مگر مقاصد برے‘‘ کا آئینہ دار ہے کیونکہ دو مسئلے ہیں۔ ایک ہے حرم مکہ پر فوج کشی اور دوسرا حدود حرم میں مجرم کو سزا دینا۔ اس کا جواب اس لیے غلط تھا کہ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جلیل القدر اور صاحب منقبت صحابی ہیں وہ نہ تو خون ناحق کرنے کے بعد مکہ میں روپوش ہوئے تھے اور نہ انھوں نے چوری ہی کا ارتکاب کر کے یہاں پناہ لی تھی بہر حال گورنرمدینہ عمرو بن سعید کا یہ اقدام فوج کشی کسی طرح بھی درست نہ تھا۔ (فتح الباري: 263/1)