تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے سورج گہن کے وقت نماز کی مشروعیت ثابت کرنے کے لیے ان احادیث کو بیان کیا ہے۔ امت کا اتفاق ہے کہ ایسے حالات میں نماز پڑھنی چاہیے، البتہ اس کی حقیقت و کیفیت کے متعلق اختلاف ہے۔ جمہور کے نزدیک نماز کسوف سنت مؤکدہ ہے، جبکہ محدث ابو عوانہ نے اسے واجب قرار دیا ہے اور اپنی صحیح میں بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: (بيان وجوب صلاة الكسوف)’’نماز کسوف کے وجوب کا بیان۔‘‘ (مسند أبي عوانة:92/2) محدث العصر علامہ البانی ؒ نے بھی اس کے وجوب کو اختیار کیا ہے۔ (تمام المنة، ص:261) لیکن اس کے سنت مؤکدہ ہونے کا موقف ہی راجح معلوم ہوتا ہے۔
(2) نماز کسوف کی کیفیت ادا میں بھی اختلاف ہے اور اس کی بنیاد روایات کا باہم متعارض ہونا ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک رکعت میں ایک رکوع ہے، (المستدرك للحاکم:330/1) جبکہ کچھ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو رکعات میں چھ رکوع کیے۔ (صحیح مسلم، الکسوف، حدیث:2102 (904)) بعض روایات میں ایک رکعت میں چار رکوع کرنے کا ذکر ہے۔ (صحیح مسلم، الکسوف، حدیث:2112 (908)) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رکعت میں پانچ رکوع اور دو سجدے کیے، اسی طرح آپ نے دوسری رکعت میں کیا، گویا دو رکعت میں دس رکوع ہیں۔ (سنن أبي داود، صلاة الاستسقاء، حدیث:1182) لیکن رسول اللہ ﷺ نے زندگی میں صرف ایک مرتبہ نماز کسوف پڑھی ہے، کیونکہ آپ کے لخت جگر حضرت ابراہیم ؑ کی وفات ہوئی تھی، لہذا اس اختلاف کو تعددِ واقعات پر محمول کرنا صحیح نہیں۔ اکثر محدثین نے ان روایات میں سے صرف ان روایات کو ترجیح دی ہے جن میں ہر رکعت میں دو رکوع کرنے کا ذکر ہے، کیونکہ امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ نے ان روایات کو بیان کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ حافظ ابن قیم ؒ نے اپنی مایہ ناز کتاب "زاد المعاد" میں دلائل سے اسی موقف کو ثابت کیا ہے۔ (زادالمعاد، فصل في ھدیه صلی اللہ علیه وسلم في صلاة الکسوف)
(3) یہ سورج اور چاند کرۂ ارض سے کئی گنا بڑے ہیں۔ انہیں گرہن زدہ کرنے سے مقصود غفلت شعار لوگوں کو قیامت کا منظر دکھا کر بیدار کرنا ہے، نیز اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا اظہار بھی ہے کہ مالک حقیقی اگر بے گناہ اور سراپا اطاعت مخلوق کو بے نور کر سکتا ہے تو خطاکار انسان کى گرفت بھی کی جا سکتی ہے۔ علاوہ ازیں اس وقت کرۂ ارض پر بسنے والے بہت سے لوگ کواکب و نجوم کی عبادت کرتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے دو بڑے اور عظیم نورانی اجسام پر کسوف و خسوف طاری کرنے کا فیصلہ فرمایا تاکہ انہیں اپنی قدرت قاہرہ دکھا کر ان پر ان کی غلطی کو واضح کیا جائے اور بتایا جائے کہ ان دونوں اور ان سے بڑے اجرام فلکی کا مالک اللہ وحدہ لا شریک ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے۔ اور ان دونوں کا انتخاب اس لیے فرمایا کہ سورج کی گرمی سے انسانی ضروریات کی اشیاء تیار ہوتی ہیں اور چاند کی روشنی سے ان میں حسن اور خوبصورتی پیدا ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔