تشریح:
(1) اس حدیث کو حضرت عائشہ ؓ سے بیان کرنے والے آپ کے بھانجے حضرت عروہ بن زبیر اور عمرہ بنت عبدالرحمٰن ہیں۔ پھر عروہ سے بیان کرنے والے ان کے بیٹے حضرت ہشام اور امام زہری ہیں۔ ان میں سے ہر ایک نے ایسی باتیں بیان کی ہیں جو دوسرے بیان نہیں کرتے۔ حضرت ہشام کے علاوہ اور کوئی راوی سورج گرہن کے وقت صدقہ و خیرات کرنے کا ذکر نہیں کرتا، اس لیے امام بخاری ؒ نے مذکورہ روایت ہشام پر صدقہ کرنے کا عنوان قائم کیا ہے۔ چونکہ صدقہ و خیرات نماز کسوف کے بعد ہوتا ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے نماز کسوف کے عنوان کے بعد اس موقع پر صدقہ و خیرات کرنے کا عنوان قائم کیا ہے۔ (فتح الباري:683/2) اللہ تعالیٰ اپنی نشانیاں اس وقت دکھاتا ہے جب بندوں کی طرف سے محارم کی پردہ داری اور معاصی کا کھلے بندوں ارتکاب ہوتا ہے۔ بندوں کو ڈرانے اور گناہوں سے باز رکھنے کے لیے ایسی نشانیوں کا ظہور ہوتا ہے، لہٰذا ایسے اوقات میں اللہ کے حضور صدقہ و خیرات کرنا چاہیے تاکہ وہ ہمیں اس وقت اپنے انتقام کا نشانہ نہ بنائے اور ہمیں دیگر مصائب و آلام سے محفوظ رکھے۔ اس روایت میں جرم زنا کو بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ اس جرم کی خصوصیت ہے کہ نفس کا میلان جتنا زنا کی طرف ہوتا ہے اتنا دیگر معاصی کی طرف نہیں ہوتا۔
(2) اس حدیث میں غیرت کو اللہ کی صفت کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو برحق ہے۔ ہم اس کی کوئی تاویل نہیں کرتے۔ ہم اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کو ان کے ظاہری معنی پر محمول کرتے ہیں بشرطیکہ وہ صفات قرآن و حدیث سے ثابت ہوں۔ ان کی تاویل کرنا متکلمین کا طریقہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ غیرت، غصے کے وقت جوش کو کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس قسم کے تغیرات سے پاک ہے۔ ہمارے نزدیک اللہ کی صفات افعال میں تغیر آ سکتا ہے، مثلاً: گناہ کرنے سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے تو انابت اور توبہ سے خوش ہوتا ہے، اس بنا پر ہم صفات باری تعالیٰ میں کوئی تاویل یا تحریف نہیں کرتے بلکہ انہیں جوں کا توں اللہ کے لیے ثابت کرتے ہیں۔
(3) امام بخاری ؒ کی پیش کردہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کسوف کو رسول اللہ ﷺ نے تمام نمازوں سے زیادہ طویل پڑھایا ہے اور سورج کے صاف ہونے تک اسے جاری رکھا ہے۔ صحابۂ کرام نے طویل قیام، بہت لمبے رکوع اور سجود کی کیفیت کو اپنے اپنے الفاظ میں بیان کیا۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ قوی اور صحیح مذکورہ روایت ہے جس میں ہر ایک رکعت کے اندر دو دو رکوع اور دو دو سجدے ہیں۔ اگرچہ بعض روایات میں تین تین، بعض میں چار چار اور بعض میں پانچ پانچ رکوع ہر رکعت میں وارد ہیں مگر مذکورہ روایت پر امام بخاری اور امام مسلم کا اتفاق ہے۔ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ نے بھی اسے ترجیح دی ہے۔ امام بخاری ؒ کا بھی یہی رجحان ہے۔ واللہ أعلم۔