باب: اس بیان میں کہ کیا عورتوں کی تعلیم کے لئے کوئی حاص دن مقرر کیا جاسکتاہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: Should a day be fixed for women in order to teach them religion (apart from men)?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
105.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ تین بچے جو گناہ کی عمر، یعنی بلوغ تک نہ پہنچے ہوں۔‘‘
تشریح:
1۔ دنیوی زندگی میں مردوں کے مسائل بے شمار ہیں اور انھیں اپنے مردانہ فرائض سے سبکدوشی کے لیے علم کی زیادہ ضرورت ہے لیکن بہت سے امور عورتوں سے متعلق ہیں اور ان کے خاص مسائل بھی کم نہیں ہیں مثلاً: طہارت و نظافت، حقوق خاوند ، تربیت اولاد وغیرہ اگرچہ عورتوں کو مردوں کی مجالس میں پردے کے ساتھ شمولیت کی اجازت ہے لیکن اس قسم کی حاضری میں تکلف ہوتا ہے اور عورتیں اپنے مخصوص مسائل دریافت کرنے میں حجاب محسوس کرتی ہیں اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ زنانہ تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ امام کو عورتوں کی تعلیم کا مستقل طور پر انتظام کرنا چاہیے جس میں مردوں کا داخلہ ممنوع ہو جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو مردوں کی مجلس میں آنے کا حکم دے سکتے تھے اس میں وقت کی بھی بچت تھی لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا بلکہ ان کے شوق اور مطالبے پر انھیں مستقل طور پر خاص وقت عنایت فرمایا۔ 2۔ انسان کے لیے دو وقت بڑی آزمائش کے ہوتے ہیں۔ 1۔ شدت سرور۔ 2۔شدت غم۔ جب انسان پر غیر معمولی خوشی کا غلبہ ہوتاہے تو آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو شریعت کی پابندی سے بےنیاز خیال کرتا ہے اسی طرح غمزدہ انسان بھی شدت غم میں شکوہ و شکایت اور آہ وبکا کو اپنا وظیفہ بنا لیتا ہے بعض دفعہ تو شان ربوبیت کے متعلق نازیبا الفاظ تک کہہ جاتا ہے خاص طور پر عورت کے لیے بچے کی وفات کا صدمہ تو بہت سنگین اور جانکاہ ثابت ہوتا ہے۔ بعض اوقات وہ اس غم سے نڈھال ہو کر کپڑے پھاڑتی اور رخسار پیٹتی ہے حتی کہ اول فول بکنا شروع کردیتی ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ اس کا ذکر فرمایا۔ 3۔ والدہ جب چھوٹے بچے سے طبعی محبت کے باوجود اس کی وفات پر صرف اللہ کے فیصلے پر راضی ہو کر صبر کرتی ہے وہ بھی جب دل سے مصیبت کا تصادم ہو۔ یعنی صدمے کی پہلی چوٹ ہو تو گویا خود اس بچے کو اللہ کے حضور پیش کرتی ہے۔ اگرچہ بڑے بچے کی وفات کا صدمہ بھی ہوتا ہے لیکن اس پر حجاب نار کی فضیلت نہیں ہے کیونکہ بچہ جب بڑا ہو جاتا ہے تو اس سے طبعی محبت کے ساتھ عقلی محبت بھی ہو جاتی ہے نیز اس سے کچھ اغراض بھی وابستہ ہو جاتی ہیں مثلاً: یہ بڑھاپے کا سہارا یا کم ازکم بقائے نسل کا ذریعہ ثابت ہوگا، پھر ماں بچے کے لیے مشقتیں بہت اٹھاتی ہے حمل و ولادت کی مشقت کا ذکر قرآن کریم نے بھی کیا ہے۔ (الأحقاف 15:46) 4۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کا حوالہ دوفوائد کے پیش نظر دیا ہے۔ 1۔ پہلی روایت کی سند میں ایک راوی ابن اصبہانی تھا اس روایت میں اس کے نام عبدالرحمٰن کی صراحت کردی۔ 2۔ پہلی روایت میں مطلق بچوں کا ذکر تھا اس روایت میں ان کے نابالغ ہونے کا ذکر فرمایا جو مدار حکم ہے اگرچہ بڑے کی وفات پر صبر کرنا بھی باعث ثواب ہے لیکن حجاب نار صرف نابالغ بچے ہوں گے۔ اس کا حجاب نار ہونا اس لیے ہے کہ والدین کی محبت ان سے بےغرض ہوتی ہے اور ان کی وفات پر صبر کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس حدیث سے متعلقہ دیگر مباحث کتاب الجنائز میں ذکر کیےجائیں گئے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
104
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
102
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
102
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
102
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ تین بچے جو گناہ کی عمر، یعنی بلوغ تک نہ پہنچے ہوں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ دنیوی زندگی میں مردوں کے مسائل بے شمار ہیں اور انھیں اپنے مردانہ فرائض سے سبکدوشی کے لیے علم کی زیادہ ضرورت ہے لیکن بہت سے امور عورتوں سے متعلق ہیں اور ان کے خاص مسائل بھی کم نہیں ہیں مثلاً: طہارت و نظافت، حقوق خاوند ، تربیت اولاد وغیرہ اگرچہ عورتوں کو مردوں کی مجالس میں پردے کے ساتھ شمولیت کی اجازت ہے لیکن اس قسم کی حاضری میں تکلف ہوتا ہے اور عورتیں اپنے مخصوص مسائل دریافت کرنے میں حجاب محسوس کرتی ہیں اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ زنانہ تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ امام کو عورتوں کی تعلیم کا مستقل طور پر انتظام کرنا چاہیے جس میں مردوں کا داخلہ ممنوع ہو جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو مردوں کی مجلس میں آنے کا حکم دے سکتے تھے اس میں وقت کی بھی بچت تھی لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا بلکہ ان کے شوق اور مطالبے پر انھیں مستقل طور پر خاص وقت عنایت فرمایا۔ 2۔ انسان کے لیے دو وقت بڑی آزمائش کے ہوتے ہیں۔ 1۔ شدت سرور۔ 2۔شدت غم۔ جب انسان پر غیر معمولی خوشی کا غلبہ ہوتاہے تو آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو شریعت کی پابندی سے بےنیاز خیال کرتا ہے اسی طرح غمزدہ انسان بھی شدت غم میں شکوہ و شکایت اور آہ وبکا کو اپنا وظیفہ بنا لیتا ہے بعض دفعہ تو شان ربوبیت کے متعلق نازیبا الفاظ تک کہہ جاتا ہے خاص طور پر عورت کے لیے بچے کی وفات کا صدمہ تو بہت سنگین اور جانکاہ ثابت ہوتا ہے۔ بعض اوقات وہ اس غم سے نڈھال ہو کر کپڑے پھاڑتی اور رخسار پیٹتی ہے حتی کہ اول فول بکنا شروع کردیتی ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ اس کا ذکر فرمایا۔ 3۔ والدہ جب چھوٹے بچے سے طبعی محبت کے باوجود اس کی وفات پر صرف اللہ کے فیصلے پر راضی ہو کر صبر کرتی ہے وہ بھی جب دل سے مصیبت کا تصادم ہو۔ یعنی صدمے کی پہلی چوٹ ہو تو گویا خود اس بچے کو اللہ کے حضور پیش کرتی ہے۔ اگرچہ بڑے بچے کی وفات کا صدمہ بھی ہوتا ہے لیکن اس پر حجاب نار کی فضیلت نہیں ہے کیونکہ بچہ جب بڑا ہو جاتا ہے تو اس سے طبعی محبت کے ساتھ عقلی محبت بھی ہو جاتی ہے نیز اس سے کچھ اغراض بھی وابستہ ہو جاتی ہیں مثلاً: یہ بڑھاپے کا سہارا یا کم ازکم بقائے نسل کا ذریعہ ثابت ہوگا، پھر ماں بچے کے لیے مشقتیں بہت اٹھاتی ہے حمل و ولادت کی مشقت کا ذکر قرآن کریم نے بھی کیا ہے۔ (الأحقاف 15:46) 4۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کا حوالہ دوفوائد کے پیش نظر دیا ہے۔ 1۔ پہلی روایت کی سند میں ایک راوی ابن اصبہانی تھا اس روایت میں اس کے نام عبدالرحمٰن کی صراحت کردی۔ 2۔ پہلی روایت میں مطلق بچوں کا ذکر تھا اس روایت میں ان کے نابالغ ہونے کا ذکر فرمایا جو مدار حکم ہے اگرچہ بڑے کی وفات پر صبر کرنا بھی باعث ثواب ہے لیکن حجاب نار صرف نابالغ بچے ہوں گے۔ اس کا حجاب نار ہونا اس لیے ہے کہ والدین کی محبت ان سے بےغرض ہوتی ہے اور ان کی وفات پر صبر کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس حدیث سے متعلقہ دیگر مباحث کتاب الجنائز میں ذکر کیےجائیں گئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، ان سے غندر نے، ان سے شعبہ نے عبدالرحمن بن الاصبہانی کے واسطے سے بیان کیا، وہ ذکوان سے، وہ ابوسعید سے اور ابوسعید خدری ؓ، رسول اللہ ﷺ سے یہی حدیث روایت کرتے ہیں۔ اور ( دوسری سند میں ) عبدالرحمن الاصبہانی کہتے ہیں کہ میں نے ابوحازم سے سنا، وہ ابوہریرہ سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا کہ ایسے تین ( بچے ) جو ابھی بلوغت کو نہ پہنچے ہوں۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری رحمہ اللہ یہ حدیث پہلی حدیث کی تائید اور ایک راوی ابن الاصبہانی کے نام کی وضاحت کے لیے لائے ہیں۔ بالغ ہونے سے پہلے بچے کی موت کا کافی رنج ہوتا ہے۔ اس لیے ایسے بچے کی موت ماں کی بخشش کا ذریعہ قراردی گئی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri (RA)(RA): as above (the sub narrators are different). Abu Hurairah (RA) qualified the three children referred to in the above mentioned Hadith as not having reached the age of committing sins (i.e. age of puberty) .