تشریح:
(1) ممکن ہے امام بخاری ؒ کا رجحان اس طرف ہو کہ جب قاری سجدہ کرے تو سامع کو سجدہ کرنا چاہیے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے اثر سے معلوم ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک مرفوع روایت بھی پیش کی جاتی ہے کہ ایک لڑکے نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آیت سجدہ تلاوت کی، پھر وہ رسول اللہ ﷺ کا انتظار کرنے لگا کہ آپ کب سجدہ کرتے ہیں، جب آپ نے سجدہ نہ کیا تو عرض کرنے لگا: اس آیت میں سجدہ ضروری نہیں ہے؟ آپ نے فرمایا: کیوں نہیں لیکن تو اس سلسلے میں امام ہے، اگر تو سجدہ کرتا ہے تو ہم بھی کرتے۔ اسے ابن ابی شیبہ نے بیان کیا ہے۔ اس کے سب راوی ثقہ ہیں لیکن یہ روایت مرسل ہے۔ (2) اس سلسلے میں جمہور کا موقف یہ ہے کہ سننے والے کو ہر حالت میں سجدہ کرنا چاہیے، خواہ پڑھنے والا سجدہ کرے یا نہ کرے۔ وہ بے وضو ہو یا نابالغ یا عورت ہو، بہرحال آیت سجدہ سننے والے کو چاہیے کہ وہ سجدہ کرے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں: اس مسئلے میں مختلف مذاہب ہیں: بعض حضرات کے نزدیک سننے والے پر سجدۂ تلاوت واجب ہے، خواہ پڑھنے والا کرے یا نہ کرے، خواہ سننے والے کے کان میں اتفاقاً آیت سجدہ کی آواز پڑ جائے یا قصداً اسے سماعت کرے، لیکن بعض حضرات کہتے ہیں کہ جب تلاوت کرنے والا آیت سجدہ پڑھے تو سننے والا اس وقت سجدہ کرنے کا پابند ہو گا جب وہ سننے کا ارادہ کرے۔ اتفاقاً کان میں آواز پڑ جانے سے سجدہ ضروری نہیں۔