تشریح:
(1) حضرت عمر ؓ نے سجدۂ تلاوت کے متعلق اپنے موقف کو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں بیان کیا، اس کے متعلق کسی صحابی نے اختلاف نہیں کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سجدۂ تلاوت کے واجب نہ ہونے پر جملہ صحابہ کا اجماع سکوتی ہے۔ پھر حضرت ابن عمر ؓ نے جو الفاظ نقل کیے ہیں ان میں تو کسی تاویل کی گنجائش نہیں، جیسا کہ بعض حضرات کا موقف ہے کہ سجدۂ تلاوت کی ادائیگی فورا واجب نہیں۔ حضرت عمر ؓ نے واضح طور پر فرمایا کہ جو آیت سجدہ پر سجدہ نہیں کرتا اس پر کوئی گناہ نہیں۔ ایسا موقف کسی نفل کی ادائیگی پر ہی اختیار کیا جا سکتا ہے، واجب کی ادائیگی کے متعلق ایسا نہیں کہا جاتا۔ واللہ أعلم۔ سجدۂ تلاوت کے واجب نہ ہونے پر حضرت ابن عباسؓ سے مروی وہ حدیث دلیل ہے جو پہلے گزر چکی ہے کہ حضرت زید بن ثابت ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے پاس سورۂ نجم تلاوت فرمائی، لیکن آپ نے اس میں سجدہ نہ کیا اور نہ رسول اللہ ﷺ ہی نے انہیں سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ (حدیث: 1072) اگر سجدۂ تلاوت واجب ہوتا تو رسول اللہ ﷺ حضرت زید بن ثابت ؓ کو ضرور اسے ادا کرنے کا حکم دیتے۔ ہمارے نزدیک سجدۂ تلاوت سنت مؤکدہ ہے، واجب نہیں، لیکن اس کا ادا کرنا افضل اور بہتر ہے، کیونکہ ایک تو سنت ہے اور دوسرا یہ کہ اس کی وجہ سے شیطان بھی روتا پیٹتا ہے، جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ واللہ أعلم۔
(2) واضح رہے کہ قرآن مجید میں پندرہ سجود تلاوت ہیں جن کی تفصیل یہ ہے: ٭ سورۃ الاعراف: 208 ٭ سورۃ الرعد: 15 ٭ سورۃ النحل: 50 ٭ سورۃ الاسراء: 109 ٭ سورۂ مریم: 58 ٭ سورۃ الحج: 18 ٭ سورۃ الحج: 77 ٭ سورۃ الفرقان: 50 ٭ سورۃ النمل: 28 ٭ سورۂ تنزیل السجدہ: 15 ٭ سورۂ ص: 24 ٭ سورۂ حم السجدۃ: 38 ٭ سورۃ النجم: 62 ٭ سورۃ الانشقاق: 21 ٭ سورۃ العلق: 19۔
(3) سورۃ الحج کے دوسرے سجدے کی بابت اختلاف ہے۔ احناف اسے تسلیم نہیں کرتے، لیکن بیشتر علمائے امت کا موقف ہے کہ سجدہ ہائے تلاوت کی تعداد پندرہ ہے۔ واللہ أعلم۔