تشریح:
1۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ دس سال تک سفر وحضر،عسر ویسر، خلوت وجلوت میں آپ کے ساتھ رہے۔ کثرت صحبت کے نتیجے میں جس قدر روایات ان سے منقول ہونی چاہیے تھیں، اس قدر نہیں ہیں۔ حدیث بالا میں انھوں نے اس کی وجہ بیان فرمائی ہے۔ ان جیسے محتاط صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کا طرز عمل یہ نہ تھا کہ روایات بیان ہی نہ کرتے تھے بلکہ کثرت روایات سے پرہیز کرتے تھے کیونکہ اس میں بے احتیاطی کا اندیشہ تھا۔ چونکہ کتمان علم پر سخت وعید ہے کہ ایسے لوگوں کو قیامت کے دن آگ کی لگام ڈالی جائے گی، اس بناء پر جہاں ضرورت ہوتی وہاں بیان فرما دیتے۔ اس احتیاط کے باوجود حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بکثرت روایات کتب حدیث میں مذکور ہیں۔ وہ شاید اس وجہ سے ہے کہ آپ نے طویل عمر پائی اور اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ سے پہلے رخصت ہوچکے تھے۔ لوگ مسائل پوچھنے کے لیے آپ کی طرف رجوع کرتے تھے، اس لیے روایات کی کثرت ہوئی اگرچہ یہ کثرت بھی ان کے مجموعہ معلومات کے مقابلے میں اقل قلیل ہے۔ (فتح الباري: 266/1)
2۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اگرمجھے بیان حدیث میں غلطی کا اندیشہ نہ ہوتو میں بکثرت احادیث بیان کروں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صرف اسی حدیث کو بیان کرتے تھے جس کے متعلق آپ کو یقین ہوتا کہ واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی فرمایا ہے۔ اگر کہیں شک پڑ جاتا تو اسے بیان کرنے سے اجتناب کرتے۔ بعض حضرات نے اس بیان سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ آپ روایت باللفظ کا بہت خیال رکھتے تھے، حالانکہ یہ بات درست نہیں، اس لیے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت بالمعنی ثابت ہے جیسا کہ قراءت فاتحہ سے پہلے بسم اللہ پڑھنے تکثیر طعام اور وضو کے وقت پانی کے زیادہ ہونے کے متعلق روایات ہیں۔( فتح الباري: 266/1)