تشریح:
(1) بعض حضرات کا موقف ہے کہ نماز قصر جنگی حالات کے ساتھ خاص ہے۔ وہ دلیل کے طور پر قرآن کریم کی وہ آیت پیش کرتے ہیں جس میں بحالت سفر نماز قصر کو ہنگامی حالات کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔ امام بخاری ؒ نے وضاحت فرمائی ہے کہ دوران سفر میں بحالت امن بھی قصر کی جا سکتی ہے۔ آیت کریمہ میں اندیشۂ دشمن کا ذکر غالب احوال کی بنا پر کیا گیا ہے کیونکہ مسلمانوں کے لیے اس وقت پورا عرب دار الحرب کی صورت اختیار کر چکا تھا۔
(2) امام ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ قصر کی دو اقسام ہیں: ٭ قصر ارکان، یعنی نماز کی ہئیت اور ارکان میں تخفیف کر دی جائے۔ ٭ قصر عدد، یعنی رکعات نماز میں تخفیف کر دی جائے، چار کے بجائے دو۔ جب خوف اور سفر دونوں ہوں تو مطلق قصر، یعنی قصر ارکان اور قصر عدد کیا جائے گا۔ جب خوف اور سفر نہ ہو تو نماز کو پورا ادا کرنا ہو گا۔ جب خوف ہو لیکن سفر نہ ہو تو قصر ارکان سے نماز پوری ادا کی جائے گی، یعنی رکعات کی تعداد میں کمی نہیں ہو گی جیسا کہ غزوۂ خندق کے موقع پر تھا۔ جب خوف نہیں صرف سفر ہے تو مقدار میں کمی ہو سکتی ہے، ارکان کی کمی جائز نہیں، اسے صلاۃ امن کہا جاتا ہے، البتہ رکعات میں کمی کے اعتبار سے اسے نماز قصر کہا جاتا ہے۔ تمام ارکان کے لحاظ سے یہ نماز پوری ہے جیسا کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا تھا: سفر کی نماز دو رکعت، جمعہ بھی دو رکعت، اسی طرح نماز عید بھی دو رکعت، یہ صلاۃ تمام ہے قصر نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی زبان سے ایسا ہی ثابت ہے اور افترا پردازی کرنے والا نقصان میں رہے گا۔ (مسند أحمد:1/37) اس بحث کو امام ابن قیم ؒ نے بڑے اچھے انداز میں پیش کیا ہے۔ (زادالمعاد:1/466)