تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قصر کا تعلق سفر سے ہے اور اتمام کا حضر سے۔ جب سفر شروع ہو گا تو نماز قصر کا آغاز ہو گا جبکہ حضر میں نماز کو پورا کرنا ہو گا۔
(2) سفر کرنے والا جب تک اپنے شہر میں ہے اسے مسافر نہیں کہا جائے گا اور نہ اسے قصر ادا کرنے کی اجازت ہی ہے، جب اپنے شہر سے نکل جائے تو قصر کا آغاز کرے۔
(3) اس حدیث کا قطعاً یہ مقصد نہیں کہ دوران سفر میں قصر کرنا واجب ہے، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو حضرت عائشہ ؓ جو اس حدیث کو بیان کرتی خود دوران سفر میں پوری نماز کیوں ادا کرتیں، البتہ حضرت عائشہ ؓ کا یہ موقف تھا کہ نماز قصر اس مسافر کے لیے ہے جو مسلسل سفر کرتا رہے اور کسی جگہ اقامت نہ کرے۔ جہاں کچھ دنوں کے لیے اقامت کرے گا وہاں نماز پوری ادا کرے گا، پھر جب سفر کا آغاز ہو گا تو قصر نماز ادا کرے گا۔ حضرت عثمان ؓ کے متعلق بھی احادیث میں ہے کہ وہ جب مکہ آتے تو پوری نماز پڑھتے، یعنی ظہر، عصر اور عشاء کی چار چار رکعت پڑھتے، پھر جب منیٰ اور عرفات جاتے تو قصر کرتے، اور جب حج سے فارغ ہو کر منیٰ میں قیام کرتے تو بھی پوری نماز پڑھتے کرتے۔ (فتح الباري:737/2) واللہ أعلم۔
(4) حضرت عثمان ؓ کی تاویل کے متعلق مختلف اقوال ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ آپ نے مکہ مکرمہ میں شادی کر لی تھی۔ ٭ آپ امیر المومنین تھے اور آپ کے لیے سارا علاقہ اقامت کے حکم میں تھا۔ ٭ آپ نے مکہ میں رہائش رکھنے کا عزم کر لیا تھا۔ ٭ آپ نے منیٰ میں زمین خرید لی تھی۔ یہ تاویلیں اس لیے بے بنیاد ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ کے متعلق ان میں سے کوئی بھی منقول نہیں، ویسے بھی ان تاویلات پر کوئی دلیل نہیں۔ رسول اللہ ﷺ اپنی بیویوں کے ہمراہ سفر کرتے تھے اور نماز قصر پڑھتے تھے، اس کے مقابلے میں حضرت عثمان سے متعلق پہلی تاویل کی کوئی حیثیت نہیں ہے، پھر امیر المومنین کے حوالے سے جو تاویل ذکر کی گئی ہے وہ بھی بے بنیاد ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی حیثیت تو ان سے بڑھ کر تھی، لیکن آپ تو دوران سفر میں قصر کرتے تھے۔ تیسری تاویل اس لیے درست نہیں کہ مہاجرین کے لیے مکہ مکرمہ میں اقامت منع ہے، جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ ممکن ہے کہ حضرت عروہ نے یہ تشبیہ صرف نماز کو پورا ادا کرنے میں دی ہو، اس لے نہیں کہ ان حضرات کی تاویلات میں یکسانیت تھی۔ حضرت عائشہ ؓ کے متعلق ایک تاویل حسب ذیل ہے جسے ابن جریر نے اپنی تفسیر جامع البیان (تفسیر طبري) میں بیان کیا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ دوران سفر پوری نماز پڑھتی تھیں۔ جب انہیں اس کے متعلق کہا جاتا تو جواب میں فرماتیں: رسول اللہ ﷺ کو دشمنان اسلام کی طرف سے ہر وقت اندیشۂ جنگ رہتا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو نماز قصر کی اجازت دی تھی، کیا تمہیں بھی کوئی دشمن کی طرف سے خطرہ لاحق ہے؟ (تفسیر الطبري:245/4) گویا حضرت عائشہ ؓ کے نزدیک دوران سفر قصر کرنا اندیشۂ جنگ کے ساتھ مشروط تھا۔ واللہ أعلم۔ بیہقی کی روایت میں حضرت عائشہ ؓ کا دوران سفر نماز پوری پڑھنا بایں الفاظ بیان ہوا ہے، حضرت عروہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ دوران سفر چار رکعت پڑھتی تھیں۔ میں نے عرض کیا آپ دوگانہ کیوں نہیں پڑھتیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ دوران سفر نماز کو پورا ادا کرنا مجھ پر گراں نہیں گزرتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نزدیک دوران سفر قصر کرنا ایک رخصت ہے۔ جس انسان پر اتمام گراں نہ ہو اس کے حق میں یہی افضل ہے کہ وہ اسے پورا کرے۔ (فتح الباري:737/2) حضرت عثمان ؓ کے متعلق ایک اور تاویل کتب حدیث میں مروی ہے، جسے امام بیہقی نے بیان کیا ہے: حضرت عثمان ؓ نے منیٰ میں قیام کے دوران میں نماز پوری ادا کی پھر خطبہ دیا کہ بلاشبہ قصر کرنا رسول اللہ ﷺ اور صاحبین ؓ کی سنت ہے لیکن اعراب (دیہاتی لوگ) بکثرت ہیں، مجھے اندیشہ ہے کہ مبادا وہ دوگانہ نماز کو ہمیشہ کے لیے سمجھ لیں گے۔ اس کی تائید ابن جریج سے مروی روایت سے بھی ہوتی ہے کہ ایک دیہاتی نے منیٰ میں برسرعام پکار کر کہا: اے امیر المومنین! جب سے میں نے آپ کو دوگانہ پڑھتے دیکھا ہے میں اس وقت سے دوگانہ پڑھ رہا ہوں۔ ممکن ہے حضرت عثمان ؓ نے اس وجہ سے منیٰ میں اتمام (پوری نماز) کو اختیار کیا ہو، بہرحال حضرت عثمان اور حضرت عائشہ ؓ کی تاویلات میں کوئی مماثلت نہیں۔ (فتح الباري:737/2) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے بھی شرح تراجم بخاری میں حضرت عثمان ؓ کے قصر نہ کرنے کا یہی سبب بیان کیا ہے اور اسے مستحسن قرار دیا ہے، کیونکہ خیر کثیر کو شر قلیل کی وجہ سے ترک کرنا بھی خیر کثیر ہی ہے۔