تشریح:
(1) اس حدیث میں یہ وضاحت نہیں کہ حضرت عمران بن حصین ؓ نے فرض نماز بیٹھ کر پڑھنے والے کے متعلق سوال کیا تھا یا نفل نماز۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: اگر کوئی شخص فرض نماز مشقت کے باوجود کھڑے ہو کر پڑھتا ہے تو یہ افضل اور اولیٰ ہے، تاہم جو شخص ایسے حالات میں بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو اسے صحیح اور تندرست کا ثواب ملے گا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’جو شخص بیمار ہو جائے یا حالت سفر میں ہو تو ایسے حالات میں جو نیک عمل کرے گا اسے تندرست و مقیم کے برابر ثواب دیا جائے گا۔‘‘ (فتح الباري:755/2) اگر نفل نماز بیٹھ کر ادا کرتا ہے، حالانکہ وہ کھڑا ہو کر ادا کرنے کی ہمت رکھتا ہے تو ایسے شخص کو نصف اجر ملے گا اور بے بسی اور عاجزی کی وجہ سے بیٹھ کر نفل پڑھتا ہے تو اسے پورا ثواب ملے گا، البتہ فرض نماز اگر کھڑے ہو کر ادا کرنے کی ہمت کے باوجود بیٹھ کر ادا کی جائے تو ایسا کرنا صحیح نہیں۔ (عمدةالقاري:433/2)
(2) بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کے عموم سے رسول اللہ ﷺ مستثنیٰ ہیں کیونکہ آپ کی خصوصیت ہے کہ اگر آپ بیٹھ کر بھی نفل ادا کریں تو بھی اللہ کے ہاں آپ کو پورا اجر دیا جاتا ہے، جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں: مجھے ارشاد نبوی معلوم ہوا: بیٹھ کر نماز والے کو نصف اجر ملتا ہے۔ میں نے ایک دن رسول اللہ ﷺ کو بیٹھ کر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو مارے حیرت کے اپنے ہاتھ سر پر رکھ لیے۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے دریافت کیا تو میں نے اپنی حیرت کا سبب بیان کیا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ میں تمہارے جیسا نہیں ہوں۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1715(735))
(3) مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر دیار عرب کے مشہور عالم دین فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ کی تحقیق کا خلاصہ پیش کر دیا جائے، وہ فرماتے ہیں: مریض کے لیے ضروری ہے کہ وہ بحالت قیام نماز ادا کرے اگرچہ جھکاؤ کے ساتھ کھڑا ہو یا کسی دیوار، ستون یا لاٹھی کا سہارا لے کر کھڑا ہو۔ اگر کسی صورت میں کھڑا ہونے کی ہمت نہیں تو بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت ہے لیکن اس صورت میں بہتر ہے قیام اور رکوع کے موقع پر آلتی پالتی مار کر بیٹھے اور سجدہ کے وقت دو زانو بیٹھے۔ (صلاة المریض، ص:8)