تشریح:
1۔ سنن نسائی کی روایت میں یہ واقعہ تفصیل سے بیان ہوا ہے: حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رات کے وقت رسول اللہ ﷺ میرے اور اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ ؓ کے پاس آئے اور ہمیں نماز تہجد کے لیے اٹھایا، پھر واپس اپنے گھر چلے گئے اور کچھ رات تک نماز پڑھتے رہے لیکن ہمارے بیدار ہونے اور نماز پڑھنے کے متعلق کوئی حس و حرکت نہ سنی، اس لیے دوبارہ تشریف لائے، ہمیں اٹھایا اور نماز پڑھنے کے متعلق فرمایا۔ میں نے اپنی آنکھوں کو ملتے ہوئے کہا: اللہ کے رسول ﷺ ! ہم تو اتنی دیر ہی نماز پڑھ سکتے ہیں جس قدر اللہ تعالیٰ نے ہماری تقدیر میں لکھا ہے اور ہماری جانیں تو اللہ کے قبضے میں ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ واپس ہو گئے اور کچھ جواب نہ دیا، البتہ اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے یہ ضرور فرمایا: ’’انسان بہت ہی جھگڑالو ہے۔‘‘ (سنن النسائي، قیام اللیل، حدیث:1813)
(2) تقدیر کے بہانے ترک عمل کو قرآن کریم نے جدل سے تعبیر کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کے تقدیر پر بھروسا کرنے کو پسند نہیں فرمایا، کیونکہ اگر کسی کو کوئی کام کرنے کی طاقت نہ ہو تو وہ معذور ہے مگر جو شخص اپنے آپ کو قدرت کے باوجود عمل کے لیے تیار نہیں کرتا بلکہ تقدیر کا بہانہ بنا کر پست ہمتی کا شکار ہوتا ہے تو وہ مجادل ہے، معذور نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا انہیں بار بار بیدار کرنا نماز تہجد کے متعلق ترغیب کو ثابت کرتا ہے، لیکن انہیں اس کے ترک پر ملامت نہ کرنا اس کے عدم وجوب کی دلیل ہے۔
(3) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام کو اس سلسلے میں سختی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ (فتح الباري:18/3) رسول اللہ ﷺ حضرت علی ؓ کا جواب سن کر خاموش ہو گئے۔ اگر یہ نماز فرض ہوتی تو حضرت علی ؓ کا عذر قابل قبول نہیں ہو سکتا تھا۔